اگلا دوراے آئی کا ہے

کچھ دن پہلے مجھے میرا ایک عزیز نوجوان لڑکا ملنے آیا۔ گھبرو سوہنڑا نوجوان۔ کہنے لگا میں نے ایم اے کر لیا ہے۔ اب ایم فل کروں گا۔ پھر پی ایچ ڈی۔ وہ نوجوان آج کل نوکری بھی کررہا ہے۔
ایم اے کا سن کر میں خوش ہوا لیکن جب اس نے ایم فل کی بات کی تو میرا موڈ خراب ہوا۔ اب یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ میں نے خود نہیں کی یا اتنی قابلیت نہیں تھی کہ کرپاتا لہذا کسی نوجوان سے سن کر جیلس ہوا۔
میں نے اس نوجوان کو کہا آپ کو پتہ ہے امریکہ میں گریجویشن تک تعلیم ہی تعلیم سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی ماسٹر کرے تو کرے جو بہت کم کرتے ہیں یا کچھ سالوں بعد کسی نئی فیلڈ میں کرتے ہیں لیکن اکثر وہاں نوجوان گریجویشن بعد پریکٹکل لائف جوائن کرتے ہیں۔ پی ایچ ڈی تو وہاں بہت غیر معمولی لوگ کرتے ہیں اور ریسرچ کرتے ہیں اور نوبل پرائز تک لے اڑتے ہیں۔
پاکستان میں پی ایچ ڈی اکثر استاد یا فی میل ٹیچرز کرتی ہیں وہ بھی پروموشن لینے کے لیے یا کسی کالج کا پرنسپل لگنے کے لیے۔
میں نے پی ایچ ڈی نہ خود کی نہ بچوں کو کہا کہ وہ کریں۔ یہ بھی ہمارے جیسے کلچر میں پڑھا لکھا صرف ایم اے کو سمجھا جاتا ہے ورنہ شاید میں اپنے بچوں سے بھی ماسٹرز نہ کراتا۔
میں نے کہا آج کل جس کاپی پیسٹ کے زریعے پی ایچ ڈی ہو رہی ہے اس نے تو پی ایچ ڈی کا نام ہی بدنام کر دیا ہے۔ اب تو پی ایچ ڈی چھپتی پھرتی ہے کہ کوئی میرے پیچھے نہ لگ جائے۔ جب نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جائے تو اس کی لاج رکھنا آپ کا کام ہے۔ یہاں میں جانتا ہوں پی ایچ ڈی جو دو انگریزی کی سطریں نہیں لکھ سکتے یا ان سے گفتگو کریں تو آپ کو لگے کسی پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے بات کررہے ہیں۔ لہذا آپ رہنے دیں۔
ہاں آگے پڑھنا ہے تو اب جدید AI سائیڈ کی طرف جائیں۔ اس کے کورسز تلاش کریں۔ اب تو آن لائن بہت کچھ دستیاب ہے۔ آرٹیفشیل انٹیجلنس اب نئی دنیا اور نیا فیوچر ہے۔ اب مزید اس پر اپنی توجہ رکھیں۔ خود کو ہنرمند اور کارآمد بنائے۔
میں نے کہا میرے رئوف کلاسرا آفیشل فیس بک پیج/یوٹیوب کے لیے چار پانچ نوجوان کام کرتے ہیں جن میں ارسلان احمد، دانیال ہاشمی اور سلمان سرفہرست ہیں جنہیں جیب سے تنخواہ دیتا ہوں۔
میرے اپنے جیسل کلاسرا گائوں کے ایک بھی پڑھے لکھے لڑکے کے پاس ہنر نہیں ہے کہ وہ میرے فیس بک پیج پر کام کرسکے اور میں اسے ہر ماہ تنخواہ دوں۔ وہ ابھی بھی تیس چالیس ہزار کی سرکاری نوکری مانگتا ہے تاکہ کام نہ کرنا پڑے یا اگر کرے تو سرکاری تنخواہ کے علاوہ کچھ اوپر بھی کما لے۔
مجھے ایک بھی بستی کے لڑکے نے آج تک نہیں کہا کہ ہمیں اپنے فیس بک پیج کا کام دیں۔ ہمیں کام آتا ہے۔ ہم کریں گے۔ وہ پیج جس پر ہر ماہ بارہ کروڑ لوگ وزٹ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ سب بیکار کام ہے۔۔ تیس چالیس ہزار کی سرکاری نوکری چائیے۔ وہی بات کون اتنی محنت کرے کہ آخرکار کم جوان دی موت اے۔
جنید مہار نے لطیفہ سنایا تھا کہ کچھ سرائیکی دوست بیٹھے تھے تو اوپر سے ایک اور دوست آگیا۔ وہیں سنگت میں موجود ایک اور دوست چرس کا سگریٹ بھر رہا تھا۔
اس باہر سے آنے والے دوست نے کہا یار تمہیں چرس بھرے سگریٹ پینے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟
اس چرس بھرتے دوست نے حیرانی سے اوپر دیکھا، سگریٹ اور ہتھیلی پر رکھی چرس دور پھینک کر کہا بھاہ لگے ایکوں۔۔ چرس بھرا سگریٹ پینا بھی اگر کام ہے تو آج سے یہ بھی بند۔۔ میں تو سمجھا تھا یہ ٹھنڈ پروگرام ہے۔۔ عیاشی ہے اور تم کہہ رہے ہو یہ کام ہے۔

