Pakistan Spring
محمدباوزیزی، تونیسیا کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ ایک کمرے میں چھ بہن بھائی اورماں باپ اکٹھے رہتے تھے۔ باوزیزی پوری عمر غربت میں رہا۔ بچپن ہی سے مزدوری کرنے لگ گیا۔
حالات بہتر کرنے کے لیے عزیز رشتہ داروں سے قرض لیا اور پھل کی ریڑھی لگا لی۔ یہ بھی معمولی سا کاروبار تھا۔ بہرحال مزدوری سے تھوڑا سا صاف ستھرا تھا۔ مگر باوزیزی کو ایک مسئلہ کا پتہ نہیں تھا۔ میونسپل کمیٹی کے اہلکار اسے روز تنگ کرتے تھے اور رشوت مانگتے تھے۔
کرتا کیا نہ کرتا، وہ انھیں اپنی ریڑھی سے کچھ پھل مفت دے دیتا تھا۔ اسی باگ دوڑ میں باوزیزی مزید مقروض ہو گیا۔ دو سو ڈالر کا قرض چڑھ گیا۔ یہ 2010کا سال تھا۔ 10 دسمبر کو وہ فروٹ بیچ رہا تھا کہ کمیٹی کے اہلکار آئے اور پیسوں کا تقاضا کرنے لگے۔ محمد کے پاس کیا خاک پیسے ہوتے۔ عملہ نے اس کو خوب زدو کوب کیا اور سامان قبضہ میں کر لیا۔ عملہ ہی کی ایک عورت ماہدہ حامدی نے باوزیزی کے مونہہ پر زور سے چانٹا مارا اور چہرے پر نفرت سے تھوکا۔ باوزیزی مکمل طور پر برباد ہو چکا تھا۔
روتا روتا مقامی گورنر کے پاس شکایت لے کر گیا۔ مگر گورنر نے ملنے سے انکار کر دیا۔ بعد کے واقعات قیامت خیز تھے۔ باوزیزی نے اپنے اوپر پٹرول چھڑکا اور آگ لگا لی۔ دن ساڑھے گیارہ بجے کا واقعہ تھا۔ چھوٹا سا شہرتھا۔ مگر اس ظلم اورخون ناحق پر کہرام مچ گیا۔ جنازہ میں پانچ ہزار لوگ شریک تھے۔ کسی نوجوان نے جلتے ہوئے مظلوم باوزیزی کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ جو آناً فاناً وائر ل ہو گئی۔ پورے ملک میں طوفان مچ گیا۔ اس وقت وہاں مرد آہن زین العابدین اور اس کے خاندان کی حکومت تھی۔ صدر زین العابدین نے رسمی طور پر باوزیزی کے خاندان سے افسوس کیا۔
مگر وہ آنے والے طوفان اور عوامی نفرت کا پیشگی اندازہ نہ لگا سکا۔ ملک کے ہر گلی محلہ میں احتجاج شروع ہو گیا۔ زین العابدین جو تمام اختیارات کا مالک تھا، عوامی ردعمل کے سامنے ٹھس ہو گیا۔ اسے ذلت کی حالت میں ملک چھوڑنا پڑا۔ سعودی عرب میں پناہ گزین ہو گیا۔ اسے عرب اسپرنگ Arab Springکی ابتدا کہا جاتا ہے۔ بعدازاں یہ عوامی طوفان لیبیا اور دیگر عرب ممالک کے طاقتورترین حکمرانوں کو نگل گیا۔
یہاں رکیے۔ ذرا سوچیے کہ اتنا بڑا عوامی انقلاب کیسے اور کیونکر شروع ہوا۔ وجوہات کیا تھیں کہ عرب ممالک کے بادشاہ، شہزادے اور حکمران عوامی سیلاب میں بہہ گئے۔ حکومتیں چھوڑنی پڑ گئیں۔ سنجیدہ حلقوں نے اس عظیم انقلابی ردعمل کی متعدد وجوہات بتائی ہیں۔ سب سے پہلے تو عرب ممالک میں نوجوان آبادی کا تناسب پچاس فیصد سے زیادہ تھا۔ جس میں اکثریت بے روز گار تھی۔
کسی بھی حکمران نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے انفرااسٹرکچر اور روزگار مہیا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں نفرت کا لاوا اندر ہی اندر سلگ رہا تھا۔ ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں نے عام لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کی بھی کوئی متحرک کوشش نہیں کی۔ یونیورسٹیوں کے طلباء یہ نعرے لگاتے تھے کہ ان کے لیے تو کوئی معاشی مستقبل نہیں۔ مگر حکمرانوں کی اولاد، بغیر کسی محنت کے عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایک حد درجہ منفرد عنصر یہ بھی تھا کہ وہاں کی حکومتیں، سیاسی خاندان اور ان کے رشتہ دار دہائیوں سے اقتدار پر قابض تھے۔ زین العابدین 1987سے صدر تھا۔ قذافی، بیالیس برس سے حکومت کر رہا تھا۔ حسنی مبارک 1980 سے مصر کا صدر تھا۔
عوام کے دل میں نفرت کی بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انھیں حکمرانوں کے رشتہ دار روپ بدل بدل کر اقتدار پر قابض ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اب انھیں دریا برد کرنا چاہیے۔ حکومتی ٹولے کی کرپشن بھی اس انقلاب کی بہت بڑی وجہ بنی۔ تونیسیا میں عام آدمی دو ڈالر روزانہ سے بھی کم کماتا تھا۔ اور حکمران خاندان محلوں میں رہتا تھا۔ خدام کی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ دولت ان کے گھر کی باندی تھی۔ ذرا آگے چلیے۔ عرب ممالک میں تبدیلی کا نعرہ عوامی ذہنوں پر نقش ہو گیا۔ سماج کے تمام طبقے اپنے اپنے فروعی اختلافات ختم کر کے نظام کی تبدیلی کے لیے سربکف ہو گئے۔
سوشل میڈیا نے آتش فشاں کا کام سرانجام دیا۔ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے سرکاری میڈیا کو ناکام بنا دیا۔ عوام کو ہر خبر سے اس طرح آگاہ کیا کہ کوئی بھی حکومتی سازش کامیاب نہ ہو پائی۔ طاقت ورترین حکمرانوں کی فوج، پولیس، خفیہ ادارے اور ہتھیار مکمل طور پر بے بس ہو گئے۔
2011 میں تونیسیا سے شروع ہونے والا انقلاب مصر اور دیگر عرب ممالک کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر گیا۔ نوجوان نسل، جمہوریت، انسانی حقوق، ووٹ کی جائز طاقت، الیکشنوں میں شفافیت، حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں کے متعلق اس فکری اور عملی طاقت سے کھڑی ہوئی جس کا پہلے تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بہر حال عرب اسپرنگ کے بعد عرب ممالک میں کیا حالات ہوئے اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ مگر مظلوم لوگوں نے تخت کو ہلا کر رکھ ڈالا اور مستقل حکمرانوں کو فنا کر دیا۔
کیا پاکستان کے موجودہ حالات کسی طور بھی Arab Spring سے تھوڑا سا پہلے حالات سے ایک ذرہ بھی مختلف ہیں۔ پاکستان میں اس وقت مکمل سیاسی اور حکومتی تبدیلی کے وہ تمام عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں جن کی بدولت تونیسیا میں عوامی انقلاب کی ابتدا ہوئی۔ پاکستان کے پندرہ اور تیس برس کے نوجوان، اس وقت مجموعی آبادی کا پینسٹھ (65) فیصد ہیں۔ یہ دنیا میں نوجوان آبادی کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔ 2022 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کا تناسب بارہ فیصد ہے۔ یہ دونوں عوامل مل کر کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔
تھوڑے دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔ ذرا کرپشن کی جانب نظر دوڑائیے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک سو چالیسویں (140) نمبر کی ذلت پر براجمان ہے۔ کرپشن کا یہی عالم تونیسیا اور مصر میں بھی تھا۔ مگر یہاں ایک اور حیرت انگیز مماثلت بھی ہے۔ کرپشن، مقتدر اداروں، سیاسی جماعتوں، تاجروں، قومی رہنماؤں اور سرکاری مشینری تک محدودہے۔ پھل بیچنے والا، ایک سپاہی، مزدور، ایک ڈسپنسر یا عام سطح کا بابو، کیا کرپشن کرلے گا۔ اصل مسئلہ وہ کھرب ہا روپیہ اور ڈالر ہیں جو مقتدر طبقے نے ناجائز طریقے سے کمائے ہیں اور ان کو مغربی ممالک میں محفوظ کیا ہوا ہے۔
بعینہ یہی معاملات زین العابدین اور حسنی مبارک کے تھے۔ دنیا کے مستند ترین اداروں نے پاکستان کے سیاسی خاندانوں اور مقتدر طبقوں کی مہیب کرپشن پر رپورٹیں اور کتابیں لکھی ہیں۔ سچ یہ بھی ہے کہ ہمارے کسی مقتدر سیاسی شخص نے ان کتابوں کے مصنفین کے خلاف، برطانیہ یا امریکا میں کوئی خاص قانونی کارروائی نہیں کی۔ سوشل میڈیا کا پاکستان میں استعمال بھی حیران کن ہے۔ 2022 میں سات کروڑ افراد سوشل میڈیا کا حد درجہ استعمال کرتے ہیں۔ ساڑھے آٹھ کروڑ لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ ملک میں سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والی اکثریت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ہے۔ اگر تنقیدی نظروں سے دیکھاجائے تو ہمارا الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا کی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے۔
پاکستان میں غربت کی شرح چالیس فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ اشیاء خورو نوش کی قیمتیں ستر فیصد سے لے کر چار سو فیصد تک بڑھی ہیں۔ روپے کی تنزلی یا ذلت چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید میں پچاس سے ستر فیصد تک کمی آئی ہے۔ مہنگائی پندرہ فیصد سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں پینتس فیصد تک بڑھاوا آیا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں موجودہ نظام، بوسیدہ حکمرانوں، مسلسل حکمرانی کرنے والے طبقوں کے خلاف حد درجہ نفرت بڑھ چکی ہے۔ لاوا اب عوامی غضب کی صورت میں پھٹنے کے نزدیک ہے۔
اسی پس منظر میں پنجاب میں بیس صوبائی نشستوں پر حکمران پارٹی کی دردناک شکست کو پرکھیے۔ مرکزی حکومتی جماعتوں کو معروضی حالات کی کوئی فہم نہیں ہے۔ روایتی بیانات، غیر منطقی تقاریریں، بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کر کے عوامی مسائل پر مرہم رکھنے کے بجائے، مزید گہرے گھاؤ لگائے جا رہے ہیں۔
گمان یہ ہوتا ہے کہ آنے والے الیکشن میں حکومتی اتحاد کی محیر العقول سبکی ہو گی۔ جو لیڈر بھی اس عوامی نفرت کو ووٹ کے صورت دے ڈالے گا۔ اقتدار اس کی جھولی میں گر جائے گا۔ یہ "سافٹ کو" ہو گا۔ ورنہ خونی تبدیلی تو دروازے پر کھڑی ہے۔ مقتدر طبقہ ذرا جرأت کر کے دروازے سے باہر تو جھانکے، چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ ہمارا ملک اب Pakistan Springکے دہانے پر کھڑاہے!