Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Aaina Kyun Na Doon

Aaina Kyun Na Doon

آئینہ کیوں نہ دوں

اقبال دیوان بیوروکریٹ سے میرا تعارف شاید 1999/2000ء میں ہمارے پیارے ڈاکٹر ظفر الطاف کے وزارتِ زراعت کے دفتر میں ہوا تھا، لیکن ان کے اتنے شاندار لکھاری ہونے کا تعارف ڈاکٹر ظفر الطاف کی 2015ء میں وفات پر "سویرا" میں لکھے گئے ایک شاندار مضمون سے ہوا تھا۔

مجھے یاد پڑتا ہے ڈاکٹر صاحب نے اقبال دیوان کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا، ان سے ملیں، یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے 1980ء کی دہائی میں کراچی میں الطاف حُسین کو گرفتار کیا تھا۔

میں نے چونک کر انھیں پہلے غور اور پھر مرعوبیت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ مجھے کہیں سے نہ لگا کہ معصوم انسان بھی الطاف حُسین کو ان کے گڑھ سے گرفتار کرکے لا سکتا تھا؟

آنے والے برسوں میں جوں جوں میرا تعلق بڑھتا گیا، مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ نہیں واقعی ذہین گہری آنکھوں اور زرخیز دماغ والا یہ میمن افسر بہت کچھ کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔

بہت کم بیوروکریٹس ادیب بن کر اُبھرے اور اقبال دیوان اس خاص کیٹیگری میں سے ایک ہیں جو لکھتے ہیں اور بہت اچھا لکھتے ہیں کہ دل سے زیادہ اپنے غیرمعمولی دماغ کی سوچوں کو بڑے پیار اور احتیاط سے نکال کر کاغذ پر رکھ دیتے ہیں اور مجال ہے کہ رحم کریں۔

خیر بات ہو رہی تھی ڈاکٹر ظفر الطاف پر لکھی گئی obituary کی۔ میرا خیال تھا میں نے ڈاکٹر ظفر الطاف پر جو کالموں کی سیریز لکھ دی تھی، شاید اس سے بہتر اور کیا لکھا جائے گا، کیونکہ میرا ان سے اٹھارہ برس کا تعلق تھا اور تقریباً ہر دوپہر اکٹھے گزری، بلکہ کئی شامیں بھی۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے ہر پہلو کو بڑے قریب سے دیکھا تھا۔ ان کے اچھے برے دنوں کا عینی شاہد تھا۔ انھیں مشکل وقت میں گریس اور شان کے ساتھ کھڑے بھی دیکھا۔ جہاں انھیں دوستوں کے دھوکے، منہ زور حکمرانوں کے انتقام کے سامنے ڈٹ کر کھڑا دیکھا تو وہیں غریبوں، کسانوں اور عام انسانوں کے لیے ان کے دل میں بے پناہ محبت بھی دیکھی تھی۔ ایک ذہین اور بہادر انسان۔ ایک ایسا دوست جس پر آپ عمر بھر بھروسا کر سکتے تھے۔ مجھے لگتا تھا اگر کوئی اور زندگی ملتی اور مجھے کہا جاتا کہ شرط ایک ہے کہ عمر بھر دوست ایک ہی ملے گا، تو میں بلاجھجک ڈاکٹر ظفر الطاف کا نام لیتا کہ وہ ایک مکمل پیکیج تھے جن کے ساتھ آپ ساری عمر گزار سکتے تھے اور شاید آپ کو دیگر دوستوں کی ضرورت نہ پڑتی۔

جس ظفر الطاف کو میں جانتا تھا، وہ کچھ اور تھا اور جس کی تصویر کشی اقبال دیوان نے کی تھی، وہ کچھ اور ہے۔ میں نے انھیں ایک دوست اور مرعوبیت کی آنکھ سے دیکھا تھا جس میں آپ دوستوں کی بہت ساری خامیوں کو بھی نظر انداز کر جاتے ہیں۔ لیکن اقبال دیوان نے انھیں ایک ماتحت کے علاوہ اپنی کڑی آنکھ سے دیکھا اور ان کی شخصیت کے وہ پہلو سامنے لائے جو کم از کم میری نظر سے اوجھل تھے۔ انھوں نے اس کتاب میں شامل ڈاکٹر صاحب پر لکھے گئے طویل مضمون سے انصاف کیا ہے اور ان کی شخصیت کے ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

ویسے تو چھوٹے بڑے سب ڈاکٹر صاحب کے لاڈلے تھے لیکن ان لاڈلوں میں اقبال دیوان کا اپنا مقام تھا اور وہ انھیں بہت اہمیت اور احترام دیتے تھے۔ تقریباً چار دہائیوں کے قریبی تعلق کے باوجود بعض جگہوں پر اقبال دیوان نے ان کے ساتھ بھی بالکل رعایت نہیں کی تو اندازہ کریں اس کتاب میں باقی کرداروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔

اقبال دیوان نے ڈاکٹر صاحب کی بعض "شخصی خوبیوں" کو ان کی "انسانی کمزوری" بنا کر پیش کیا ہے، جیسے ڈاکٹر صاحب کا ہر دوست، ماتحت یا قریبی حتیٰ کہ اجنبی انسانوں پر بھی اندھا دھند بھروسا کرنا، جس کا یقیناً انھیں بہت نقصان ہوا اور بہت بھگتا بھی۔ لیکن کیا کریں یہی بات ڈاکٹر صاحب کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھی کہ مادہ پرست اور خود غرض دنیا میں وہ ایسے بے لوث شخص تھے جنھیں دوسروں میں صرف اچھائی نظر آتی تھی۔ یہ بات نہیں کہ وہ کوئی بے وقوف یا سادہ لوح انسان تھے جنھیں ہر کوئی استعمال کر لیتا تھا۔ ہرگز نہیں۔ وہ ایک سمجھدار اور ذہین انسان تھے۔ وہ سب سمجھتے تھے لیکن کسی کا دل نہ دکھا پاتے، لہٰذا استعمال ہو جاتے۔ وہی بات کہ تسی لنگھ جائو ساڈی خیر اے۔

مجھ سے پوچھیں تو ان جیسا ذہین بندہ ان کے بعد مجھے کوئی نہ ملا۔ ان کی بڑی خوبی ہی یہی تھی کہ وہ انسانوں اور ماتحتوں پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے۔ وہ تو اقبال دیوان اور رؤف کلاسرا پر بھی اندھا اعتماد کرتے تھے۔ فرض کریں اگر ان کا اعتماد میرے جیسے لوگوں نے توڑا تو اس میں ڈاکٹر صاحب کا کیا قصور تھا؟ ان کا دل بہت بڑا تھا اور یہی چیز انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ جو بندہ برسوں تک لنچ پر درجن بھر لوگوں کو روز اپنی جیب سے کھانا کھلائے اور ہر ایک کی پلیٹ میں خود کھانا ڈالے اور کھانا کم ہونے پر ان دوستوں کے جانے کے بعد انڈوں کی بھجیا بنوا کر کھائے اور اس میز پر موجود چند دوست انھیں دھوکا دیں تو اس میں قصور ڈاکٹر صاحب کا تو نہیں نکلتا۔

وہ جن لوگوں کو پسند کرتے تھے تو بہت کرتے تھے اور جنھیں ناپسند کرتے تھے ان کے بارے میں بھی سب کو علم تھا۔ اقبال دیوان نے جو ڈاکٹر صاحب کی انسانی کمزوریاں بیان کی ہیں سب نے ان سے فائدہ اٹھایا، لیکن وہ اس میں خوش اور مست رہے۔ ان کی مہربان فطرت، دریا دل طبیعت، سخی مزاج عادت اور انسانوں کو ان کے انسان ہونے کا ضرورت سے زیادہ مارجن دینا ہی میرے نزدیک ان کو ایک اعلیٰ انسان بناتا تھا، ورنہ ہر دوسرا آدمی خود کو بہت چالاک اور مکار سمجھ کر اپنے لالچی چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے، جیب میں چاقو چھپائے پھرتا ہے۔ اگر ان میں پائی جانے والی یہ خاصیتیں اقبال دیوان کے نزدیک ان کی کمزوریاں اور میرے نزدیک ان کی خوبیاں نہ ہوتیں تو شاید یہ وہ ظفر الطاف نہ ہوتے جن کے ہم ہمیشہ گرویدہ رہے۔ شاید نہ ان پر آج اقبال دیوان لکھتا، نہ میں کالمز اور نہ ہم برسوں بعد بھی ان کےغم بھی نڈھال ہوتے۔

دنیا سمجھدار اور سیانے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو crook اور عیار ہیں۔ ایسی دنیا میں ڈاکٹر صاحب جیسے چند بھولے بھالے لوگوں کا دم اس کائنات میں غنیمت ہے کہ جنھیں کوئی بھی جب چاہے اپنی ضرورت کے لیے استعمال کر لے، چاہے بعد میں ڈاکٹر صاحب نیب، ایف آئی اے یا پنجاب اینٹی کرپشن میں پیشیاں بھگتتے رہیں۔ ویسے بھی فائدہ بھی تو لوگ اس سے اٹھاتے ہیں جسے خدا نے کچھ عنایت کیا ہوتا ہے، جس پر خدا کا کرم ہوتا ہے۔

نواز شریف کے لاڈلے سیف الرحمٰن اور جنرل مشرف سے شہباز شریف تک کتنے ہی حاکموں نے انھیں ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں ڈالنے کی کوشش کی، لیکن انھیں عام انسانوں کی دعائیں تھیں کہ وہ ہر مصیبت اور عذاب سے بچ نکلے۔ ان سے کسی کو انکار ہوتا ہی نہیں تھا۔ یہ لفظ ان کی فطرت میں تھا ہی نہیں۔ انھیں فطرت اور خدا نے ایسے ہی پیدا کیا تھا۔ وہ ایک غیرمعمولی انسان تھے، اسی لیے ایک دفعہ صدر زرداری نے انھیں کہا تھا میرے بس میں ہو تو آپ کی کلوننگ کرائوں کیونکہ زراعت اور کسانوں کو آپ جیسا دماغ پھر نہیں ملے گا۔

اس کتاب میں شامل دیگر تحریریں، انھیں آپ خاکے کہیں یا مضامین، آپ کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ پہلے کس کو پڑھا جائے اور یہ ذہن میں رکھیں کہ جتنی عرق ریزی اور تفصیل کے ساتھ ایک ایک لفظ پر محنت کی گئی ہے وہ آپ کو باندھ کر رکھے گی۔ یہ کوئی فکشن نہیں ہے، ہارڈ فیکٹس ہیں، اگرچہ یہ سب کچھ لکھا فکشن کے انداز میں گیا ہے اور اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ بعض دفعہ تو آپ سانس لینا تک بھول جاتے ہیں۔ نان فکشن کو فکشن کی طرح لکھنا بھی ایک خوبصورت فن ہے جس کی مثالیں بار بار آپ کو اس غیرمعمولی کتاب میں ملیں گی۔ اقبال دیوان کیونکہ ایک میمن ہے، لہٰذا اس نے کہیں بھی ایک لفظ فضول نہیں لکھا، نہ ہی کوئی فقرہ ضائع کیا، ہاں ان جاندار اور کاٹ دار فقروں کے چکر میں بہت سارے اہم بندے بالکل ضائع کر دیے۔ ہر صفحے پر آپ کو ایسے جملے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ آپ اش اش کر اٹھتے ہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی تحریر اور فقروں کی خوبصورتی کی داد دوں یا ان کی یادداشت کی۔ برسوں پہلے کی ایک ایک کہانی چھوڑیں، ایک ایک تفصیل یاد ہے، حتیٰ تک کہ کسی خوبصورت چہرے کی نوے کی دہائی کی اداس آنکھیں ابھی تک یاد ہیں۔

اقبال دیوان دِکھنے میں آپ کو جیمز بانڈز نہیں لگتے، لیکن ان کے کارنامے جیمز بانڈز سے کم نہیں ہیں۔ انھوں نے جس طرح الطاف حُسین اور ایم کیو ایم، کراچی کے سہراب گوٹھ، پٹھانوں، افغانوں، مہاجروں اور پنجابیوں سندھیوں کی ٹرف وار کا نقشہ کھینچا ہے، اس سے لگتا ہے آپ کی نظروں کے سامنے بڑے پردے پر کوئی بلاک بسٹر فلم چل رہی ہے اور آپ سینما ہال کے ایک کونے میں اپنی نشست پر بیٹھے پاپ کارن بھول کر اپنی انگلیاں اور ناخن چبا رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔

اقبال دیوان ایک حوالے سے خوش قسمت رہے ہیں کہ انھیں جونیئر افسر ہوتے ہوئے بھی اپنے اعلیٰ افسران کا اعتماد حاصل رہا اور وہ بھی ہر اعتماد پر پورے اترے۔ ان کی برسوں تک سرکاری جاب کی وجہ سے ٹاپ سے لے کر نچلے لیول تک جو انسانوں سے رابطہ اور واسطہ رہا اس نے ان کے اندر بے پناہ صلاحیت پیدا کر دی کہ وہ لوگوں کی نہ صرف پہچان چند سکینڈز میں کر لیتے ہیں بلکہ انھیں مشکل سے مشکل لوگوں اور صورتِ حال کو ہینڈل کرنے کا فن بھی خوب آتا ہے۔

آپ الطاف حُسین کی رضاکارانہ گرفتاری کا قصہ ہی پڑھ لیں کہ کیسے ایک اداس آنکھوں والی خاتون کو قائل کیا کہ وہ الطاف حُسین کو گرفتاری پر قائل کریں اور وہ قائل ہوئے۔ جس کام سے سب بڑے چھوڑے ڈر رہے تھے وہی کام ایک اداس آنکھوں والی خوبصورت سیاسی خاتون نے کر دکھایا اور کرانے والا یہ میمن بچہ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھیں افسرانِ بالا پسند کرتے تھے لیکن جہاں آپ کو اوپر لیول تک سراہا جاتا ہو وہاں پھر آپ کے خلاف حسد اور دشمنیاں بھی پل جاتی ہیں۔

جب میں افغانوں، پٹھانوں، مہاجروں، سندھی، پنجابیوں کی کراچی میں خوفناک ٹرف وار اور الطاف حُسین کی گرفتاری کا باب پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں بار بار قرۃُ العین حیدر کا "آگ کا دریا" چل رہا تھا۔ کراچی کے حالات کو اگر کسی نے ڈوب کر سمجھا ہے تو وہ پہلے قرۃُ العین حیدر اور اب اقبال دیوان ہیں۔ قرۃُ العین حیدر کے پچاس کی دہائی میں لکھے گئے کلاسک ناول کے اس باب کو پڑھیں جو انھوں نے کراچی کے بارے میں لکھا اور پھر اقبال دیوان کے اس باب کو پڑھیں تو آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ان دونوں تحریروں کے درمیان شاید 65 سال کا فرق ہے۔

یہ باب پڑھتے ہوئے مجھے اپنے نعیم بھائی یاد آ گئے، جو کہتے تھے کہ اگر یورپ کی تاریخ پڑھنی ہے تو درجنوں تاریخ کی کتابیں پڑھنے کی بجائے عظیم ناول نگار ٹالسٹائی کا "وار اینڈ پیس" پڑھ لیں۔ باقی کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہی میں"آگ کا دریا" میں کراچی پر لکھے گئے غیر معمولی باب اور اقبال دیوان کی اس کتاب میں شامل باب کے بارے کہوں گا کہ ان دو ابواب کو پڑھنے کے بعد آپ کو کراچی کے بارے میں کسی اور کو پڑھنے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دونوں نے اس شہر کا جو نوحہ لکھا ہے اور انسانی نفسیات کو سمجھ کر لکھا ہے، وہ کمال ہے۔

صحافی ہونے کے ناتے میں بھی کراچی کے حالات کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں لیکن جس طرح اقبال دیوان نے لکھا ہے وہ سب کچھ میرے لیے یوں سمجھ لیں بالکل نیا ہے۔ انھوں نے اس شہر اور اس پر راج کرنے والے سیاسی مافیاز کو بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ سہراب گوٹھ سے شروع ہونے والے فسادات کا جس طرح خوفناک نقشہ کھینچا ہے، اسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر جو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سید غوث علی شاہ کی طبیعت اور مزاج پر روشنی ڈالی ہے اس سے آپ کو اقبال دیوان کی قوتِ اظہار اور انسانی آبزرویشن سے بڑھ کر ایک ادیب کی بے رحمی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

مجھے اس باب میں سب سے اچھا وہ جملہ لگا ہے، جب وہ ایم کیو ایم کے ایک لیڈر کے گھر چھاپہ مارتے ہیں اور باپ کو پولیس کہتی ہے کہ بیٹے کو فون لگائو اور اسے بلائو اور باپ کہتا ہے کہ بیٹا فوراً گھر آئو، بہت سارے مہمان آئے ہیں جو ایک اشارہ ہے کہ پولیس آئی ہے۔

ایک پولیس والا باپ کو مارنے دوڑتا ہے تو دیوان اور ڈی ایس پی اسے روک دیتے ہیں کہ "یہ ہماری حکم عدولی نہیں باپ کا پیار ہے"۔۔ یہ ایک جملہ پوری کتاب پر بھاری ہے۔

کراچی جیسے شہر کی بربادی کا اس سے بہتر نوحہ نہیں لکھا جا سکتا تھا۔ ایم کیو ایم کے جنم کی کہانی جو ایک ایسے عینی شاہد کی زبانی ہے جو ان دنوں اسی شہر میں اہم سرکاری عہدوں پر تعینات تھا کہ کیسے لسانی گروپ ابھرے جنھیں کلاشنکوف کے ساتھ موت کے سوداگروں کی بھی سپورٹ تھی اور انھوں نے خوبصورت شہر کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنا لیا۔ سب نے اس شہر کی بربادی میں حصہ ڈالا اور سب سونے کی مرغی کے انڈے کھانے پر لڑے اور ایک دن وہی مرغی ذبح کر ڈالی۔

اس طرح اقبال دیوان نے جو مشہور شاعر اور بیوروکریٹ مصطفیٰ زیدی کے جان لیوا رومانس اور ان کی مبینہ خودکشی پر پچاس برس بعد بھی ایک تحقیقاتی رپورٹ (میں صحافی ہونے کے ناطے اسے تحقیقاتی رپورٹ ہی سمجھتا ہوں) لکھی ہے وہ اپنی جگہ ایک حیران کن کام ہے۔ جو کام بڑے بڑے صحافی نہ کر پائے وہ اس باب میں انھوں نے کیا ہے۔ میڈم شہناز سے کراچی کے ایک پارک میں ان کی اتفاقیہ دعا سلام سے شروع ہونے والی یہ پُراسرار کہانی آپ کو اس وقت تک سکون نہیں لینے دے گی جب تک آپ اسے ختم نہ کر لیں۔ میں حیران ہوں کہ آخر ایک بیوروکریٹ کو اس پچاس سال پرانے کیس میں اتنی دلچسپی کیسے پیدا ہوئی اور انھوں نے کون کون سا کونا نہ چھان مارا کہ کہیں سے کچھ پتا چلے کہ یہ قتل تھا یا خودکشی۔

اقبال دیوان کو یقیناً ہمارے جیسے صحافیوں یا لکھاریوں پر جو بڑا ایڈوانٹیج تھا وہ ان کا بذاتِ خود ایک بڑا سرکاری افسر ہونا تھا، لہٰذا ان کی ہر اُس کلاسیفائیڈ انکوائری ریکارڈ تک رسائی ممکن تھی، جو ہمیں نہیں مل سکتی تھی۔ یہ باب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اگر اقبال دیوان صحافی ہوتے تو اب تک کئی ایوارڈز جیت چکے ہوتے۔ امریکا میں ہوتے تو صحافت کے سب سے بڑے Pulitzer Prize کے حق دار قرار دیے جاتے کہ اس سے بہتر تحقیقاتی رپورٹ نہیں لکھی جا سکتی تھی جو انھوں نے اتنی محنت سے لکھی ہے۔

اقبال دیوان کے پاس اتنی معلومات اور علم ہے کہ کئی دفعہ آپ کو لگتا ہے کہ شاید وہ اپنے موضوع سے بھٹک گئے ہیں اور بات کہاں کی کہاں نکل گئی ہے اور آپ کچھ تنگ سے ہونے لگتے ہیں کہ یار کہاں پھنسا دیا۔ نہیں نہیں، آپ کچھ صبر کریں کہ اس بڑی پکچر میں وہ سب طویل تفصیلات جلد فِٹ ہونے والی ہیں جو آپ کو ابھی غیر ضروری یا کسی حد تک بورنگ لگ رہی ہیں۔ ایک پڑھا لکھا اور علم سے بھرا انسان ہمیشہ اِدھر اُدھر بھٹک جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس بتانے اور لکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔

اس طرح ان کا 1990ء کی دہائی کے بڑے سیاسی اور فوجی سکینڈل کے نمایاں کردار یونس حبیب پر لکھا گیا باب بھی بہت اہم اور مزیدار ہے۔ یونس حبیب کو میں نے پہلی اور آخری دفعہ سپریم کورٹ کی کورٹ نمبر ایک میں 2012/13 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں وہیل چیئر پر دیکھا تھا۔ میں حیران ہوا تھا، اچھا تو یہ تھا وہ یونس حبیب جس نے کتنے بڑے بڑوں کو کانا کرکے یہ ثابت کیا تھا کہ ملک کے سیاسی و فوجی حکام سے صحافیوں تک سب کی قیمت تھی اور اتنی زیادہ بھی نہ تھی کہ وہ کرپٹ ہوں جائیں یا انھیں خریدا جا سکے۔ لہٰذا میں نے اقبال دیوان کا وہ باب بڑے غور اور دلچسپی سے پڑھا اور اس سے زیادہ حبیب بینک کا بیک گراؤنڈ میرے لیے حیران کن اور نیا تھا۔

یہ باب آپ کو جہاں پاکستانی سیاست کی غلام گردشوں کی کہانی سناتا ہے، وہیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سیاسی اور فوجی قوتوں کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ سیکٹر کا بھی ملک میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں کتنا اہم رول رہا ہے۔ وہی بات کہ یہاں سب بِکتا ہے اور ہر کوئی بِکتا ہے، ہر ایک کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے بس یونس حبیب جیسا بے ضرر دِکھنے والا گھاگ خریدار ہونا چاہیے جس کی پیٹھ پر ایک سیکرٹ ایجنسی کے ساتھ ساتھ ایک بینک کھڑا ہو اور پھر انسانوں کے دولت پر ناچنے کے تماشے دیکھو۔

اس باب کو پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا، اگر ہمارے دوست اقبال دیوان کچھ مزید اس پر ریسرچ کرتے تو انھیں اندازہ ہوتا کہ 1994ء میں بے نظیر بھٹو دورِ حکومت میں اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمٰن ملک نے کیسے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کو جرمنی جا کر گھیرا تھا اور ان سے بیان حلفی لکھوا کر وہ سب نام اگلوا لیے تھے جنھوں نے جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر چودہ کروڑ روپے سیاستدانوں اور میڈیا مالکان میں بانٹے تھے۔ جنرل اسد درانی کو بڑی ہوشیاری سے گھیرا گیا تھا۔ پہلے بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم بن کر انھیں جرمنی میں سفیر لگایا اور پھر رحمٰن ملک کو ان کے پاس بھیج دیا کہ اب ان سے اعترافِ جرم ان کے ہاتھوں سے لکھوا لائو۔

رحمٰن ملک کو اگر وہ انکار کرتے تو اتنی اہم سفارت سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ رحمٰن ملک نے جنرل درانی سے وعدہ کیا تھا کہ ان کا سیاستدانوں میں پیسے بانٹنے والا خفیہ بیان کبھی سامنے نہیں آئے گا اور پھر جنرل اسد درانی ساری عمر پچھتائے اور عدالتوں کے دھکے کھائے کہ انھوں نے رحمٰن ملک پر بھروسا کیوں کیا تھا۔

جرمنی سے لوٹ کر رحمٰن ملک نے جنرل اسد درانی کا اعتراف نامہ وزیرِ داخلہ نصیر اللہ بابر کو تھمایا جنھوں نے اگلے روز قومی اسمبلی میں پڑھ دیا، جس میں ان سب کے نام تھے جن میں پیسے بانٹے گئے تھے، اس پر ہنگامہ مچ گیا تھا۔

اصغر خان نے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا تھا جس پر بڑے عرصے تک مٹی پائو پروگرام چلتا رہا، لیکن افتخار چوہدری نے وہ پرانی فائلیں نکال لی تھیں اور وہیں میں نے ان کی عدالت میں یونس حبیب کو وہیل چیئر پر لاغر بیٹھا دیکھا تھا جو نہ صرف افتخار چوہدری سے جھڑکیں کھا رہے تھے، بلکہ بیمار، معصوم اور مظلوم شکل بنا کر سب کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششوں میں بھی مصروف تھے۔

بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس پر بھی پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ جتنے کردار اس ساڑھے چار سو صفحات کی کتاب میں پڑھے ہیں، ہر کردار اپنی جگہ پوری کتاب ہے۔ میں چند کرداروں کو ذاتی طور پرجانتا ہوں لہٰذا کچھ تفصیلات مَیں بھی جانتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے جس انداز میں اقبال دیوان نے ان کرداروں کو ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ کر دیا ہے وہ اپنی جگہ ایک آرٹ ہے۔

اس کتاب میں کئی ایسے جملے اور شاندار فقرے یا quotes ہیں جن کی الگ سے ایک پاکٹ بُک بنائی جائی سکتی ہے۔ ان جملوں کی خوبصورتی اس کتاب کے ختم ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوتی، چاہے وہ کراچی کے slangs ہوں یا ہمارے دلچسپ دیسی محاورے اور ذومعنی جملے۔

اقبال دیوان کا برجستہ مزاح بھی آپ کو کئی جگہوں پر tense صورتِ حال میں بھی مسکرانے پر مجبور کر دے گا۔ کراچی کا اپنا ایک الگ مزاج اور مزاح ہے جسے ہم پنجاب کے لوگ بعض دفعہ پوری طرح نہیں سمجھ پاتے اور جب سمجھ جائیں تو کافی دیر تک مسکراتے رہتے ہیں۔ زمانے اور وقت نے اقبال دیوان کو ایسا بھرپور علم و فہم دیا ہے جسے سٹریٹ سمارٹ وِزڈم کہا جاتا ہے۔۔ وہی خوبی جس کا گلہ وہ ڈاکٹر ظفر الطاف سے کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان میں یہ وزڈم نہ تھی۔

ڈاکٹر ظفر الطاف اور اقبال دیوان میں ایک بڑا فرق تھا۔ ظفر الطاف جنھوں نے شہنشاہِ ہند شاہجہاں کی دلی محبت کی نشانی تاج محل کی سرزمین آگرہ میں جنم لیا تھا، لہٰذا ان کا دل بھی شہنشاہوں جیسا تھا۔ آگرہ شہر کی رُوح کا ان پر گہرا اثر تھا۔ وہ دل سے سوچتے اور فیصلے کرتے تھے۔ کراچی کا ہمارا یہ خوبصورت میمن دماغ سے سوچتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ درست تھے۔۔

یہ طے ہے کہ اس غیرمعمولی کتاب کے ذریعے پاکستان کی ایک اور جاندار تاریخ لکھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب بھی جلد کلاسک کی شکل اختیار کر لے گی۔ آنے والے زمانوں میں پڑھی جائے گی۔

ہمارے دیوان نے واقعی کچھ خاص لکھا ہے۔

نوٹ: محمد اقبال دیوان کی یہ کتاب "داستان ہے پیارے" بُک کارنر جہلم سے مل سکتی ہے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam