پرانے دوست!
میرے بچپن کا دوست زاہد تقریباً چھ سال بعد امریکا سے وطن واپس آیا ہوا ہے، روزگار کی تلاش میں امریکا گیا اور پھر وہیں کا ہوگیا لیکن دل مکمل لائل پوری ہے۔
سارے دوست اسے زاہد مچھُ کے نام سے پکارتے کیونکہ موصوف بڑی بڑی مونچھوں کا مالک ہوا کرتا تھا۔ پرسوں اس کا فون آیا اور بتایا کہ چند دن پہلے امریکا سے لائلپور آیا ہوں، اب ایک دو دن لاہور میں ہوں۔ فیصلہ ہوا کہ کھانااکٹھے کھایا جائے گا۔
کسی ہوٹل، کیفے یا کلب سے اجتناب۔ میرے گھر کی بیسمنٹ میں ہوگا۔ میں گھر کی بیسمنٹ میں رہتا ہوں۔ اسٹڈی، سونے کا کمرہ اور لاؤنج یہیں ہیں، حد درجہ آرام دہ جگہ ہے۔ کھانے کی دعوت دینے کے لیے پرانے دوستوں کو فون کرنا شروع کیا۔
اشعر شاہ سے بات ہوئی تو جواب ملا کہ سسر محترم چہلم کے لیے اسلام آباد آیا ہوا ہو لہذا کھانے میں شرکت نہیں ہوسکے گی، بہرحال شاہ جی کمال آدمی ہیں، ہر وقت ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں۔
ان کے جواب سے تھوڑی مایوسی ہوئی مگر کاروبار دنیا نے بھی تو مسلسل جاری رہنا ہے اور ہم میں سے ہر ایک نے زندگی کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں۔ یہی زندگی ہے مگر عجیب سی بات ہے کہ میں زندگی کو سمجھ نہیں پایا، بس گزار دی۔
پھر ایک اور دوست راجہ آصف کو فون کیا۔ اس نے کہا کہ وہ ضرور آئے گا بلکہ ہمارے ایک اور زاہد نام کے مشترکہ دوست کو ساتھ لے کر آئے گا۔
راجہ آصف بھی جناح کالونی، لائل پور کا ہم شہرساتھی ہے البتہ چند برسوں سے مذہب کی طرف رجحان بڑھ چکا ہے لیکن ضرورت سے زیادہ مہذب بھی ہو چکاہے اور قدرے خاموش طبع بھی البتہ ہمارے ساتھ بالکل خاموش نہیں ہوتاکیونکہ تقریباً پچاس برس کا سنگ ہے۔
دوسرے زاہد، میاں زاہد ہے۔ اسے "زاہد لمبا" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ موصوف کا قد چھ فٹ سے زائد ہے۔ اس کے والد محترم لائل پور بلکہ پاکستان کے بڑے تاجروں کی فہرست میں آتے تھے۔ سائیکلوں کا کارخانہ بھی تھا۔ میاں زاہد سادہ اور درویش صفت انسان ہے۔
میں میڈیکل کالج میں آیا تو زاہد پنجاب یونیورسٹی کے فارمیسی ڈیپاٹمنٹ میں داخل ہوگیا۔ پٹیالہ بلاک اور اولڈ کیمپس میں کیا فاصلہ ہوگا۔
ہفتے میں ایک دو بار ملاقات تو رہتی تھی۔ وہ ایف سی کالج سے پنجاب یونیورسٹی میں آیا تھا، ان دنوں اس کے پاس سلور کلر کا ایک سائیکل ہوا کرتا تھاجو اس کی اپنی فیکٹری کا تیار کردہ تھا۔ "زاہد لمبا" ایف سی کالج کے ہوسٹل سے کے ای کے میکلورڈ والے ہوسٹل آتا تھا۔ پھر ہم لوگ پیدل ایک نزدیک ریسٹورنٹ میں جاتے تھے۔
وہ پنجاب یونیورسٹی میں فارمیسی سیر پبلک ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں آگیا۔ لند ن سے پی ایچ ڈی کی اور دوبارہ پبلک ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اب ریٹائر ہو چکاہے۔
خلیل بھی ہمارا دوست ہے، اسے بھی دعوت دی تواس نے فوراً قبول کرلی، وہ ریٹائرڈ بینک کار ہے۔ کامران نشاط کراچی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا سی ای او ہے۔
اس سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ زاہد مچھ لائل پورآکر مل گیاہے اور صرف دو دن پہلے ہی کراچی واپس گیا تھا۔ لہٰذا اسے دوبارہ تکلیف دینا نامناسب لگا۔ اعظم ٹوانہ، پنڈی میں جا بسا ہے لہٰذا اسے بھی کیا زحمت دینی تھی۔ اب رہ گیا طارق شریف، آرمی میں بریگیڈیئرسے ریٹائر ہو کر کراچی جا چکا ہے۔
فوج اسے بریگیڈیئر ٹی ایس کے نام سے جانتی ہے۔ ٹی ایس اسپتال میں داخل تھا۔ پرانے دوستوں سے ملنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ مگر لاہور آنا دشوار تھا۔ خیر ہفتہ کی رات کو زاہد مچھ، راجہ آصف، خلیل اور زاہد لمبا گھر تشریف لائے، کھانا تو صرف ایک بہانہ تھا، ہم سارے زندگی کے جھمیلوں سے آزاد ہو کر نصف صدی پہلے کے وقت میں پہنچ گئے۔
وہی پرانا لائل پور، وہی جناح کالونی اور وہی شرارتیں۔ امریکا سے اتنے عرصے بعد آئے ہو۔ پاکستان میں کیا تبدیلی دیکھی۔ اس سوال پر زاہد نے جواب دیا کہ ایک تو آبادی حد درجہ بڑھ چکی ہے۔
اتنی زیادہ آبادی بربادی کی نشانی تو ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک، اتنے بوجھ کی بدولت ترقی نہیں کر سکتا۔ دوسرا بے ہنگم ٹریفک۔ امریکا میں ایسی ٹریفک کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
موٹر سائیکلوں کا سیلاب ہے اور گاڑیوں کی ایک کالی آندھی۔ اتنی ٹریفک کسی بھی شہر کو بگاڑ سکتی ہے۔ لاہور کی ٹریفک تو خیر سے اتنی بڑھ چکی ہے کہ سڑک پر گاڑی کو محفوظ رکھنا ناممکن ہے۔ کوئی نہ کوئی کھلنڈرا موٹر سائیکل سوار آپ کے ضبط کا امتحان لیتے ہوئے، آپ کی کار یا جیپ کو نقصان ضرور پہنچائے گا۔
پرانے دوستوں کو ملنا ایک خوشکن بات ہے مگر تکلیف دہ بھی ہوتی ہے کیونکہ نصف صدی میں ہر چیز بدل چکی ہے۔ لوگ بھی، سماج بھی، زمانہ بھی، وقت بھی اور رشتے بھی۔ زاہد کہنے لگاکہ لائلپور میں جناح کالونی گیا تھا۔ وہاں ہر طرف گھر، دکانوں اور پلازوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ راجہ آصف کا گھر "چھتری والی گراؤنڈ" کے ساتھ تھا۔
وہ بھی مسمار ہو چکا ہے۔ وہاں ایک پلازہ بن چکا ہے۔ کے اے کے ہوسٹل کا ذکر بھی ہوتا رہا۔ یہ تمام لوگ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طالب علم نہیں تھے۔ مگر ہر وقت ہوسٹل میں آنے جانے سے یہ تقریباً تقریباً کے ای کے آدھے طالب علم تو بہر حال بن چکے تھے۔
ارشد کا ذکر بھی رہا۔ ارشد کو ہیوی بائیکس کا جنون تھا۔ اس کے کمرے میں ہر طرف ہیوی بائیکس کے پوسٹر لگے ہوتے تھے۔ وہ جوانی میں بیمار ہوگیا اور ہیپاٹائٹس اسے کھا گیا۔
ہم تمام دوست اپنی زندگی میں کامیاب ہیں۔ مگر ایک بات سب کو کھا رہی تھی بلکہ کھا رہی ہے، پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات۔ ملک سے محبت کرنے والے ہر انسان کی طرح سب کے ذہن میں یہ سوال موجود تھا کہ اب آگے ملک کا مستقبل کیا ہے۔
یہ نکتہ ایسا ہے جس کا جواب سوائے "مہربانوں" کے کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ حد درجہ محترم ذرایع کے مطابق عمران خان کو ہٹانے کے لیے چند سیاست دانوں نے بھاری رقوم خرچ کی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کے معاشی حالات ابتر نہیں بلکہ پاتال میں جا چکے ہیں۔ کون درستگی کی طرف لے کر جائے گا، اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔
یہ بربادی ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کی گئی ہے۔ یہ سب کا متفقہ خیال تھا۔ تین چار گھنٹے کتنی جلدی گزرے۔ پتہ ہی نہیں چلا۔ بڑے عرصے کے بعد دل کھول کر ہنسنے کا نایاب موقع ملا۔ یہ ہنسنا بھی اب تو عنقا ہو چکا ہے۔
جس شہر میں آپ لوگوں کے درمیان بھی اکیلا پن محسوس کریں۔ وہاں اگر چند پرانے دوست اکٹھے ہوجائیں تو صاحب کچھ وقت کے لیے زندگی بدل سی جاتی ہے۔ پرانی رفاقتوں کو سینے سے لگا کر جینے کا فن، عمر کی شام میں ہی نصیب ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کس سے کس کی آخری ملاقات ہو؟