مکالمہ (2)
کتابیں پڑھنے کا رجحان میری دانست میں بڑھ رہا ہے۔ یہ درست بات ہے کہ شاید، کتاب بینی میں لوگوں کا اتنا لگاؤ نہ ہو، جتنا دوسری چیزوں سے ہو۔ مگر اچھی کتاب بہرحال اپنی جگہ بنا کر رہتی ہے۔ اور کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی ذی شعور اس تحریر سے لطف اٹھا رہا ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی اعلیٰ کتاب "مکالمہ" ہے۔
ڈاکٹر وقار ملک نے ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے ساتھ طویل عرصہ گزارا۔ ان سے دہائیوں ہر موضوع پر بلا تکلف گفتگو کرتے رہے۔ کمال بات یہ ہے کہ برس ہا برس کی گفتگو کو کالموں کی منفرد شکل دے ڈالی ہے۔ جو بذات خود ایک اچھوتی بات ہے۔
جہاں تک ایس ایم ظفر کا تعلق ہے۔ وہ ایک سنجیدہ رائے رکھنے والے انسان ہے جن کی پوری زندگی نظام عدل میں سانس لیتے ہوئے گزری۔ زندگی میں نا کبھی ایس ایم ظفر سے ملا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب سے۔ مگر اس کتاب یعنی مکالمے نے مجھے دونوں شخصیات کو پرکھنے اور پڑھنے کا موقع دیا۔ چند اقتباسات عرض کرنا چاہوں گا۔
میں پطرس بخاری کا گرویدہ کیسے ہوا۔ پطرس بخاری نے تقسیم ملک کی فضا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کا مقابلہ طلبا میں گھل مل کر کیا، مجھے پورا یقین ہے کہ اگر مختلف مذاہب کے طلبا کے درمیان کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا تو اس کا بیشتر کریڈٹ کالج کے پرنسپل پطرس بخاری ہی کو جاتا ہے۔
ورنہ افواہیں تھیں کہ ہر روز نئی شکل اختیار کر رہی تھی اور کبھی رات کو حملے یا اچانک شب خون کی باتیں بھی سننے میں آتیں۔ بالآخر فسادات کے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کالج میں گرمیوں کی تعطیلات وقت سے پہلے کر دی گئیں اور میں ہوسٹل چھوڑ کر دوبارہ اپنے گاؤں چک قاضیاں چلا گیا اور رزلٹ کا انتظار کرنے لگا۔
قائداعظم کے نزدیک تصور پاکستان کیا تھا؟ قائداعظم نے ایک ایسی نیشن اسٹیٹ کا تصور پیش کیا تھا جس میں مسلم اکثریت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کا موقع ملے جو نہ صرف عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرے بلکہ اسلام کے، مملکت سے متعلق تمام اصولوں کو بھی فروغ دے۔
کیا عورت ناقص العقل ہوتی ہے؟:محترمہ لی ہو یا زینب القلیہ اگر یہ دونوں خواتین قوت ثقل کی نفی کر سکتی ہیں یا بی بی راستی ہو جو صوفیانہ تحریروں کے باطنی معنی پہچان لیتی تھیں یا میڈم کیوری جنھوں نے ایکسرے کے ذریعے ہمیں جسم کے اندرونی حالات معلوم کرنے کی صلاحیت عطا کی یا فاطمہ جہاں آراء جو دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ صوفیانہ زندگی کے مدارج بھی طے کر گئی اور خواہ وہ ساچی کومراتا ہو جو جاپانی ہونے کے باوجود اسلامی فقہ پر عبور حاصل کر سکی ہے یا پھر بھلا دی جانے والی اسلامی تاریخ کی وہ حکمران خواتین ہوں، ان کی موجودگی میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ خواتین ناقص العقل ہیں۔
انصاف میں تاخیر کا سدباب کیسے ممکن ہو؟: جب میں نے وکالت شروع کی تھی تو قتل کے مقدمات میں سیشن جج کے ساتھ عوام کے نامزد تین اسسیسرز (Assessors) بھی موجود ہوتے۔ ان کی رائے صرف ایک مشورے کی حیثیت رکھتی تھی اور سیشن جج پر اس کی پابند نہیں ہوا کرتی تھی۔
میں نے سیشن جج کے سامنے کچھ قتل کے مقدمات ان دنوں میں بھی کیے تھے جب اسسیرز کو ساتھ بٹھایا جاتا تھا۔ (یہ قاعدہ اب کچھ سالوں سے مفقود ہو چکا ہے۔)وہ مقدمات جیوری سسٹم کی طرح بغیر کسی التوا کے ڈے ٹو ڈے کارروائی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچتے تھے۔ جب سے اسسیسرز سسٹم ختم ہوا ہے، قتل کے مقامات میں بھی تاریخیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔
عیدالاضحی، مسلم قیادت صرف بکروں کی نہیں اپنی انا کی بھی قربانی دے: میں سوچتا ہوں کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہم یہ سوچنا بھی شروع کر دیں گے کہ مسلمانوں کی موجودہ کسمپرسی اور بدحالی کی اصل وجہ کیا ہے؟ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگاکہ اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم بینجمن یاہو نے عالمی دہشت گردی پر ایک کتاب لکھی ہے اور وہ امریکن قاری کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا کے خلاف جو نفرت ہے، وہ اس لیے نہیں کہ امریکا اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اسرائیل قائم نہ بھی ہوتا تب بھی مسلمانوں کی مغرب کے ساتھ نہ بنتی اور ان کی مخالفت ایسی ہی شدید رہتی جو آج موجود ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے جہاں بینجمن نیتن یاہو تاریخی پس منظر بیان کرتا ہے کہ کس طرح اسلام فرانس تک پہنچنے کے بعد واپس لوٹا، وہاں وہ ایک بڑا دلچسپ نکتہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ جب مسلمان دنیا میں زوال پذیر تھے تو مغرب نے اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اکثر اسلامی ممالک میں اپنے ایجنٹ بادشاہوں یا آمروں کی صورت میں بٹھا دیے اور ان کے ذریعے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں۔
جن سے ان بادشاہوں و آمروں کو تو از حد منافع ہوا اور ان کے قریبی ساتھیوں کے ہاتھ میں بھی بڑی دولت آئی، لیکن مسلمان اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں پس گئے، جس کا الزام وہ مغرب پر لگاتے ہیں اور یہ بات ان کے ذہنوں سے نہیں اترسکتی۔
ہندو ذہنیت کی کہانی، نتھو رام گوڈسے کی زبانی: نتھو رام گوڈسے کہتا ہے کہ میں مہاتما گاندھی کے ان بیانات سے تنگ آ چکا تھا جن میں وہ ہم (ہندوؤں) کو آہنسا (عدم تشدد) کی تعلیم دیتے تھے۔
گاندھی نے بھارت کی تاریخ کے برخلاف قدم بہ قدم مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنے شروع کیے اور اس کی تعلیم اور اس کے انداز سیاست نے مسلمانوں کو اہمیت دی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا قائد محمد علی جناحؒ اسے شکست سے دو چار کرتا رہا۔ لوگ مہاتما گاندھی کو بابائے قوم (Father of the nation) کہتے ہیں، میں اسے بابائے پاکستان کہوں گا۔
کیمپ جیل کی "دعوت فکر" دینے والی تقریر:میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جیل میں آئے ہوئے انسان کو چاہے وہ ملزم کی حیثیت سے آئے چاہے وہ سزا پا کر آئے، عام انسانوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے، سب سے پہلا نقصان احترام آدمیت کو پہنچتا ہے۔
1977 کے بعد جب لاہور کیمپ جیل کے پرنسپل نے یہ کہا کہ جیلوں کی حالت میں بہت کم بہتری آئی ہے۔ اگر ایسی جیل جس میں صرف سات سو آدمیوں کی گنجائش ہو وہاں اب ہزاروں کی تعداد میں قیدی موجود ہوں تو وہاں احترام آدمیت کیسے قائم رہ سکتا ہے!
گڈ گورنسس: آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قیام پاکستان سے لے کر موجودہ حکومت تک کوئی بھی دور حکومت ایسا نہیں ہے جسے گڈ گورننس کے لحاظ سے آئیڈیل قرار دیا جا سکے۔ یہاں ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق کسی ایک دور حکومت کو مقابلتاً بہتر ضرور قرار دے سکتا ہے مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں پاکستان کے لیے تن من دھن قربان کرنے والے عوام کو مختلف حکمرانوں سے جو توقعات وابستہ رہی ہیں وہ کبھی پوری نہیں ہو سکیں۔
چنانچہ عوام نے کسی بھی جانے والی حکومت خواہ وہ غیر منتخب حکومت تھی یا منتخب، کبھی بھی افسوس کا اظہار نہیں کیا البتہ آنے والی حکومت سے گڈ گورننس کے حوالے سے توقعات ضرور وابستہ کر لیں۔
عوام اس قسم کی توقعات موجودہ نئی حکومت سے بھی رکھتے ہیں مگر ان کے پورے ہونے کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے اگرچہ اس بار عوام نے مختلف جماعتوں کو منقسم مینڈیٹ دیا ہے ابھی تک مرکز، سرحد، بلوچستان اور پنجاب میں جو حکومتیں سامنے آئی ہیں اور انھوں نے اپنی جو ترجیحات مقرر کی ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ عوام کی ترجیحات سے قطعی مختلف ہیں۔
جب تفریحاً میں بھی رقص میں شامل ہوگیا: میرے پوتے اور پوتیاں گھر میں لگے ہوئے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں ہر اتوار میرے ساتھ دیر تک نہاتے اور نعرے لگاتے ہیں، اگر آپ ان نعروں میں میرے ساتھ شامل ہوں تو آپ کو تفریح کی تعریف کا بخوبی پتا چل جائے گا۔
آپ کے سوال کو سمیٹتے ہوئے یہ عرض کروں گاکہ آپ تفریح کو کسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کریں۔