ایئرپورٹ نامہ

ائرپورٹ ہو، بس اڈہ یا پھر ٹرین کا اسٹیشن۔۔ یہ تینوں شور شرابے لیکن بہت دلچسپ اور سیکھنے والی جگہیں ہیں جہاں آپ کو دنیا بھر کی مختلف نسلوں، زبانوں اور رنگوں کے لوگ ملتے ہیں۔
آپ کو اگر جلدی نہ ہو تو آپ مزے سے ائرپورٹ کسی کرسی پر تو اسٹیشن کے کسی بینچ پربیٹھ کر مسافروں کو آتے جاتے دیکھیں تو یہ بھی میرے جیسے فارغ لوگوں کے لیے بڑی دلچسپ تفریح ہے۔
ابھی یہی دیکھ لیں کہ ایک ائرپورٹ پر دوست کافی لینے گیا تو وہاں لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ مجھے کچھ وقت مل گیا تو دو تین دلچسپ واقعات ہوئے۔ ہر طرف مختلف ملکوں کے چہرے، زبانیں اور اسٹائل نظر آرہے ہیں۔۔ کوئی بہت جلدی میں ہے تو کوئی بیگ اور پائوں گھیسٹ کر چل رہے ہیں تو کسی کی آنکھیں سفر کی تھکاوٹ سے بوجھل تو کوئی بینچ ڈھونڈ رہا ہے۔ ہر طرف کچھ نہ کچھ ضرور چل رہا ہے۔ رونق لگی ہوئی ہے۔
ان سب میں مزے کا سین وہ ہے کہ تین افریقن النسل خواتین گپیں مار رہی تھیں اور ان کی باتوں اور بات بات پر قہقوں سے پورا ائرپورٹ گونج رہا ہے۔ وہ تینوں لاپرواہ اپنی گپوں میں مصروف اور انہیں شاید میرے علاوہ کوئی نوٹس بھی نہیں کررہا۔
ان کے جاندار قہقوں نے صبح صبح میرا موڈ اچھا کر دیا ہے اور سفر کی تھکاوٹ بھی اتر گئی ہے۔
مجھے احساس ہوا کہ یہ افریقن النسل بھی ہم ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی طرح اونچا اونچا بولتے ہیں اور ہماری طرح بڑا شور کرتے ہیں۔ دھیرے سے بولنا نہ ہمارے مزاج میں ہے نہ ان کی طبیعت۔
ابھی ان کے قہہقوں پر سے توجہ ہٹی کہ ایک ادھیڑ عمر اسٹریلین پر نظر پڑی جو پریشان گھوم رہا ہے۔ اس کا ایک بیگ گم ہوگیا ہے۔ کبھی اسے ائرلائن کو فون کرنے کا کہا جاتا ہے تو کبھی وہ لاسٹ اینڈ فاونڈ کی طرف تو کبھی وہ سیکورٹی والوں کے پاس۔۔ وہ ٹیم کا فزیو لگ رہا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پندرہ کھلاڑی جنہوں نے اسٹریلیا کی جرسی پہنی ہوئی وہ بھی بغیر رسے کے بندھے کھڑے اس کی آنی جانیان دیکھ رہے ہیں کہ بیگ ملے تو وہ باہر نکلیں۔
حیرانی کی بات ہے اس فزیو کی بیگم صاحبہ بڑے سکون اور تسلی سے کھڑی ہیں اور اسے ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کررہی کہ میری قسمت پھوٹی تم سے شادی کی کہ تمہارا یہ حال ہے کہ ائرپورٹ پر اپنا بیگ بھی کھو چکے ہو۔۔
مجھے اس مرد پر رشک آیا جسے اتنی باحوصلہ بیوی ملی تھی۔ ابھی تک وہ بے چارا بدحواس ہو کر گھوم رہا ہے۔۔ دیکھتے کب تک اس کا سرکس جاری رہتا ہے اور اس کی بیوی کا حوصلہ قائم رہتا ہے۔
اب منظر بدلتا ہے۔ سامنے سے دو نوجوان گوری خواتین چلتی نظر آئیں۔ دونوں نے بلیک کلر پہنا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک ماں تھی جس نے آگے بچہ اٹھایا ہوا تھا۔
میری نظر بچے پر پڑی تو وہ مسلسل اپنی ماں کی بجائے ساتھ چلتی دوسری خاتون کو گھورے جارہا تھا۔ چھوٹا سا بچہ شاید چھ ماہ کا ہوگا۔
میری نظر ان پر پڑی تو مجھے دونوں بہنیں لگیں اور وہ بھی جڑواں۔۔ اتنی مشابہت۔ پہلے چھ ماہ کا بچہ کنفیوز تھا کہ ان میں سے اسکی ماں کون سی ہے۔
اب میں کنفیوزبیٹھا ہوں۔۔

