ڈپٹی کمشنر لیہ

میں بچوں کو کم ہی نصحیت کرتا ہوں۔ ویسے ہی ان سے باتیں کرتا رہوں گا۔ مجھے علم ہے میری نصحیت سے زیادہ انہوں نے میرے کردار یا میرے عمل کو دیکھنا ہے۔ میں اگر سگریٹ، جوا، شراب نہیں پیوں گا تو نوے فیصد امکان ہے میرے بچے دور رہیں گے لیکن اگر وہ گھر میں یہ سب کچھ دیکھیں گے تو سو فیصد امکان ہے وہ یہ سب کام کریں گے جب بھی وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوئے اور باپ کا اثر ختم ہوگا۔
ان میں ایک ایڈوائس جو سختی سے کی ہے کہ کبھی سرکاری نوکری یا افسری نہیں کرنی نہ ہی حکومت سے کبھی کوئی کاروبار کرنا ہے۔
یہ سب باتیں مجھے ایک دفعہ پھر اس لیے یاد آرہی ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں یہ سب عہدے بہت بڑا امتحان ہیں۔ عوام ہوں تو ہم خود افسری پروٹوکول چاہتے ہیں لیکن جو پہلے افسر لگ چکے ہیں انہیں سادھو سنت فقیر کی طرح زندگی گزارتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم وہ سب لوگ جو سرکاری افسر یا بیوروکریٹس نہیں ہیں وہ ان سب سے چڑتے ہیں جو افسر ہیں۔ جو ہم سے چند روپے زیادہ کماتا ہے اسے ہم کرپٹ سمجھتے ہیں یا ہم سے اچھا لائف اسٹائل رکھتا ہے۔ اسے شاید حسد کا نام دیا گیا ہے جس کے شر سے بچنے کی دعائیں مانگی گئی ہیں۔
اس لمبی تمہید کا مقصد ڈپٹی کمشنر لیہ امیرا بیدار کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم ہے جس میں ان کی ایک تصویر کو لے کر سارا ہنگامہ ہے۔ اس تصویر میں ان کی پولیس فورس کی فی میل مسلح باڈی گارڈ ہیں جو ان کے ساتھ تھل جیپ ریلی کے ساتھ کھڑی ہیں۔ پوری قوم اس پر ناراض ہوگئی ہے ڈی سی صاحبہ کے ساتھ گارڈز کیوں ہیں۔
میرا تعلق لیہ سے ہے اور تیس برس صحافت کرتے ہوگئے ہیں۔ میں آج تک لیہ کے کسی ڈی سی یا ڈی پی او کو ملنے ان کے دفتر نہیں گیا۔ دو تین دفعہ ڈپی کمشنرز ایسے بھی آئے جو ملنا چاہتے تھے اور بستی آنا چاہتے تھے میں نے انتہائی عزت کے ساتھ معذرت کر لی۔
ایک ڈی پی آو صاحب بتائے بغیر گھر آگئے تو بہت عزت دی لیکن پھر اپنا پروگرام خفیہ کر لیا کہ صرف بہن کو میسج کرتا ہوں کہ دال پکا لینا آج رات پہنچ رہا ہوں۔
ہر دفعہ چپکے سے اپنے گائوں گیا، ایک رات گزاری اور بہن کے ہاتھوں کی دال کھائی، رشتے داروں سے گپ شپ کی، قبرستان گیا اور اسلام آباد واپس۔ اگر دو دن رکا تو پیدل زمینیوں کی طرف نکل گیا۔ مجھ سے اکثر شکایت رہتی ہے کہ میں نہیں بتاتا۔
بتانے کا مقصد یہ ہے دو سال سے امیرا صاحبہ ڈی سی ہیں۔ میری ان سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ آج تک کبھی رابطہ۔
مجھے اس دفعہ لیہ شہر اور اردرگرد کے علاقے کچھ بہتر لگے جس میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے علاوہ صاف ستھرا پنجاب کے افسران رانا شاہد اور دیگر کا بھی یقیناََ کردار ہے۔
اگر امیرا بیدار ضلع کی سربراہ ہو کر اپنی حفاظت کے لیے ویمن سیکورٹی گارڈ لے کر تھل جیب ریلی میں گئی ہیں تو اس میں کون سی قیامت آگئی؟ کیا ہزاروں کے مجمع میں ایک ڈی سی خاتون کو اکیلے جانا چاہئے خصوصاََ جس صوبے میں ابھی ٹی ایل پی کے خلاف ایکشن کیا گیا ہے اور وزیراعلی تک کے بارے خبریں ہیں کہ ان کو بھی خطرہ ہے؟
دو دن پہلے کی بات ہے میں اور جنید مہار اکھٹے جارہے تھے کہ قریب سے کسی وزیر کی سیکورٹی گاڑیاں گزریں۔ تو میں نے کہا کبھی مجھے بھی غصہ آتا تھا کہ یہ کیا بہیودہ حرکت ہے۔ لیکن بنیادی طور پر ہمارے جیسے ملک میں جہاں دہشت گردی عروج پر ہے وہاں کسی وزیر یا کسی سرکاری عہدے دار کو نشانہ بنایا جائے تو جو ملک کا حشر ہوتا ہے اس کے مقابلے میں یہ معمولی قمیت ہے۔
بینظیر بھٹو دن دہاڑے قتل کر دی گئی اس سے اس ملک کا جو امیج بنا وہ ہمیں یاد ہے۔۔ سب سرمایہ کار بھاگ گئے۔ ہوم منسٹر پنجاب کرنل شجاع کو قتل کیا گیا۔ ایک لاکھ بندہ دہشت گردی میں مارا جاچکا ہے۔ ابھی خبیرپختونخوا کا حال دیکھ لیں۔ کوئی جج یا وزیر یا بیوروکریٹ مارا جائے اس کے اثرات کا ہمیں کچھ اندازہ ہے؟ سری لنکا ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا تو برسوں تک کرکٹ پاکستان سے غائب ہوگئی۔
بڑے عہدے داروں کو نشانہ بنانا ہمیشہ دہشت گردوں کی حکمت علمی رہی ہے کہ وہ پولیس اور سیکورٹی اداروں پر حملہ کرتے ہیں۔ تھانے پر حملہ کریں گے کہ اس سے عوام میں خوف و ہراس اور غیریقینی پھیلتی ہے کہ جو فورس اپنا دفاع نہیں کرسکتی وہ ہمارا کیا کرے گی اور یہ دہشت گردوں کا مقصد ہوتا ہے اور وہ عوام پر نفیساتی غلبہ پا لیتے ہیں۔
اس طرح پبلک مواقعوں پر افسران ایزی ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ یہ بڑا آسان تھا ڈی سی صاحبہ کے لیے کہ وہ اس جیپ ریلی سے دور اپنے دفتر رہتیں تو یہی ہم لوگ باتیں کرتے کہ افسر صاحبہ دفتر سے باہر نہیں نکلیں اور اگر وہ عوام کو میسج دینے پہنچی ہیں کہ ہم سب بدل رہے ہیں اور خواتین بھی اب لیڈ کرسکتی ہیں اور وہ ان کے ساتھ موجود ہیں چاہے وہ ڈی سی ہو یا خواتین کمانڈوز تو پورا سوشل میڈیا بندوقیں لے کر پہنچ گیا ہے۔ اگر خواتین کمانڈوز فورس میں بھرتی ہورہی ہیں تو انہیں ساتھ رکھنے میں کیا ہرج ہے؟
کچھ دھیان ہم بھی رکھ لیا کریں۔ جہاں اچھا کام ہو اسے سراہنا چاہیے۔ اس دفعہ ڈپٹی کمشنر لیہ امیرا بیدار، ڈی سی کوٹ ادو منور بخاری اور ڈی مظفرگڑھ عثمان جپہ نے اتنے بڑے پیمانے پر پرامن جیپ ریلی کرا کے بڑا اچھا کام کیا ہے۔ ہمارے علاقوں میں جنونیت، نفرت اور خوف کا بت توڑا ہے۔ ہزاروں نوجوان اور عوام باہر تفریح کے لیے نکلے ہیں۔
یہی ڈی سی جب عوام کو اپنے دفاتر سے میلوں دور رکھتے تھے تو عوام بڑی مطمئن تھی کہ بڑا جلالی اور بارعب افسر ہے۔ آج وہی ڈی سی اپنے دو تین فی میل گارڈز کے ساتھ عوام میں آبیٹھی ہے تو پورا سوشل میڈیا ناراض ہے۔
تو کیا ڈی سی صاحبہ کو ہزاروں کے مجمع میں بغیر سیکورٹی اکیلے آنا چاہئے تھا اور اگر خدانخواستہ کچھ غلط ہوتا تو بھی ہم انہیں ہی ذمہ دار ٹھہراتے کہ بغیر سیکورٹی وہ کیسے وہاں پہنچ گئی تھیں اور پھر یہ پورا سوشل میڈیا سیکورٹی ایکسپرٹ بن جاتا۔۔
اس لیے بچوں کو کہا ہے ہم عوام کسی سے خوش نہیں ہوتے۔ اس لیے سرکاری افسری اور نوکری سے دور رہنا ورنہ روز عدالت لگی ہوگی (میں بھی میڈیا کے طور پر اس میں شامل ہوں گا)۔ عوام کو خوش کرنا ناممکن ہے کہ خود خدا قران میں کہتا ہے انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ جنہیں خدا مطمئن اور خوش نہیں کرسکا اسے انسان کیا کرے گا۔
ہم کسی حال میں خوش نہیں، ڈی سی دفتر سے باہر نہ نکلے تو بھی ہم ناخوش کہ انگریز دور کا بابو ہے اور اپنی دو تین لیڈی گارڈز کے ساتھ ہزاروں کے مجمع میں آکر بیٹھ جائے تو بھی ہم ناراض۔ یہ طے ہے ہم ہر حال میں ناخوش ہیں۔ ہمیں روز سوشل میڈیا پر ایک فساد بھری پوسٹ لکھنی ہے۔۔ جو ہتھے چڑھ جائے۔
آج امیرا بیدار کی باری آئی ہوئی ہے جسے جیپ ریلی پر مبارکباد ملنی چاہئے تھے وہ بے چاری پوری دنیا کو وضاحتیں دے رہی ہیں کہ سیکورٹی گارڈز کے بغیر ہزاروں کے مجمع میں اکیلی کیوں نہیں گئی۔

