مردہ سماج
پنجاب کے ایک وسطی قصبہ میں لڑکی فوت ہو گئی۔ ذہنی طور پر معذور تھی اور مرتے وقت عمر صرف بیس برس کی تھی۔ چھوٹی عید کے دن کا واقعہ ہے۔ تدفین معمول کے مطابق ہوئی۔ رات گزر گئی۔
اگلے دن جب اہل خانہ فاتحہ کے لیے قبر پر گئے تو اس کی دوبارہ کھدائی ہو چکی تھی۔ بڑی مشکل سے قبر کھولی تو لڑکی کی لاش تو موجود تھی۔ مگر وہ بالکل برہنہ تھی۔ سفید کپڑے کا کفن قبر کے اندر ہی ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ کوئی انسان نما جانور آیا۔ لاش کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور دوبارہ دفن کرنے کی بھرپور کوشش بھی کر ڈالی۔ معلوم نہ ہو سکا کہ بالآخر وہ کون تھا جو اس حد تک گر چکا ہے یا جس کی ذہنی حالت اتنی پست ہو چکی ہے۔
خیر پولیس کو اطلاع کی گئی۔ فرنزک ٹیم بھی ساتھ آئی۔ زیادتی کی تصدیق ہو گئی۔ یہ کوئی کہانی یا قصہ نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جو چند دن پہلے گجرات کے نواحی گاؤں میں پیش آئی۔ معمول کے مطابق اخبارات میں دو سطری خبر بھی شاید آپ کی نظر سے گزری ہو۔
ایک دو دن گزرنے کے بعد یہ بھیانک واقعہ لوگوں کے ذہن سے محو ہو جائے گا۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تھوڑے وقفہ کے بعد کوئی اور اندوہ ناک حادثہ ہو جائے گا اور اس کے بعد کوئی اور۔ پھر مزید کچھ اور۔ دراصل اب کسی بھی بات پر حیرت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ واقعات گھمبیر سے گھمبیرتر ہوتے جاتے ہیں اور انسانی حیرت عوامی گراؤٹ کے مقابلے پر ہارتی نظر آ رہی ہے۔
مجھے اس واقعہ پر بالکل بھی تعجب نہیں ہوا۔ اس لیے کہ میڈیکل کالج ہی میں کتابوں سے اس بیماری کا پتہ چل گیا تھا جس میں انسان، مردہ خواتین سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ یہ ایک ذہنی مرض ہے جس کے مریض ہمارے اطراف ہر جگہ موجود ہیں۔ پر میری گزارش ذرا سی مختلف ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ ذہنی طور پر حد درجہ بیمار ہے۔ تمام سماج شدید دباؤ میں ہے۔ جن اخلاقی قدروں کا گلا پھاڑ پھاڑ کر ذکر کیا جاتا ہے، ان کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں ہے۔
ذہنی بیماری کوئی ایک طبقہ یا ایک خاص گروہ تک محدود نہیں ہے۔ ہر طبقہ اپنی اپنی آگ میں جل رہا ہے۔ نظر نہ آنے والے شعلے ہر ایک کو نگل چکے ہیں۔ کوئی بھی طبقہ اب اس توازن کاحامل نہیں کہ اطمینان کا اظہار کیا جا سکے۔
شاید آپ کو میری لکھی ہوئی باتوں پر یقین نہ آئے۔ پر سارے سماج میں کثیر لوگ کسی نہ کسی ذہنی دباؤ یا مسئلہ کا شکار ہیں۔ اور قیامت یہ ہے کہ وہ بظاہر بالکل نارمل نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ انسان اس طرح مقدس ورق میں لپٹے ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق کوئی بھی بات کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ دنیا بھر میں ہر قوم کے تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی کے واقعات سننے میں آتے رہتے ہیں۔
پورے معاشرے میں ہر طبقہ شدید ذہنی پستی کا شکار ہے۔ آپ اس معاملہ کو دوسری طرف لے جائیے۔ کیا دولت کمانے کا جنون ہمارے سماج میں بیماری نہیں بن چکا۔ آپ موجودہ حکومت سے لے کر سابقہ حکومت اور اس سے بھی پہلے والی حکومتوں کو دیکھ لیجیے۔ ننانوے فیصد افراد دولت کمانے کی بیماری میں ہلکان ہوتے نظر آئیں گے۔ کوئی ملکی سالمیت کو یکجا کرنے پر لکشمی دیوی کی پوجا کر رہا ہے۔
تو کوئی ملک کی ترقی کا ترانہ سنا کر پیسے بٹور رہا ہے۔ کوئی آپ کو جنت کا وعدہ کر کے دکان داری کر رہا ہے، تو کوئی آپ کو ادنیٰ چیزیں فروخت کر کے دام کھرے کر رہا ہے۔ جس کا جو بس چلتا ہے وہ پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے کرتا جا رہا ہے۔ ہاں مانتاکوئی بھی نہیں ہے۔
آج تک کوئی ایسا امیر آدمی نہیں ملا جس سے یہ نہ سنا ہو کہ اس کے مد مقابل سیٹھ نے اس سے زیادہ دولت کیونکر کما لی۔ اگر اس کے پاس چار سو کروڑ ہیں تو اس کی نظر ایک ہزار کروڑ کمانے والے پر لگی ہوئی ہے۔ اگر کسی نے نیا ہوائی جہاز خرید لیا ہے تو دوسرا شخص حسد میں دو جہاز خریدنے کے لیے مرا جاتا ہے۔ یہ بیماری ہر امیر آدمی میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ چوٹی کے کوئی بوڑھے سیاست دان لے لیجیے۔ قبر میں ٹانگیں لٹکی ہوئی ہوں گی۔
مگر کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر وہ اور ان کی اولادیں پاگلوں کی طرح ہر طریقے سے ناجائز دولت کمانے میں مصروف کار ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جائز اور ناجائز دولت کی تفریق ختم ہو چکی ہے۔ یہ بوڑھے سیاست دان اقتدار کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ اقتدار، ناجائز دولت کمانے کا جائز ذریعہ ہے۔ مجھے اب کسی سیاست دان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ شاید یہ دو چار ہزار برس کی زندگی لکھوا کر آئے ہیں۔ شاید ان کے کفن بھی ڈالروں سے مزین ہونگے۔
شاید انھوں نے مرنا کبھی بھی نہیں ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ یہ سیاست صرف پیسے اور شاہانہ قوت کے لیے کر رہے ہیں۔ طاقت ور طبقہ کرپشن ثواب سمجھ کر کرتا ہے۔ یہ مذہبی رسومات بھی سرکاری یا نجی کیمرے کے سامنے ادا کرتے ہیں۔
یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے نماز کس مسجد میں پڑھی ہے۔ نماز کو رہنے دیجیے۔ یہ روزہ رسول ؐ اور حرم مبارک میں جاکر کیمرے کے سامنے عبادت کرتے ہیں تاکہ عام آدمیوں میں ان کا تقدس بڑھ جائے۔ کیا یہ واقعی ذہنی بیماری کی ایک قسم نہیں ہے۔ جو جتنا بڑا ڈاکو ہے۔ وہ اپنے آپ کو اتنا ہی محترم اور پارسا ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ بلکہ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کافی حد تک کامیاب ہیں۔
ویسے اگر ہمارے قومی سیاست دان اس قدر نیک اور ایماندار ہیں تو یہ لندن یا نیویارک میں کونسلر کا الیکشن کیوں نہیں لڑتے۔ لندن میں بس ڈرائیور کا باوقار بیٹا تو میئر بن سکتا ہے۔ مگر ان کی آل اولاد کاؤنٹی کا الیکشن لڑنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ کیونکہ پوری دنیا ان کی "ایمانداری" کے بارے میں جانتی ہے۔ یہ ہمارے نظام پر قابض ہو کر یہاں بادشاہی تو کر سکتے ہیں مگر کسی آزاد ملک میں یہ گلی یا محلہ کے نمایندے تک نہیں بن سکتے۔
آپ کسی بھی طبقہ کے عملی رجحانات پر غور کیجیے۔ ایک جیسی بیماری نظر آئے گی۔ امیر طبقے کا ذکر چھوڑیئے۔ کیا ہمارے درمیانے درجے کا تاجر، سرکاری ملازم، تعمیراتی ٹھکیدار درست کام کر رہا ہے۔ کیا وہ ناجائز منافع کمانے کے مرض میں مبتلا نہیں۔ اس طبقہ سے بھی نیچے چلے جائیے۔ پھل فروش، سبزی بیچنے والا، قصائی، ریڑھی پر بچوں کا سامان بیچنے والا، کیا یہ آپ کو درست چیز دے رہے ہیں۔
کیا ان کے نرخ درست ہیں۔ ہرگز نہیں۔ یہ بھی آپ کی جیب کاٹنے میں مصروف کار ہیں۔ ڈاکٹر ہوں، دعویٰ سے عرض کرونگا۔ کہ ہماری ہر قسم کی دوائیاں جعلی ہیں۔ امریکی دوا کھایئے۔ آپ کے سر کا درد ٹھیک ہو جا ئے گا۔ اس ملک کی بنی ہوئی دوا کھایئے۔ آپ کو بہت محدود افاقہ ہو گا۔ یہاں کینسر میں استعمال ہونے والی ادویات تک جعلی ہیں۔ ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی اکثریت، ادویات بنانے والی کمپنیوں کے پے رول پر ہیں۔ ان کی کمیشن کا حساب بالکل محفوظ ہے۔ غیر ملکی دورے، ہوٹلوں کے اخراجات، یہی کمپنیاں برداشت کرتی ہیں۔
پورے ملک کا یکسال حال ہے۔ اداروں کے اندر بھی ناجائز دولت کمانے کی دوڑ موجود ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ مکمل طور پر بیمار ہے۔ چند دن پہلے ایک مردہ نوجوان بچی سے زیادتی کا بدترین واقعہ رونما ہوا۔ مگر اس مردہ سماج کے ساتھ تو ہر طبقہ، ادارہ اور شخص زیادتی در زیادتی کر رہا ہے۔ کسی قسم کی رکاوٹ اور احتجاج کے بغیر۔ اور عوام بھی اب اس طرح کی ادنیٰ زندگی گزارنے کے عادی ہو چکی ہے۔ شاید اب انھیں اصلی دوائی دی جائے تو یہ دم ہی نہ توڑ دیں!