بٹ گرام سے اسلام آباد تک

اس دفعہ کسی وجہ سے عید پر گائوں نہیں جاسکا۔ دل بڑا کیا بلکہ دل رہتا ہے گائوں کے اس گھر اور گلیوں میں ہے جہاں پیدا ہوا، کھیل کود کر بڑا ہوا۔۔ گائوں کی ویسے تو ساری شکل بدل گئی ہے، کمرشل ہوگیا ہے۔ بات اب ضرویات سے زیادہ عیاشی بھری زندگی تک پہنچ گئی ہے۔ گائوں کو ایک بڑی دکان میں بدلنے کی وجہ سے ماحول کمرشل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں۔
میرے عزیز رشتہ دار اب وہاں ایک ایک مرلے پر لڑتے ہیں اس لیے بھی اب گائوں جانے سے دل گھبراتا ہے کہ ہر نوجوان وہاں کوئی نہ کوئی فائل اٹھا کر پھر رہا ہے کہ وہ شاید زیادہ کا حقدار تھا۔ خیر یہ الگ داستان ہے جس میں میرا بھی قصور ہے کہ اپنے گائوں کو ماڈل بنوا دیا تھا جس سے زمینوں کی قیتمیں بڑھ گئیں اور ماشاء اللہ سب رشتے ختم ہوئے اور زمین اہم ہوئی۔
خیر سارا دن گھر پر گزارنے کے بعد شام کو ایک طویل واک کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک باریش نوجوان نے مجھے روک کر سیور فوڈ کا پوچھا کہ کہاں واقع ہے۔ اسے سمجھایا کہ وہ سیدھا چلتا جائے آگے جا کر رائٹ سائیڈ پر آئے گا۔ میں چلتا کچھ آگے گیا اور واپسی کے لیے مڑ گیا۔
میں تیز چل رہا تھا تو واپسی پر پر وہی نوجوان پھر وہاں کھڑے دو تین نوجوانوں سے راستہ پوچھ رہا تھا۔
میں نے مسکرا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں آیا جو ستائیس سال سے اسلام آباد رہتا ہے؟ چلیں میرے ساتھ آ جائو۔ میں نے وہیں سے گزرنا ہے۔
خیر وہ باریش نوجوان چل پڑا۔ مجھے لگا وہ شاید یہاں نیا ہے۔ بات چیت شروع ہوئی تو پتہ چلا وہ بٹ گرام سے آیا ہوا ہے۔ آج سارا دن اس نے قربانی کے بیل اور بکرے ذبح کیے ہیں۔
میں نے پوچھا کتنے بیل اور بکرے؟ نوجوان بولا اٹھارہ بیل اور آٹھ بکرے۔
میں نے پوچھا ایک بیل اور بکرے کی کتنی مزدوری لیتے ہیں؟ جواب دیا بیل کی پندرہ ہزار اور بکرے کی سات آٹھ ہزار۔
خود ہی کہنے لگا دراصل میرا بھائی یہاں ہوتا ہے۔ اس نے ہم سب کو بلوایا تھا کہ آجائو عید پر بڑا کام ہے۔ ہم آٹھ دس لوگ ہیں جنہوں نے یہ کام سیکھا ہوا ہے۔ سارا دن یہی کام کیا ہے۔ کل بھی کریں گے۔
اب دیکھ لیں کہ ان سب آٹھ دس لوگوں نے ایک دن میں اپنی حلال کی محنت مزدوری سے کتنا کچھ کما لیا اور ہمارے ہاں ہر دوسرا نوجوان کہتا ملتا ہے کہ کام نہیں ملتا۔
کام کرنے والے کو بٹ گرام میں بھی بیٹھے اسلام آباد سے کام مل جاتا ہے۔