دو دوست، دو کتابیں
میں ہمیشہ سے سوچتا تھا کہ ملتان کے ماضی علاوہ ڈاکٹر انوار احمد اور اصفر ندیم سید میں کیا ایسا مشترک تھا جس نے انہیں پچاس برس پر محیط دوستی میں گانٹھ رکھا تھا؟ اس کا جواب مجھے اب جا کر اصغر ندیم سید کی نئی کتاب "پھرتا ہے فلک برسوں" پڑھ کر معلوم ہوا ہے۔
میں نے چند برس پہلے ڈاکٹر انوار احمد کے لکھے خاکوں کی کتاب "یادگار زمانہ ہیں جولوگ" پڑھ کر انہیں میسج کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب شکر ہے میں آپ کے دوستوں میں شامل نہیں ہوں ورنہ جو حشر آپ نے اپنے ملتانی دوستوں یا بزرگوں ساتھ اس کتاب میں کیا ہے وہی میرا ہونا تھا۔
واقعی میں نے شکر کیا تھا۔ جن لوگوں نے ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی وہ کتاب پڑھی ہے وہ اس کا ذائقہ بڑے عرصے تک نہیں بھلا پائیں گے۔ قلم کی کاٹ کے مظاہرے دیکھنے ہوں یا کسی کو ایک جملے میں تیز تلوار کی طرح کاٹ کر رکھ دینا ہو تو ان دو دوستوں کی خاکوں کی دو کتابوں کو پڑھ کر دیکھیں۔ اردو کی خوبصورتی یا فقروں کی کاٹ، لذت یا چس لینی ہو تو یہ دو کتابیں آپ کو کسی اور جہاں کی سیر کراتی ہیں۔
رعایت اگر ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی خاکوں کی کتاب میں نہیں کی تھی تو یقین کریں لاہور اور ملتان کے ادب اور ادیبوں کا لحاظ اصغر ندیم سید نے بھی نہیں رکھا اور جس طرح بڑے بڑے بتوں کا پردہ چاک کیا اس پر بھی میں نے شکر کیا کہ ان کے حلقہ احباب میں کبھی شامل نہیں رہے۔ بلکہ میری تو آج تک شاید ان سے فارمل ملاقات تک نہیں ہوئی۔
آپ نے اگر لاہور کے سیاسی، ادب اور ادیبوں کی تاریخ کو جیفری آرچر کے سنسنی خیز ناول کی طرح سانس روکے پڑھنا ہو تو اصغر ندیم سید کی یہ دو سو سے کم صحفات پر مشتمل کتاب ہی کافی ہے۔
آپ درجنوں کتابیں پڑھنے کی بجائے اصغر ندیم سید کی یہی ایک کتاب پڑھ لیں تو آپ کو لگے گا آپ نے چند گھنٹوں میں نصف صدی کا سفر طے کر لیا ہے اور جب آپ اسے ختم کریں گے تو ایک گہرا سانس لے کر حیرانی سے کچھ دیر تک اس کتاب کو گھورتے رہیں گے واقعی دو سو کم صحفات میں اتنا کچھ چھپا ہوا تھا۔
اگر آپ نے بے رحم تحریریں پڑھنی ہیں اور بڑے بڑے بتوں کو پاش پاش ہوتے دیکھنا ہو یا پھر کچھ کرداروں کی عظمت اور کردار کا قائل ہونا ہو تو ڈاکٹر انوار احمد اور اصغر ندیم سید کے لکھے خاکے پڑھ لیں۔
دونوں پرانے دوستوں کو اپنی اپنی صلاحیتوں کا علم تھا کہ کیسے قلم سے تلوار کا کام لینا ہے لہذا سمجھداری سے ایک دوسرے کو اپنے تیروں سے بچا کر رکھا یا پھر پرانی دوستیاں اہم ٹھہریں۔
بہرحال اسلام آباد کے اس اداس سرد دسمبر میں پڑھنے کو کیا خوبصورت کتاب اصغر ندیم سید نے لکھ دی ہے۔۔