میرے رہنما، میرے ہم نوا
فرید احمد پراچہ کو اس ملک میں کون نہیں جانتا۔ جب بھی جماعت اسلامی کا ذکر ہوتا ہے۔ چند بہترین لوگ، جو ایک دم ذہن میں آتے ہیں۔ ان میں فرید صاحب بہر حال شامل ہیں۔
مجھے جماعت سے کوئی نسبت نہیں۔ مگر غیر متعصب طور پر سوچیں تو موجودہ زبوں حالی میں بھی صاحب کردار لوگوں کی زرخیز فصل اگر کہیں موجود ہے، تو وہ یہی اسلامی جماعت ہے۔ ویسے بہاولپور سے ڈاکٹر وسیم اختر سے ذاتی دوستی تھی۔ ان کا بال بال جماعت سے وابستہ تھا۔ آج تک جتنے سیاست دانوں سے ملاقات ہوئی ہے۔
ان میں ڈاکٹر صاحب کی سطح کے لوگ بہت ہی کم دیکھنے کو ملے۔ مگر آج میرا موضوع، فرید پراچہ صاحب کی ایک کمال کتاب ہے۔ جو چند دنوں میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ "میرے رہنما، میرے ہم نوا"نام کی یہ کتاب حد درجہ عمدہ تحریر ہے۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ پراچہ صاحب اپنی فکری سوچ کو کشید کرنے سے لے کر جن تمام حضرات سے رابطے میں رہے ہیں۔
ان تمام اکابرین کا ذکر انھوں نے حد درجہ شائستگی سے کیا ہے۔
مولانا مودودی صاحب سے لے کر پروفیسر خورشید احمد، مولانا شاہ احمد نورانی سے لے کر رؤف طاہر اور انور گوندل سے لے کر بابائے لاہور نذر الرحمن رانا تک تمام خوشبودار انسانوں کا ایک گلدستہ سا ترتیب دیا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ ایک کالم میں تو خیر اس کتاب کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ مگر چیدہ چیدہ جملے آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔
مولانا مودودی صاحب کے متعلق درج ہے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران جب بادشاہی مسجد میں جلسہ عام سے مولانا محترم خطاب کرنے آئے تو نوجوانوں کا جذبہ اور عوام کی مولانا سے محبت کا عالم دیدنی تھا۔ اس موقع پر ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا۔ اس کے رد عمل میں کچھ جذباتی نوجوانوں نے اسی جلسہ میں ایک مقرر کی تقریر پر ہنگامہ برپا کیا۔
مولانا کو اس کی خبر ملی تو آپ نے لاہور کے تمام نوجوانوں کو اپنے ہاں طلب فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے ناراضگی کابھی اظہار فرمایا اور کارکنوں کی بدنظمی پر سرزنش بھی کی۔ مولانا کے لیے بالخصوص جو چیز تکلیف دہ تھی۔
وہ بدنظمی، ہڑبونگ اور رد عمل کے اظہار میں جوابی کارروائی تھی۔ انھوں نے جس خوبصورت انداز میں محاسبہ کیا اور نظم کی اہمیت واضح کی اس سے ہم اپنے دل میں شرمندہ بھی ہوئے اور آیندہ حالات میں اس تربیت کو اپنا رہنما بھی بنایا۔
میاں طفیل محمد صاحب کے متعلق ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہوا ہے۔ طویل عرصہ کرایوں کے مکان میں ہی رہے۔ مالک مکان زیادہ کرائے کے لالچ میں مکان چھوڑنے کا نوٹس دے دیتا تو چپ چاپ کسی اگلے مکان میں منتقل ہو جاتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر کسی صاحب ثروت عزیز نے پیش کش کی کہ آپ یہ مکان جو 24ہزار روپے میں بک رہا ہے، خرید ہی لیں۔
میں رقم دیتا ہوں اور آپ یہ رقم اسی طرح مجھے واپس کرتے رہیں جیسے آپ اس مکان کا کرایہ دیتے ہیں، لیکن میاں صاحب کی غیرت نے اتنا احسان لینا بھی پسند نہ کیا، بلکہ انھیں توجہ دلائی کہ اگر آپ کو میرا خیال آیا ہے تو آپ پہلے اپنے غریب ملازمین کا خیال کریں اور انھیں ہی دو دو مرلہ کے مکانات بنا کر دے دیں اور آپ کی طرف سے یہی میری بھی خدمت ہوگی اور میں اسی پر خوش ہو جاؤں گا۔
کراچی کے میئر نعمت اللہ خان: ایک ایسی شخصیت کہ جس نے قیام پاکستان کے بعد کئی راتیں فٹ پاتھ پر گزاریں۔ جس کی ابتدائی زندگی جھونپڑوں میں گزری تھی جو پھر اسی شہر کراچی میں ناظم بنا۔ جس کی نظامت کا دور پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہرا دور تھا جس نے گڈگورننس اور کرپشن فری سیاست کی سب سے سچی داستان مرتب کی جس کے دشمن بھی اس کے مداح تھے۔
مولانا امین احسن اصلاحی: یہ 1962 کی بات ہے جب میں سرگودھا سے آ کر اسلامی جمعیت طلبہ کی 7روزہ تربیت گاہ میں شامل ہوا۔ اس وقت میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس تربیت گاہ میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب بھی درس قرآن دینے تشریف لائے۔
ان کا درس قرآن تو میری اس وقت کی بچگانہ استعداد سے بلند تھا۔ تاہم درس قرآن کے بعد میں ان سے جا کر ملا۔ میں نے ابا جی کے حوالہ سے اپنا تعارف کرایا تو انھوں نے دعائیہ کلمات سے نوازا۔ پوچھا آپ کے مولانا مودودی سے کیا اختلافات تھے۔ انھوں نے کہا آپ بچے ہیں یہ بڑوں کے اختلافات تھے بچوں کو پوچھنا ہی نہیں چاہیے۔
ڈاکٹر اسرار احمد: ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات بھی سابقین جمعیت بالخصوص سابق ناظمین اعلیٰ سے ملاقاتوں کی مہم کے دوران ہوئی۔ 1972میں ہم سرگودھا سے لاہور منتقل ہوئے۔ لاہور جمعیت سے میری وابستگی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کرشن نگر میں محترم ڈاکٹر اسرار صاحب سے کلینک میں پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ زیادہ لمبی ملاقات نہ تھی۔
سلام دعا، تعارف، لاہور جمعیت کی طرف سے دعاؤں کی درخواست۔ بعد میں بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کی زیر صدارت اجلاسوں میں شرکت ہوئی۔ قرآن اکیڈمی میں متعدد مرتبہ حاضری ہوئی۔ نماز تراویح میں بھی جزوی شرکت ہوئی۔
آغا شورش کاشمیری: آغا شورش کاشمیری جتنے بڑے خطیب تھے اتنے ہی بڑے ادیب اور اس سے بڑے شاعر تھے۔ ان کی کتابو ں میں"شب جائے کہ من بودم" سفر حج و عمرہ پر ایسی کتاب ہے کہ جس کی سطر سطر آنسوؤں اور دل کی دھڑکنوں کے ساتھ لکھی گئی ہے۔
آغا صاحب ہم طلبہ پر بے حد مہربان تھے۔ ایک مرتبہ ہم ان سے ملنے گھر گئے تو ان دنوں ان کی طبیعت خراب تھی۔ وہ ایک بڑا تولیہ لپیٹے آرام کر رہے تھے۔ اس طرح انھوں نے کسی تکلیف میں پڑنے کے بجائے اسی حالت میں ہمیں بلا لیا۔
الطاف حسن قریشی: 90 سال کی عمر میں بھی قریشی صاحب کی یادداشت کمال کی ہے۔ وہ فوراً مخاطب کا نام لے کر پکارتے ہیں۔
انھیں ملکی تاریخ کے کئی واقعات سن و سال کی ترتیب سے یاد ہیں۔ اردو ڈائجسٹ نے ملکی سیاست میں نظریہ کی حفاظت کی ذمے داری بہترین طریقے سے نبھائی ہے۔ اسی طرح قومی زبان کی خدمت کی ہے۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ رسائل کی تاریخ میں نئی جہتوں کو دریافت کیا ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان: پاکستانی سیاست کا نامور اور معزز ترین نام ہے۔ وہ سنجیدہ فکر رہنما تھے اور ہمیشہ اتحادوں کے سربراہ رہے۔ ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں، نوابزادہ صاحب کا بوہڑ والے چوک کی جس عمارت میں دفتر بھی تھا اور رہائش بھی، وہاں محترم پروفیسر غفور احمد صاحب کے ہمراہ بھی حاضری دی اور اکیلے بھی کئی مرتبہ حاضر ہوا۔ نوابزادہ صاحب وضع دار سیاست دان تھے۔
ان کے ساتھ گفتگو حوصلہ افزاء بھی ہوتی اور معلومات افزا بھی۔ پروفیسر صاحب جب بھی لاہور تشریف لاتے وہ نوابزادہ صاحب سے ملاقات ضرور کرتے۔ ایسی ملاقاتوں میں صفدر چوہدری صاحب مرحوم کے علاوہ میں بھی ہمراہ ہوتا۔ اکثر دوپہر کا کھانا نوابزادہ صاحب کے پاس ہوتا۔ نوابزادہ صاحب کے سیکریٹری جمشید صاحب بھی متواضع شخصیت تھے، نوابزادہ صاحب کا دستر خوان بہترین کھانوں کا مرکز ہوتا۔
ملک معراج خالد: ملک صاحب بائیں بازو کی سیاست کرتے تھے سادگی کا پیکر تھے۔ جب وہ قائم مقام وزیراعظم تھے توان کی گاڑی ٹریفک کے ہجوم میں پھنس گئی وہ تنہا گاڑی میں ڈرائیور کے ہمراہ تھے۔ نہ آگے کوئی گاڑی نہ پیچھے کوئی گاڑی۔ پتہ چلا کہ گورنر پنجاب کے پروٹوکول کی وجہ سے ٹریفک جام ہے۔ انھوں نے گورنر کو فون کیا۔ اے خدا کے بندے تمہاری وجہ سے میں بھی پھنسا ہوا ہوں۔
عبد القادر حسن: میں جناب عبدالقادر حسن صاحب کی تحریروں کا ہمیشہ مداح رہا ہوں۔ ان کی تحریر کی سطر سطر میں نظریہ پاکستان بولتا ہے اور حرف حرف میں اسلام اور پاکستان سے تعلق کی خوشبو آتی ہے۔ عبدالقادر حسن صاحب نے میرے سفر نامے پر کالم بھی لکھا۔ تقریب میں بھی تشریف لائے۔ جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔
فرید پراچہ صاحب کی باکمال کتاب پر لکھنا میرے لیے از حد مشکل ہو رہا ہے۔ کیونکہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ ایسی ایسی کمال ہستیوں کے متعلق، ذاتی حیثیت کے تجربات بذات خود ایک خزانے سے کم نہیں۔ صرف یہی عرض کر سکتا ہوں کہ فرید پراچہ صاحب نے کتاب لکھنے کا حق ادا کر دیا!