مرثیہ
کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ بلکہ اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ کسی بھی کالم کے پہلے دو چار جملے پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ موصوف کس کی کاسہ لیسی کر رہے ہیں، کس کے درباری ہیں اور کہاں مجاوری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
معلومات کی بنیاد پر عرض ہے کہ اب تو دانشوروں کے پیسوں کے لین دین کی بھی سن گن مل جاتی ہے۔ تو جناب! پھر ایسے لوگوں کے لکھے ہوئے الفاظ پڑھنے پر کیوں وقت ضایع کیا جائے۔ ہاں، کتابیں خوب پڑھتا ہوں۔ کم از کم دو گھنٹے روزانہ۔ اس سے آپ کہیں یہ اندازہ نہ لگا لیں کہ کوئی اورکام نہیں کرتا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دن کا ایک ایک لمحہ مصروفیت میں گزرتا ہے۔ دن میں کم ازکم بارہ گھنٹے کام کرتا ہوں اور ہاں! اپنا واحد شوق تیراکی، کم ازکم ہفتہ میں چار پانچ مرتبہ پورا کرتا ہوں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دو راستے تھے۔
ایک تو قنوطی اور سنکی ہو جاتا اور ہر وقت ہر چیز کو کوستا رہتا۔ دوسرا راستہ تھا کہ کوئی ڈھنگ کا کام شروع کر دیتا۔ ویسے ایک تیسرا کام بھی تھا کہ دن رات ٹی وی دیکھتا رہتا۔ خدا سے دعا کی کہ تو ہر امر کا مالک ہے، راستہ دکھا۔ خدا کے حکم ہی سے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اس رفتار سے ترقی کرنی شروع کر دی کہ ششدر رہ گیا۔
وعدہ صرف ایک تھا کہ شراکت داری صرف اور صرف خدا سے ہو گی۔ لہٰذا اس کی راہ میں کمائے ہوئے حق حلال کے پیسوں سے اپنی معمولی بساط کے مطابق خرچ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ باقی ہی نہیں رہا۔ سرکاری زندگی میں جن اشیاء کے لیے ترستا تھا، خدا نے اپنی عظمت کی لاج رکھتے ہوئے عطا کرنی شروع کر دیں۔ سارے دن کی تھکن شام کو اپنے اسٹڈی روم میں دو گھنٹے پڑھنے سے ہی دور ہوتی ہے۔
بالکل یہی حال ٹی وی اینکرز اور دانشور تجزیہ نگاروں کی سوچ کا ہے۔ ان میں سے اکثریت کی باتیں حقائق سے ہٹ کر بلکہ جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔ دوبارہ عرض کروں گا۔ انھیں جو لوگ یا ادارے جزوی معلومات فراہم کرتے ہیں، اس کا بھی ایک خصوصی زاویہ ہوتا ہے۔
عوام کا ذہن خاص معاملات میں ایک بیانیے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ مگر یہ معدودے چند لوگ بھول چکے ہیں کہ "سوشل میڈیا" پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی کمر توڑ چکا ہے۔ مین اسٹریم الیکٹرانک میڈیا خیر سے صرف دو سیاسی متحارب گروپوں تک محدود ہو چکا ہے۔ بہرحال سوشل میڈیا وہ جن ہے جو ہر طرح کے خبررساں ادارے کو کھا پی چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ریاستی ادارے کا ماؤتھ پیس بھی اپنی اہمیت گنوا چکا ہے۔ یہ سب کچھ ایک خاموش انقلاب ہے جس کا لوگوں کو تو ادراک ہے مگر سیاسی قائدین ابھی تک روایتی ڈگر پر چل رہے ہیں، مگر اب ان میں سے متعدد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہیں۔
چلیے چھوڑیئے۔ آصف زرداری کی حکومت ہو یا شہباز شریف تخت نشین ہو، عمران خان ملک کا کرتا دھرتا ہو یا پرویز الٰہی کو اقتدار مل جائے، اس سے عام لوگوں کا کیا تعلق ہے۔ عوام کی زندگی ان میں سے کسی نے نہ بہتر کی ہے اور نہ ہی کرے گا۔ ہاں! ان کی اولادیں اور عزیز رشتہ دار دولت کے دریا میں غوطے ضرور لگا رہے ہیں، ان کے نوکر بھی اپنی بساط سے بڑھ کر دولت مند ہوچکے ہیں۔ مجھے تو اب سادہ لوح اور حقائق سے لا علم عوام کی حالت پر بھی ترس آتا ہے کہ وہ ایسے چکربازوں کو اپنا سیاسی لیڈر مانتے ہیں اور ان کے لیے زندہ آباد کے نعرے لگاتی ہے۔
عام لوگ بہرحال اب کچھ کچھ سمجھ بھی رہے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ تو معیشت سنبھالنے آئے تھے لیکن اس ماہ بجلی کے بل دگنے آئے ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار، فی یونٹ بجلی کے نرخ دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، ان نرخوں نے بجلی کے بل کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ لوگ اسے اتارنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ ہر گھر میں بجلی کا بل نہیں آیا بلکہ بجلی گرائی گئی ہے اور ظلم یہ ہے کہ حکمرانوں، بیوروکریسی، عدلیہ کے ججزبلکہ ریٹائرڈ اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کی بجلی مفت ہے، اگر مفت نہیں تو کم از کم چھ سات سو یونٹ ضرور معاف ہیں اور پینشن بھی، اس پر کمال ایمانداری اور مہذب ہونے کا سرٹیفکٹ بھی مل جاتاہے۔
یعنی ان مہذب، قانون پسند اور پڑھے لکھے ایمانداروں کے گھر میں استعمال ہونے والی بجلی کی قیمت ریڑھی والا، مزدور، دیہاڑی دار اور مستری ادا کر رہے ہیں۔ یہ ہے وہ شفافیت والا طرزحکمرانی جو ستر سال سے بلا روک ٹوک جاری وساری ہے۔
ایک سال پہلے لکھا تھا کہ عثمان بزدار تحریک انصاف کی قبر کھود رہا ہے۔ بزدار صاحب کے کئی دوستوں نے فون کیا کہ وزیراعلیٰ سخت ناراض ہیں کہ یہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔ جواب تھا کہ وقت ثابت کرے گا کہ سچ لکھ رہا ہوں۔ ان کی طرف سے ملاقات کی تیسرے فریق کی جانب سے خواہش کا اظہار کیا گیا۔
عرض کی کہ اب میں حکمرانوں کے سائے سے بھی دور رہتا ہوں۔ اگر آنا چاہیں تو میری معمولی سی کٹیا حاضر ہے۔ بہرحال نہ وہ آئے اور نہ میں ان کے پاس گیا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ عثمان بزدار، تونسہ شریف سے جو زنبیل ساتھ لائے تھے۔ انھوں نے اس زنبیل میں خاصا کچھ ڈالا، خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پردے سے غائب ہو گئے۔ ملتان، ڈی جی خان اور لاہور میں جو ان کی پراپرٹی گزشتہ چار سال میں بنی ہے، اس کی تفصیلات اب مانگی جارہی ہیں۔ عثمان بزدار کو چھوڑیں، پنجاب میں جو بھی حاکم بنا، وہ قومی خزانے کے لیے عثمان بزدار سے بھی زیادہ بے رحم اور سفاک ثابت ہوا۔
سنا ہے اسلام آباد میں جو منڈی خان صاحب چھوڑ کر گئے تھے آج کل بھی وہاں زورشور سے کام ہو رہا ہے، سب کچھ جاری ہے۔ کام اور دام باہم شیروشکر ہیں، اور معاف کیجیے گا، سب کچھ شفافیت اور میرٹ پر ہورہا ہے۔ سنا ہے کہ دبئی جانے والے ایک صاحب کے سامان پر ایئرپورٹ پر تعینات کسٹم افسر نے ہلکا سا اعتراض کیا تھا، اسے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔
میرے پاس کرپشن کی ایسی ایسی مصدقہ معلومات ہیں، اگر لکھ دوں تو پڑھنے و الے کا کلیجہ پھٹ جائے۔ ایان علی کیس تو سب کو یاد ہے، آگے بات کرنا نہیں چاہتا، بس دل دکھتا ہے صاحب! مگر اب کم بخت دل بھی نہیں دکھتا۔ اپنا اور اپنے ملک کا مقدر مان کر سر تسلیم خم ہے۔ کچھ خاندانوں اور لوگوں کو خدا نے ڈھیل دے رکھی ہے، ان کی پکڑ کب ہو گی، اس کا انتظار ہے۔
عذاب تو یہ بھی ہے کہ خان صاحب بھی اپنی نادانی کی بدولت سیاسی طور پر بری طرح گھائل ہو چکے ہیں۔ خاکسار مسلسل لکھ رہا تھا کہ عمران خان ضعیف العتقادی کا شکار ہیں۔ انھوں نے اپنی حکومت غیر سیاسی رویے اور غلط انتظامی فیصلوں سے روند کر رکھ ڈالی۔ ان کے اردگرد منڈلانے والے اپنا مقدر بناتے رہے اور مشکل وقت میں رفوچکر ہو چکے ہیں۔
خان صاحب جو دعوے کر کے مسند شاہی پر براجمان ہوئے تھے، انھوں نے ان دعوؤں کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ نتیجہ وہی پرانے لوگ تخت پر واپس آ گئے جو مسئلے کی جڑ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کے ریکٹس کے ذریعے ریاستی ادارے کو نشانے پر رکھا گیا۔ اب مزید کیا لکھوں، جانے دیجیے۔ کل نوبل انعام یافتہ خواتین کی ایک کتاب منگوائی ہے۔ اسے پڑھنا شروع کرتا ہوں۔ مرثیہ تو ہر وقت اور ہر دم جاری رہتا ہے اور اب رہ کیا گیا ہے؟