امر شاہد کی آمد اور پرانی کتابوں کا تحفہ
جہلم سے امر شاہد اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ ہم دونوں کے کچھ شوق مشترک ہیں جن میں کتاب اور ہیزل نٹ کافی سرفہرست ہیں۔ جب بھی امر سے ملاقات ہو تو دیر تک ہماری سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے اور وہی کچھ ہوا۔ دونوں نے اسلام آباد کے ایک کیفے پر بیٹھ کر دو گھنٹے سنجیدہ گفتگو کی۔ سنجیدہ گفتگو سے مراد ہے کتابوں پر گفتگو رہی۔
امر ایک تخلیقی ذہن کا انسان ہے۔ ہر وقت اس کے ذہن میں کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے کہ کون سی نئی کتاب چھاپنی ہے، سرورق کیسے بنانا ہے، مصور ایڈیشن سامنے لانا ہے، پروڈکشن معیار مزید بہتر بنانا ہے، اس دفعہ ایسا کیا نیا کیا جائے قاری کتاب کی طرف کھنچا چلا آئے۔
بک کارنر نے جہلم میں بیٹھ کر پبلشنگ کی دنیا میں چند نئے ٹرینڈ سیٹ کیے جو اپنی بقا کے لیے بڑے شہروں کے دوسرے پبلشنگ اداروں کو بھی فالو کرنے پڑے۔
دونوں بھائیوں امر اور گگن کی جوڑی اس لیے اچھی ہے کہ گگن شاہد مارکیٹنگ اور سیلز کا بندہ ہے اور بہت سوشل اور ہنس مکھ ہے جبکہ امر شاہد تخلیقی ذہن کا مالک اور کم کھلتا ہے۔ سنجیدہ اور پکی بات کرنے کا عادی۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے لہذا کام بڑا اچھا چل رہا ہے۔
امر کو پتہ ہے مجھے اولڈ اردو کلاسک بکس پسند ہیں۔ لہذا وہ باکس بھر کر نقوش کے محمد طفیل کے لکھے کلاسک خاکوں کی پرانی کتابیں ڈھونڈ کر لایا اور ساتھ میں نقوش کے پرانے شمارے۔
میں امر شاہد کو بھول کر ان میں کھو گیا۔ چند منٹ بعد احساس ہوا یہ تو بدتمیزی کہلائی گی کہ مہمان خاموش بیٹھا دیکھ رہا ہے۔ میں پاکستان میں جن چند لکھاری یا لوگ جن کی بہت عزت کرتا ہوں ان میں نقوش کے محمد طفیل شامل ہیں۔ اس بندے نے پاکستان میں ادب کی جتنی خدمت کی ہے شاید ہی کسی نے کی ہو۔ میں ان کا بہت بڑا فین ہوں۔ بعد میں پتہ چلا وہ بھی آرائیں تھے۔ ہنسی آئی کہ میری زندگی میں جن چند لوگوں سے متاثر ہوا ان میں آرائیوں کی اکثریت تھی اور یہ کام ڈاکٹر ظفرالطاف سے شروع ہوا جو میرے لیے ایک گرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ ادیب اور بڑے متراجم شاہد حمید بھی آرائیں تھے جنہوں نے ٹالسٹائی کے وار اینڈ پیس اور برادرز کرامازوف جیسے بڑے ناولز کو اردو میں ترجمہ کیا۔
امر شاہد پوچھنے لگے کیا دوبارہ نقوش نکالا جائے؟ میں نے کہا چندہ اب وہ دور گزر گیا۔ وہ گولڈن ایج ختم ہوئی۔ نہ کہانی رہی نہ ادب اور ادیب۔ اب تو جو بڑی گالی دے سکتا ہے وہی ادب ہے وہی ادیب ہے۔ ادب کے نام پر ادیبوں سے گالیاں لکھوا لو اور چھاپ دو۔
امر شاہد نے اپنے ادارے سے بھی چند نئے شاہکار چھاپے ہیں۔ A tale of two cities جیسا شاہکار ہو یا کامیو کا The stranger جس کا ترجمہ براہ راست فرانسیسی سے ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا۔ مجھے یہ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی یہ تو وہی ڈاکٹر افضل ہیں جن کی Diary of diplomat کا میں نیا نیا دیوانہ ہوا ہوں۔
اگرچہ میرا شاعری پڑھنے کا ذوق بہت کمزور ہے لیکن اگر مجھے زندگی میں جو دو تین شعر زبانی یاد ہیں ان میں ہمارے ملتان کے رفعت عباس، اوکاڑہ سے ظفراقبال اور ساہیوال سے مجید امجد کا ایک ایک شعر ہے۔ شاید کوشش کروں تو دو تین اور بھی شعر زبانی آتے ہیں۔ نعیم بھائی یاد آئے جو ہمیشہ کہتے تھے اگر اچھی اردو لکھنی ہے تو شعری پڑھا کرو۔ شاعر سے بہتر لفظوں کی قدر اور عزت اور کوئی نہیں جانتا۔ شاعر ایک ایک لفظ پر محنت کرتے ہیں، سوچتے ہیں اور پھر موتیوں کے ہار کی طرح اپنی ان غیر معمولی لفظوں کو غزل کا لباس اوڑھ دیتے ہیں۔
مجید امجد جیسے بڑے شاعر کا مجموعہ چھاپنا ایک اور بڑا کام ہے جو بک کارنر نے کیا ہے۔ میں نے برسوں پہلے مجید امجد کا ایک شعر پڑھا اور پھر عمر بھر اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ امر شاہد نے مجید امجد کا خوبصورت مجموعہ میرے ہاتھوں میں تھمایا تو میں سب کچھ بھول کر وہی غزل ڈھونڈنے لگ گیا جس کے سحر نے برسوں سے جکڑ رکھا ہے۔
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا