Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Garcia Ka Gadariya

Garcia Ka Gadariya

گارشیا کا گڈریا

اپنے گاؤں کا برسوں پہلے کا ایک اَن پڑھ لڑکا یاد آتا ہے، جب میں شاید مڈل سکول میں تھا اور وہ بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ سکول پڑھ کر مجھے لگتا تھا کہ اب مجھے بہت ساری باتوں کا علم ہے لہٰذا شیخی بگھارنے یا اپنے علم کا رعب جھاڑنے کیلئے میں نے اس نوجوان گڈریے کا انتخاب کیا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارے وطن کا کیا نام ہے؟ برسوں گزر گئے لیکن اس کا جواب مجھے آج تک نہیں بھولا۔

اس نے بڑی معصومیت سے ہمارے گاؤں کا نام لے کر کہا تھا کہ اپنا وطن یہی ہے۔ اس نے پاکستان کا نام نہیں لیا تھا۔ اس نے عمر بھر گاؤں کا نام ہی سنا تھا لہٰذا اس کے نزدیک وہی اس کا وطن تھا اور وہی ملک۔ اس کی ساری زندگی گاؤں کے اردگرد گھومتی تھی اور وہ اپنا سارا دن ان بکریوں کے ساتھ اپنے چھوٹے سے وطن میں گزار کر مطمئن اور خوش رہتا تھا۔ اسے نہ اس گاؤں سے باہر کی دنیا کا علم تھا، نہ وہ رکھنا چاہتا تھا۔ شاید اس وقت میں نے اس جواب پر کہا ہوگا کہ دیکھو اس گڈریے کو اپنے ملک کا نام بھی نہیں آتا۔

شاید میں نے اس کا مذاق اڑایا ہوگا لیکن آج اندازہ ہوتا ہے کہ وہ گڈریا اپنے وطن میں کتنا خوش تھا۔ لاعلمی کبھی کبھار دکھ سے زیادہ سکھ دیتی ہے۔

برسوں بعد جب گارشیا کا شہرہ آفاق ناول "تنہائی کے سو سال" پڑھا، جس کا میرے بڑے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے اردو ترجمہ بھی کیا تھا، تو مجھے سمجھ آئی وطن کیا ہوتا ہے۔ صرف اینٹ کی دیواریں کھڑی کر لینا یا کسی جگہ خاندان بنا کر رہنا یا کھیتی باڑی شروع کر دینا ہی وطن نہیں ہوتا۔

اس ناول میں ایک خاندان مسلسل ہجرت کر رہا ہوتا ہے۔ ایک جگہ وہ چند دن گزارتے ہیں۔ ایک رات خاتون کا شوہر کہتا ہے کہ کل ہم یہاں سے آگے چلیں گے۔ بیوی کہتی ہے کہ نہیں ہم اب یہیں رہیں گے، بس یہی ہمارا وطن ہے۔ خاوند جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ ہمارا وطن نہیں ہے، اس مٹی میں ہمارے پیارے دفن نہیں ہیں۔ وطن وہ ہوتا ہے جہاں آپ کے پیارے دفن ہوں۔ بیوی جواب دیتی ہے کہ اگر یہ بات ہے تو میں آج رات مر جاؤں گی، تم مجھے اسی مٹی میں دفن کردینا پھر یہ میرے بچوں کا وطن ہوگا اور وہ یہیں رہیں گے۔

میں آج تک گارشیا کے ناول کی ان چند سطروں کے رومانس میں مبتلا ہوں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لندن میں دو سال پڑھنے اور اخبار کی رپورٹنگ کرنے کے اور اخبار کے مالک کی پیشکش کے باوجود کہ تین سال کا ورک پرمٹ لے کر مستقل یہیں سے رپورٹنگ کرو، میں پاکستان لوٹ آیا۔ میرا وہاں دل نہیں لگتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میرا سب کچھ تو اُس گاؤں میں ہے جہاں میں پلا بڑھا، یا پھر اس قبرستان میں ہے جہاں میرے والدین اور دیگر رشتہ دار دفن ہیں۔

میں نے اس وقت تک گارشیا کا ناول نہیں پڑھا تھا اور نہ ہی مجھے وطن کی تعریف آتی تھی۔ شاید ہر انسان کیلئے وطن وہی ہوتا ہے جہاں اس کے پیارے دفن ہوتے ہیں، وہ مسافر پرندوں کی طرح روزگار کی تلاش میں ٹھکانے تو بدلتا رہتا ہے لیکن وطن اس کا اپنا گاؤں اور گاؤں کا قبرستان ہی ہوتا ہے۔

اس لیے وہ گڈریا مجھ سے زیادہ بہتر جانتا تھا کہ وطن کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ اُس وقت میں اُس پر ہنسا تھا لیکن آج خود پر ہنس رہا ہوں کہ جو بات مجھے لندن میں دو سال گزار کر اور گارشیا کا ناول پڑھ کر سمجھی آئی، وہ بھیڑ بکریاں چراتے گڈریے کو برسوں پہلے معلوم تھی۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam