سائنسی تحقیق سے اتنی نفرت کیوں؟
جس دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اس میں سب سے اہم ترین عنصر صرف اور صرف سائنس اور تحقیق ہے۔ سائنس کی ترویج اور ترقی میں پاکستان کیا کردار ادا کر رہا ہے۔
اس پر بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم لوگوں نے سائنسی علوم اور تحقیق کو روکنے بلکہ رد کرنے میں کتنا رول ادا کیا ہے۔ دعویٰ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سماجی رویے، بنیاد پرستی اور بھرپور جہالت کی طرف گامزن ہیں۔
پورے ملک میں ایک بھی ایسی سائنسی لیبارٹری نہیں، جس کی پوری دنیا میں معمولی سی بھی قدر ہو۔ ملک میں عالمی سند کے مطابق کتنے محقق اور سائنسدان ہیں۔ اس میں آپ کے علم میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتا۔ پوری اسلامی دنیا میں سائنسی علوم اور ایجادات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حد درجہ سطحی بات یہ بھی ہے کہ ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں ہے جہاں واقعی علم دوستی کا رجحان ہو۔ برا نہ منائیے گا۔ پاکستان میں سوشل مضامین، دینی علوم، اردو، عربی، تاریخ یا ایسے ہی بے ضررمضامین میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کا جم غفیر نظر آئے گا۔ مگر سائنسی تحقیق اور سائنسی علوم پر ڈاکٹریٹ کرنے والے افراد حد درجہ کم نظر آئیں گے۔ اگر بدقسمتی سے کوئی جدید علوم پر عبور حاصل کر بھی لے، تو اسے روزگار، ملنا تقریباً ناممکن ہے۔
تھوڑے عرصے بعد، وہ دلبرداشتہ ہو کر ملک چھوڑنے کی تگ و دو شروع کر دے گا۔ مغربی ممالک میں پہنچنے کے بعد، وہاں کی یونیورسٹیاں اور ادارے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ پاکستان میں تو خیر ایسا ماحول ہی نہیں رہا کہ کسی قسم کی کوئی سنجیدہ بات کی جائے۔
ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کو دیکھ لیجیے۔ ایک بھی ایسا شخص نہیں جو واقعی سائنس کی دنیا پر اپنا مثبت نقطہ نظر رکھتا ہو۔ یہ لوگ تو عاملوں، پیروں، جادوگروں اور سنیاسیوں کی گرفت میں ہیں۔ کسی نے اپنا پیر، صدارتی محل میں بٹھا رکھا تھا، تو کوئی برتنوں پر جادو کروا کر ان میں کھانا کھاتا ہے اور کوئی پیروں فقیروں سے ڈنڈے کھانا فخر کی بات سمجھتا ہے۔ جن حکمرانوں میں خود اعتمادی کا اتنا فقدان ہو۔
ان کی ذاتی ذہنی سطح کسی پست درجہ کی ہوگی۔ اور ان کو سائنسی علوم سے کیا شغف ہوگا۔ دراصل، ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کے ذہنوں کو ساکت کر دیا گیا ہے۔ دولے شاہ کے چوہے بننے کے بعد ہم میں وہ ذہنی طاقت ہی نہیں رہی کہ کسی سنجیدہ علم کی طرف جا سکیں۔ یہ المیہ ہمارے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ کم از کم آنے والے سیکڑوں برسوں میں اس منفی رجحان کو مثبت کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔
اس تمام صورت حال کے متضاد ایک محیر العقول رویہ اور بھی ہے۔ ہمارے تمام جید اور نیم جید افراد، مغرب کے متعلق ایک منفی پروپیگنڈا کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر سطح پر ان گنت افراد مغربی ممالک کو کوستے کوستے اپنا گلہ بٹھا لیتے ہیں۔ ان کی تقاریر اور تحریروں میں مغربی دنیا کی تباہی کی پیشن گوئیاں کی جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک، فحاشی اور ظلم کے گڑھ ہیں۔ مسلمانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ پر ہمارے ملک کا ہر نوجوان بچہ اور بچی، ملک چھوڑنے کے لیے ہر وقت سنجیدہ فکر اور کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ مضحکہ ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ جن ممالک کے خلاف فتویٰ اور گالم گلوچ کی جاتی ہے۔
ہم میں سے ہر ایک، انھیں کافر ملکوں کی سائنسی ایجادات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ آج کے دور میں موبائل فون، کمپیوٹر کے بغیر سانس لینا محال ہے۔ دل تھام کر بتائیے کہ کیا یہ موجودہ مسلمانوں کی ایجادات ہیں؟ سوشل میڈیا کون دنیا کے سامنے لے کر آیا ہے۔
جناب فیس بک، ٹویٹر، انھی کفار کے دماغ سے نکلے ہوئے کامیاب ترین کام ہیں۔ یوٹیوب کو دیکھ لیجیے۔ ہر فکر بلکہ دنیا کے تمام علوم، ایجادات اور دیگر معاملات پوری دنیا کے سامنے مفت رکھ دیے ہیں۔ گاڑی سے لے کر جہاز، موٹر سائیکل سے لے کر سائیکل تک سب کچھ انھی لوگوں کی دین ہے۔
ایم آر آئی امراض قلب کا کامیاب علاج، انسانی اعضاء کی کامیاب پیوندکاری، کیا ہم نے کی ہے؟ نہیں صاحب۔ ایسا نایاب کام جس نے انسانی صحت کے معاملات کو یکسر ایک سو اسی کے زاویے سے بدل دیا ہے۔ کیا ایم آر آئی مشین کے باہر لکھا ہے کہ یہ مسلمان مریضوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر جن مغربی ممالک نے ان اشیاء کو نسل، مذہب اور خطہ سے بالاتر ہو کر ایجاد کیا ہے۔
ہم ان کا احسان ماننے کے بجائے، ان کے ذہنی طور پر خلاف ہیں۔ فائدہ ہم ان کی تحقیق سے کشید کرتے ہیں۔ مگر بددعا بھی انھی کو دیتے ہیں۔ مسلمان خیر، سائنس سے دور نہیں ہیں بلکہ اس کے سائے سے بھی دور بھاگتے ہیں۔
اس کے برعکس، مغرب اب معاشی ترقی، جدت، تحقیق کے عروج پر ہے۔ ایلن مسک کا نام سب نے سنا ہوگا۔ اس نے ٹویٹر 44بلین ڈالر میں خریدا ہے۔ بیٹری سے چلنے والی کامیاب ترین کار Teslaکا مالک اور موجد بھی وہی ہے۔ مگر اس نے اب اپنی تمام فکر کو فضا بلکہ خلا پر مرکوز کر دیا ہے۔ ایلن مسک نجی شعبہ میں ہے۔
خلا میں جانے والے سیٹلائٹ، راکٹ خود بنا یا بنوا رہا ہے۔ Spacex اس کا ایک حد درجہ منفرد سائنسی تجربہ ہے۔ اس پروگرام کے تحت ہر چار دن کے وقفہ کے بعد، خلا میں ایک سیٹلائٹ بھجوایا جاتا ہے۔ اب تک مجموعی طور پر پچاس کے لگ بھگ سیارے، صرف اور صرف ایلن مسک بھجوا چکا ہے۔ ایسا نظام بھی قائم کیا ہے کہ خلا میں تمام سیارے اور تجربہ گاہیں ایک دوسرے سے منسلک رہیں۔ اب وہ Starship بنا رہا ہے جس کے ذریعے لوگ، چاند اور مریخ تک جا پائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایلن مسک، چاند اور دوسرے سیاروں پر انسانی آبادیاں قائم کرنے کی کامیاب کوشش کر رہا ہے۔ ایلن مسک سے منسلک سائنسدان دو ایسے سیارے بھی خلامیں بھیج چکے ہیں۔ جو اسمارٹ فونز سے رابطہ کر ینگے۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ بہت تھوڑے عرصے کے بعد انٹرنیٹ سروس میں حیرت انگز جوہری تبدیلی آ جائے۔ ویسے کیا یہ دکھ کی بات نہیں کہ ہمارے ادارے اور تجربہ گاہیں، خلا سے منسلک تمام علوم میں طفل مکتب ہیں۔
ہم تو یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ عید کا چاند واقعی نمودار ہوا ہے یا نہیں۔ جس دوربینوں کے ذریعے چاند کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اتنی دقیا نوسی دوربین دنیا کے کسی حصے میں استعمال نہیں ہوتیں۔ عرض کرتا چلوں کہ ناسا نے اگلے ایک ہزار برس کا کیلنڈر بنا ڈالا ہے۔ مطلب ہے کہ اگلے ایک ہزار برس کی عیدوں کا تعین کر دیا گیا ہے۔
گزارش کرونگا۔ Tufts unirersityاور Dr۔ Muneokaنے 2023ء میں حیرت انگیز تحقیق دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ انسانی بازو اور ٹانگیں کا دوبارہ اگنے یا بننے کا طریقہ۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ہر سال تقریباً پینتس سے چالیس لاکھ افراد کسی نہ کسی وجہ سے اپنے بازو یا ٹانگوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس محیر العقول ایجاد کے دعوی کے مطابق Wearable bioreactorکے ذریعے مختلف ادویات کو انسانی جسم میں اس طرح داخل کیا جائے گا۔ کہ انسانی اعضاء بغیر کسی تکلیف کے دوبارہ اگنے شروع ہو جائیں گے۔ صرف 2023ء یعنی گزشتہ ساڑھے چار ماہ میں مغربی سائنسدانوں نے تقریباً چار سو نئی ایجادات کی ہیں۔ جن کے استعمال سے انسانی زندگی کو مزید بہتر کیا جا سکے گا۔
المناک سچ یہ ہے کہ ان تمام ایجادات میں مسلمانوں کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ہمارے نظام، اس طرح کے تحقیقی سائنسدان پیدا کرنے سے قاصر ہیں، جو نئی جہتوں پر سوچ سکے۔ جب فکر ہی دقیانوسی ہوگی تو سائنسی ایجاد کیا خاک ہوگی۔ تمام مسلمان ممالک اس اعتبار سے بالکل بانجھ ہیں۔
ہاں، ہمارا بلکہ تمام مسلم ممالک کا مقتدر طبقہ حکومتی وسائل کو اپنی جیب میں ڈالنے کا ماہر ہے۔ اگر کسی بھی مغربی شخص نے کرپشن کر نے کے نایاب طریقے سیکھنے ہیں تو اسے پاکستان بلا لیجیے۔
ہم اسے چھ سات ماہ میں کرپشن کی پی ایچ ڈی کامیابی سے کروادینگے۔ مگر اس کے بعد، وہ شخص اپنے ملک واپس جا کر کوئی بھی کام کرنے کی استطاعت سے محروم ہو جا ئے گا۔ کیونکہ ہم اس سے فکر اور جدت چھین لیں گے۔ وہ نظر تو انسان آئے گا مگر حقیقت میں انسان نہیں ہوگا!