رٹائرمنٹ کے بعد (2)
سرکاری ملازمت حد درجہ اچھی چیز ہے، مگر اکثریت یہ نکتہ فراموش کر ڈالتی ہے کہ مروجہ قوانین کے مطابق ساٹھ سال کی عمر میں اس کا فطری اختتام ہو جاتا ہے۔ کسی بھی سطح کے سرکاری عمال کے لیے رٹائرمنٹ ایک حد درجہ اہم موڑ ہوتی ہے۔
اسے، نوکری میں آنے سے بھی اہم سمجھنا چاہیے۔ اس لیے بھی کہ ساٹھ دہائیوں کا انسان حد درجہ ذہنی پختگی کا حامل ہوتا ہے۔ اسے تجزیہ اور تجربہ کی وہ استطاعت حاصل ہوتی ہے جو ہر خاص و عام کے پاس ہرگز ہرگز نہیں ہوتی۔ زندگی کے نشیب و فراز کی بھٹی میں رٹائرمنٹ تک کندن بن چکا ہوتا ہے۔ جس دن کوئی بھی سرکار کا کارندہ، اپنے گھر واپس جاتا ہے۔
تھوڑے عرصے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک عضو معطل بن چکا ہے۔ اس سے کسی کو کوئی بھی دلچسپی نہیں۔ اولاد اپنی تئیں مصروف ہوتی ہے۔ لہٰذا، اس رٹائرڈ بندے کے ذہن میں مایوسی جنم لینا شروع کر دیتی ہے۔ فراغت اسے کاٹنے کو دوڑتی ہے۔
یہ وہ مقام ہے، جہاں اسے اپنی بقیہ زندگی کے اہم ترین فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اس دوراہے پر ہر طرح کی سوچ اس کو ڈرا رہی ہوتی ہے۔
بڑے بڑے مضبوط اعصاب کے بندے ہمت ہار جاتے ہیں۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ آپ یہ سوچیں، کہ بس اب زندگی کے تمام دروازے مجھ پر بند ہو چکے ہیں۔ اب میں کسی کام کا نہیں رہا۔ لہٰذا بس اب موت کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ردعمل اکثریت میں رٹائرڈ افراد کا ہوتا ہے۔
وہ یہ فراموش کر ڈالتے ہیں کہ مکمل فرصت میں، موت کا وہ انتظار نہیں کر رہے۔ بلکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ موت ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ وہ افراد جو کسی قسم کی مصروفیت نہیں رکھتے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ بہت جلد زندگی کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اگر چند سال زندہ رہ بھی گئے، تو مسجد پکڑ لیتے ہیں۔
نمازیں پڑھنا فرض ہیں۔ مگر یہ تو ایک فکری دینی اور جسمانی تربیت ہے۔ یہ تو ہر انسان کو عملی زندگی کی راہ کی طرف گامزن کرتی ہے۔ اس کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے۔ یہ کسی بھی انسان کو متحرک ہونے کا طریقہ بتاتی ہے۔ مگر رٹائرڈ بندے، اس کو وقت گزارنے کا چلن بنا ڈالتے ہیں۔ یعنی کچھ بھی نہیں کرتے۔ مگر مسجد کی طرف رخ کر لیتے ہیں۔
اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کو محض مصروفیت کی حد تک رکھنا کچھ بہت زیادہ مناسب رویہ نہیں ہے۔ بہر حال یہ لوگ ہروقت پندو نصائح کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کو ہر وقت یہ جتاتے رہتے ہیں کہ جب میں گورنمنٹ کی نوکری میں تھا، تو کتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دیتا تھا۔ لوگ بظاہر انھیں کچھ دیر کے لیے مجبوری میں سن لیتے ہیں۔
مگر تھوڑی مدت کے بعد ان کے بھی کان ماضی کی عظمت کی جھوٹی سچی کہانیاں سن سن کر تنگ پڑ جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ کسی کو بھی ان کی ماضی کی عظمت سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ بھی نہیں گردانتے کہ ایک جیسے قصے وہ تواتر سے سنا رہے ہیں۔
آہستہ آہستہ یہ لوگ اپنے آپ کو بوجھ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ قدرت کا قانون ہے کہ وہ کسی بوجھ کو بھی زیادہ دیر، دھرتی پر موجود نہیں رہنے دیتی۔
رٹائرمنٹ کے بعد، اس کے ساتھ ساتھ ایک اور راستہ بھی ہے۔ اور وہ ہے کہ اپنی ذہنی پختگی کو استعمال کرتے ہوئے ایک مستند ذریعہ معاش اپنائے۔ کوئی نیا کاروبار کریں۔ اپنی جمع پونجی کو حقیقت پسندی سے استعمال کرتے ہوئے نئے روزگار کی طرف قدم بڑھائیں۔ یہ ایک فیصلہ، رٹائرمنٹ کے بعد ایک نئی اور بہتر زندگی کی طرف خوشگوار قدم ثابت ہوتا ہے۔
عرض کرونگا کہ یہ مستقبل کا ایک ایسا راستہ معلوم ہوگا جس میں اپنی حسرتوں کو حقیقت بنا سکتے ہیں۔ دعویٰ سے عرض کرتا ہوں۔ کہ اگر وہ جم کر کاروبار کرے تو خدا اس کے رزق میں اتنی وسعت دے گا جس کا سرکاری نوکری میں تصور بھی نہیں کر سکے۔ جائز دولت کے حصول کے ساتھ ساتھ، اگر کوئی مشغلہ بھی اپنا لیں تو سونے پر سہاگا ہو جائے گا۔ ہلکی پھلکی سی واک، کھانے پینے میں احتیاط ان کی عمر کو طوالت بخشے گی۔
یقین فرمائیے۔ زندگی کا وہ لطف آئے گا جس کا تصور پہلے کرناناممکن نظر آتا تھا۔ طالب علم کے پاس بھی رٹائرمنٹ کے بعد یہی دو راستے تھے۔ دوسرا راستہ اپناتے ہوئے کاروبار شروع کر دیا۔ خدا نے غیب سے مدد فرمائی۔ ہاں، ایک ا ور کام کیا۔ ایک بزرگ کے کہنے پر، اپنے کمائے ہوئے سرمایہ میں اللہ کا حصہ بھی رکھ لیا۔ اس سے اپنی بساط کے مطابق، عام لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنا شروع کر دیں۔
اس کلیے سے میرے بزنس میں نہ صرف برکت پڑ گئی۔ بلکہ کشادگی بڑھتی گئی۔ وہ گاڑی خریدی، جس کا سرکاری نوکری میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ بہر حال آج کل، کم از کم دس گھنٹے روزانہ کام کرتا ہوں اور حد درجہ مطمئن اور آسودہ زندگی بھرپور طریقے سے گزار رہا ہوں۔ یہ عرض کرنے کا مقصدصرف ایک ہے کہ زندگی کے مشکل ترین وقت میں کسی بھی رٹائرڈ بندے کو راستہ چننے میں دشواری نہ ہو۔
وہ بہتری کی طرف گامزن ہو جائے۔ ہاں۔ ایک اور بات کاروبار میں جو بھی منافع ہوتا ہے۔ اسے ایمان داری سے انکم ٹیکس کے گوشواروں میں درج کرتا ہوں۔ ایک دن اکاؤنٹنٹ کہنے لگا کہ آپ پورا منافع کیوں دکھاتے ہیں۔ بہت زیادہ ٹیکس کیوں ادا کر رہے ہیں۔ مگر میں نے یہ طفلانہ مشورہ ماننے سے سو فیصد انکار کر دیا۔ الحمدللہ، ہر طریقے سے پر سکون زندگی گزار رہا ہوں۔ اور اس میں کامیاب بھی ہوں۔
رٹائرمنٹ کے بعد، کوئی بھی فیصلہ کرنا، انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ آپ گھٹ گھٹ کر مرنا چاہتے ہیں۔ خدا کے عطا کیے وقت کو ضایع کرنا چاہتے ہیں۔
خوبیوں اور تجربہ سے کنارہ کشی کرنا چاہتے ہیں۔ تو یہ سو فیصد آپ کا ذاتی فیصلہ ہے۔ مگر یہ ہرگز ہرگز مناسب رویہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ کو گریجوٹی میں کم پیسے ملے ہیں۔ تو حد درجہ مختصر کاروبار شروع کر دیں۔ چھوٹا سا ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھول لیں۔ فروٹ کی دکان کھول لیں۔ کوئی کام بھی حقیر نہیں ہے۔
لاہور کے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور، چھوٹی چھوٹی کریانوں کی دکانوں سے شروع ہوئے ہیں۔ جی ہاں! محلوں کی منیاری کی ہٹیوں سے۔ بہر حال یہ آپ کا ذاتی فیصلہ ہے کہ کون سے کاروبار کا میلان ہے۔ قدم بڑھایئے۔ ہمت کیجیے۔ قدرت آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ سوچ سمجھ کر کاروباری قدم اٹھانے والا کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔ اللہ کی مدد، ہمت والے کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔
ناامیدی کی تو خیر کوئی بات ہی نہیں۔ سارا دن لوگ آپ کوناکامی سے ڈراتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس، آپ ان افراد کو پرکھیے، دیکھیے، ملیے، جنھوں نے محنت کے بل بوتے پر معاشی ترقی کی ہے۔ زندگی میں انقلاب آئے گا۔ بڑے بڑے صنعتی گروپ، حد درجہ معمولی سطح سے شروع ہوئے ہیں۔ لائل پور میں آج کھرب پتی ٹیکسٹائل ملوں کے مالکوں کے ماضی سے سیکھیے۔ ان کی واضح اکثریت، سائیکلوں کے کیریئر پر تھان رکھ کر محلے محلے فروخت کرتی تھی۔
اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت بھی نہیں۔ آج ان دہاڑی داروں کی صنعتی ایمپائرز ہیں۔ خدارا، رٹائرمنٹ کو زندگی کا خاتمہ ناگردانیے۔ اسے نئی اور بہتر زندگی کی شروعات بنائیے۔ منفی سوچ کو کھرچ کر نکال لیجیے۔ اپنے آپ کو میدان عمل میں رکھیے۔ زندگی بہتر سے بہترین ہو جائے گی۔ ہاں، ایک اور نکتہ بھول جائیے کہ آپ کبھی سرکار کے اعلیٰ عہدے کے ملازم تھے۔
اب معمولی سے معمولی کام میں بھی کوئی خفت نہ محسوس کریں۔ انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ اس نے ایک چھوٹا سا پٹرول پمپ لگایا تھا۔ پھر اس پمپ پر خود بیٹھنا شروع کیا۔ منافع دگنا ہوگیا۔ آج اس کے پانچ سے چھ پٹرول پمپ ہیں۔ بڑی بہترین زندگی گزار رہا ہے۔ اس رٹائرڈ افسر نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ ایک معمولی سے پٹرول پمپ پر بیٹھنا، اس کی سابقہ سرکاری حیثیت کے منافی ہے۔
ایک منٹ کے لیے بھی پرانے عہدہ کو ذہن پر حاوی نہیں کیا۔ نتیجہ حددرجہ شاندار نکلا۔ بتانے لگا کہ رٹائرمنٹ کے بعد، اس کی صحت بہتر ہوگئی ہے۔ ہفتہ میں تین چار دن ورزش کرتا ہوں۔ اور ٹھیک دس بجے رات کو سو جاتا ہوں۔
گزارش سادہ سی ہے۔ رٹائرمنٹ کو اپنی طاقت بنائیے۔ اس سے گھبرائیے مت۔ ہرگز ہرگز مت سوچیے کہ سرکاری زندگی کے اختتام کے بعد کسی کام کے نہیں رہے۔ صاحبان! جو تجربہ کی دولت آپ کی مٹھی میں ہے۔
اسے کاروبار کرکے سونے کی ڈلی میں تبدیل کر دیں۔ کون کہتا ہے کہ رٹائرمنٹ کے بعد کوئی مسئلہ ہوتا ہے! یہ تو آپ کے کامیاب مستقبل کی خوبصورت سیڑھی ہے۔ اس سیڑھی پر بے خوف چڑھیے۔ زندگی بدل جائے گی!