نکولائی چاؤشسکو تو قتل ہوا تھا

نکولائی چاؤشسکو (Nicolai Ceausesco) رومانیہ کا وہ ظالم حکمران تھا۔ جسے مکاری، دروغ گوئی اور سفلی پن پر عبور حاصل تھا۔ 1918 میں پیدا ہونے والا یہ شخص، جب بلوغت کو پہنچا، تو رومانیہ کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ آہستہ آہستہ، اس جماعت میں قدم جماتا چلا گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے جنرل سیکریٹری Gheorghe Gheorghiu کا نائب بن گیا۔ جارج کی وفات کے وقت وہ بہت زیادہ سینئر نہیں تھا۔ مگر اس کی سازش کرنے کی صلاحیت فقید المثال تھی۔ تمام منفی ہتھکنڈے استعمال کرکے، رومانیہ کی طاقتور ترین حکومتی پارٹی کا جنرل سیکریٹری بن گیا۔
یہ 19 مارچ 1965کا وقت تھا۔ اس اہم ترین عہدے کا مطلب بالکل واضح تھا۔ کہ اب اپنے ملک کا بے تاج بادشاہ ہے۔ عہدے کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ نکولائی مرتے دم یعنی دسمبر، 1989 تک جنرل سیکریٹری رہا۔ اسے اس منصب سے صرف موت نے فارغ کیا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اس نے خود کو رومانیہ کا صدر قرار دے دیا۔ مطلق العنان بادشاہ کی طرح حکومت کرنے لگا۔ اقتدار کے اولین حصے میں، نکولائی نے لوگوں کے من پسند نعرے لگائے۔ جس میں معاشی ترقی، پریس کی آزادی، متوازن خارجہ پالیسی وغیرہ سرفہرست تھے۔
عوام خوش ہوتے چلے گئے۔ مگر وہ اندازہ نہیں لگا سکے، کہ ان کے ساتھ کتنا برا ہونے والا ہے۔ تیسری دنیا کے جمہوری اور غیر جمہوری شہنشاہوں کی طرح، اس نے ملکی خفیہ اداروں کو لوگوں پر حاوی کر دیا۔ جو شہری ذرا سا بھی، اس کی پالیسیوں سے دور ہوتا، اسے رات گئے اغوا کر لیا جاتا۔ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور پھر بے دردی سے قتل کر دیا جاتا۔ اس کے چوبیس سالہ دور میں ساٹھ ہزار سے اوپر، افراد ریاستی تشدد کا نشانہ بنے۔ نکولائی عجیب و غریب فیصلے کرتا تھا۔ رومانیہ، تیل پیدا کرنے والا ملک تھا۔ اس نے قرض لے کر بڑی بڑی آئل ریفائنریز لگانی شروع کر دیں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ملک میں نجی بجلی گھر لگائے اور لگوائے گئے۔ جس کی بدولت، ہماری اقتصادی حالت بھرپور طریقے سے برباد کر دی گئی۔ رومانیہ، بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ جب متعدد تیل صاف کرنے والے کارخانے، فعال ہوئے۔ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت حد درجہ کم ہوگئی۔ اس کی وجہ سے ملک کی معیشت ختم ہو کر رہ گئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ نکولائی نے اپنی فکری اساس کہاں سے حاصل کی۔ دراصل 1971میں شمالی کوریا گیا تھا۔ وہاں اس نے Jucheکا عملی فلسفہ دیکھا۔ فیصلہ کیا، کہ اس کو رومانیہ میں رائج کرے گا۔
اس کا بنیادی مطلب یہ تھا کہ نکولائی شہنشاہ بننا چاہتا تھا اور ایسے ہی ہوا۔ رومانیہ میں حکومتی دعوؤں کے برعکس، مہنگائی، بے روزگاری، غربت حد درجہ بڑھتی چلی گئی۔ زرعی پیداوار بھی کم ہوگئی۔ نکولائی خبطِ عظمت کا اتنا شکار تھا کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ اس کے ملک میں کتنی بے چینی کی فضا پنپ رہی ہے۔ لوگوں میں حکومت سے نفرت کتنی بڑھ گئی ہے۔ وہ بے مقصد بیرونی دورے کرتا رہتا تھا۔ دنیا کے عمائدین سے قریبی تعلق بڑھانے کا شوق پاگل پن کی حد تک بڑھ چکا تھا۔ اس کی بیوی ایلینا (Elena)بھی اسی کے رنگ میں رنگی گئی۔
مہنگے ترین کپڑے، زیورات، ذاتی ہوائی جہاز اور مہنگی کاروں کے شوق میں دیوانی ہوگئی۔ یہ سب کچھ کرپشن اور ملکی خزانے کی بدولت پروان چڑھ رہا تھا۔ ویسے سمجھ میں نہیں آتا کہ نکولائی اور اس جیسے تیسری دنیا کے حکمران، قومی خزانے کو ذاتی کیونکر سمجھتے ہیں؟ انھیں کیوں معلوم نہیں پڑتا کہ ان کی حد درجہ امیرانہ زندگی اور مصنوعی ٹھاٹھ باٹھ کا ماخذ، عوام کی وہ امانت ہے، جس میں وہ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قومی خزانہ تو ایک مقدس رقم ہے جس پر صرف اور صرف عام لوگوں کا حق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی ستر سالہ تاریخ کچھ ایسی ہی ہے۔
وقت گزرتا چلا گیا۔ ہر طرف نکولائی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ 22دسمبر 1989 کو نکولائی حسب معمول، کمیونسٹ پارٹی کی شاندار عمارت سے عوامی خطاب کر رہا تھا۔ اس کی بیوی ساتھ کھڑی تھی۔ کمال کا منظر تھا۔ لاکھوں لوگ سامنے موجود تھے۔ نکولائی، اپنے کارناموں کی فہرست بیان کرتا چلا جا رہا تھا۔
اچانک لوگوں نے صدر کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ نکولائی نے فوری طور پر کہا، کہ یہ ہنگامہ وطن دشمن اپوزیشن کے کچھ شرپسند کر رہے ہیں جو ملک کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے۔ مگر اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کچلے ہوئے، مظلوم لوگ، کتنی بڑی بربادی کر دینگے۔ عوام، عمارت میں گھس گئے۔ نکولائی نے فوج کو حکم دیا کہ فائرنگ کرے اور اسی طرح ہوا، بہت سے مظاہرین مارے گئے۔ مگر فوج، اتنی کثیر تعداد کے احتجاج کو روک نہ پائی۔ ویسے فوج کے سپاہی سمجھدار تھے۔
وہ بھی چاؤشسکوکے ظالمانہ اقتدار سے تنگ تھے۔ مظاہرین نے عمارت پر قبضہ کر لیا۔ صدر اور اس کی بیوی ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پائلٹ نے بتایا کہ اسے طیارہ شکن توپوں سے تباہی کا خدشہ ہے۔ لہٰذا ہیلی کاپٹر کو Gaestiکے نزدیک مین روڈ پر اتار دیا۔ صدر اور اس کی اہلیہ، یکدم زمین پر آ گئے۔ انھوں نے ایک گاڑی والے سے التجا کی کہ انھیں محفوظ جگہ پر پہنچا دے۔ اسے کثیر انعام و اکرام کا لالچ دیا۔ مگر، اس گاڑی والے نے، انھیں، پولیس کے حوالے کر دیا۔ صدر اور اس کی اہلیہ کو ایک دفتر میں بند کر دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد، فوجی افسروں نے پہنچ کر انھیں تحویل میں لے لیا۔ Victor Stanculesa وزیر دفاع تھا۔ اس نے فیصلہ کیا، کہ صدر کو ختم کرنا ضروری ہے۔ دس ممبرز پر مشتمل ایک عسکری ٹربیونل بنایا گیا۔ ان میں کوئی بھی سویلین عدلیہ کا نمایندہ نہیں تھا۔
وکٹر فیصلہ کر چکا تھا کہ نکولائی کو زندہ چھوڑنا حماقت ہے۔ لہٰذا فیصلے سے پہلے ہی اس نے فوجیوں میں سے اپنے وفادار سپاہی منتخب کیے۔ انھیں حکم دیا کہ برائی کو جڑ سے ختم کرنا ہے۔ فوجی ٹربیونل میں نکولائی پر لگے الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔ ان میں ساٹھ ہزار لوگوں کا قتل عام، خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے عوام پر وحشیانہ تشدد، ایک بلین ڈالر کی چوری اور دیگر اقتصادی جرائم شامل تھے۔ تمام کارروائی کو فقط ساٹھ منٹ میں مکمل کر لیا گیا۔
طے شدہ منصوبے کے تحت، اس خاندان کو سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت کے برخاست ہونے کے فقط چند منٹوں بعد، نکولائی اور اس کی بیوی کے دونوں ہاتھ باندھ دیے گئے۔ جس پر انھوں نے بہت شور مچایا۔ اس کے بعد کیپٹن بوریو نے اور اس کے ماتحت سپاہیوں نے انھیں دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ فائرنگ اسکواڈ نے انھیں گولیوں سے بھون دیا۔ ان کی لاشوں پر گریہ کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ کسی کو کوئی افسوس بھی نہیں تھا۔ نکولائی کی موت کو سرکاری ٹیلی ویژن کی ٹیم نے فلمایا اور اسے پوری دنیا میں نشر کر دیا گیا۔ رومانیہ میں اس وقت عبوری حکومت قائم ہو چکی تھی۔ بہرحال ایک ظالم صدر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
چوبیس سال رومانیہ میں اقتدار کل کے مالک کاالمناک انجام ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک، شخصی حکومتوں کے مرض میں مبتلا ہیں۔ افریقہ، ایشیاء اور امریکا سے متصل ممالک، مکمل طور پر یکسانیت کا شکار ہیں۔ چند افراد یا مخصوص خاندانوں کی حکومت، وسائل کی غیر مساوی تقسیم، ریاستی اداروں پر سیاسی انحصار، کرپشن اور جذباتی نعروں کی فراوانی۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ مفلسی کے بوجھ تلے، سسکتے، ہوئے ممالک، ایک جیسے سانحہ سے دوچار ہیں۔ ہاں، ایک اور بات۔ ان کے خواص، مہنگے ترین ہوائی جہازوں، محلات اور شاہانہ زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ افریقہ کے ملک برکینافاسو کو دیکھیے، غریب ملک میں خانہ جنگی ہورہی ہے۔
لاکھوں لوگ قتل ہو چکے ہیں۔ اقتصادی صورت حال دگر گوں ہے۔ مگر اس کا خود ساختہ صدر، بڑے ٹھاٹھ سے رہتا ہے۔ سرکاری جیٹ استعمال کرتا ہے۔ بہترین محل میں زندگی گزارتا ہے۔ سادگی اور شفافیت جیسے بلند پایہ نعروں سے لوگوں کو بے وقوف بناتا رہاہے اور وقتی طور پر کامیاب بھی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے نیم جمہوری اور غیر جمہوری فراعین، بالکل ایک جیسا سوچتے ہیں۔ ہر بادشاہ یہی سمجھتا ہے کہ اس کا دور دائمی ہے۔ کوئی اسے نہیں ہٹا سکتا۔ عوام کو جعلی ترقی کے سنہرے خواب دکھا کر، مدہوش کر دیا جاتا ہے۔ بظاہر راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے۔ مگر یہ تمام افراد، عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت کی شدت کو محسوس نہیں کرپاتے۔ پھر وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
ہمارے جیسے ممالک میں، کوئی صدرطیارے میں حادثے کا اس طرح شکار ہوتا ہے کہ لاش کا سراغ تک نہیں ملتا۔ کوئی دیار غیر کے اسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے اور کوئی اپنی بے نام قبر میں، مرنے کے بعد، لوگوں کی دعاؤں کا انتظار کرتے کرتے، عالم برزخ میں قیامت دیکھ رہا ہوتا ہے۔ دراصل تیسری دنیا کے حکمران "خبط عظمت" جیسی مہلک بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی مڑکرسابقہ فراعین کے انجام سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ حقیقت میں ہر دور، ہر خطے کے نکولائی چاؤشسکوکو فائرنگ اسکواڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر مرتے وقت وہ چوہے کی طرح بے بس ہوتا ہے اور تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتاہے!