خوابوں کے آسرے پہ کٹی ہے تمام عمر
قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحب تو حد درجہ آئینی اور قانونی باتیں فرماتے تھے۔ کہتے تھے کہ جناب ہر رکن جو استعفیٰ دے چکا ہے اور جس کا استعفیٰ ڈپٹی اسپیکر ماضی میں قبول کر چکا تھا۔
اسے بھی فرداً فرداً اپنے چیمبر میں بلاؤں گا اور دیکھوں گا کہ کیا معزز رکن اسمبلی نے کسی دباؤ میں آ کر استعفیٰ تو نہیں دیا۔ ہاں۔ یاد آیا۔ فرمان تھا کہ رکن کا استعفیٰ اپنے ہاتھ سے لکھا ہونا چاہیے۔ تاویل تھی کہ آئین، قوانین میں یہی درج ہے۔ مگر انھوں نے متضاد عملی رویہ اپنایا۔ تحریک انصاف کے پینتیس ارکان قومی اسمبلی کے استعفے فی الفور قبول کر لیے۔ کسی کو چیمبر میں طلب تک نہیں کیا۔ وجہ سب کو معلوم ہے۔
جیسے ہی تحریک انصاف نے یہ عندیہ دیا کہ قومی اسمبلی میں واپسی کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے کہ نیم بلب، لیڈر آف اپوزیشن کی جگہ فعال اپوزیشن لیڈر بنائے گی تاکہ الیکشن کے لیے کیئر ٹیکر سیٹ اپ پر بامعنی مذاکرات ہو سکیں۔
اسپیکر صاحب نے اپنے تئیں، سیاسی بساط میں تبدیلی کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ سب کے علم میں ہے کہ موجودہ وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہے۔ ہاں اگر "مہربان" ساتھ کھڑے ہو جائیں تو شاید اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ مل جائے۔
بصورت دیگر، وزیراعظم دفاعی پوزیشن میں چلے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے صرف ایک معمولی سے اعلان سے پی ڈی ایم خائف ہوگئی کہ محترم اسپیکر کو متحرک ہونا پڑا۔ دراصل تقریباً ایک دہائی سے ہمارے سیاسی اکابرین جو اب پی ڈی ایم کہلاتے ہیں۔
عمران خان کے رد عمل کا شکار ہیں۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ خان صاحب، فہم و فراست والے فیصلے کرتے ہیں۔ مگر خان صاحب نے ان سیاسی اکابرین کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اب ہو کیا رہا ہے۔ خان بڑے سکون سے سیاسی شطرنج کی ایک چال چلتا ہے۔ اور مقابلے کے بزرجمہر مزید الجھتے چلے جاتے ہیں۔
ہمارے جیسا ملک، چند بلین ڈالر کی خاطر دنیا کے ہر مالی ادارے اور ملک کے سامنے سرنگوں ہے۔ مگر ہم ایک امر فراموش کر دیتے ہیں، مغربی ممالک کے سربراہان کو ہماری سیاسی اشرافیہ کی غیر ملکی ناجائز دولت کا سو فیصد علم ہے۔
انھیں معلوم ہے کہ ناجائز دولت، ہمارے چند سیاسی خاندانوں نے مختلف ذرایع سے مغربی محفوظ مقامات میں ٹھکانے لگائی ہے۔ لہٰذا تمام مغربی اقتصادی ذرایع ان ناپسندیدہ لوگوں کو اپنے ٹیکس پیئر کا پیسہ دینے سے انکاری ہیں۔ خود فیصلہ فرمائیے کہ اگر چھلنی میں چھید ہوں تو کون سیانا آدمی اس میں مزید پانی ڈالے گا۔ ہمارے چند اکابرین کی شہرت عام سطح کی ہے۔
لہٰذا کوئی بھی ادارہ یا مغربی ملک انھیں پیسے دینے کا رسک نہیں لینا چاہتا۔ ویسے دیکھیے۔ ابھی سیلاب زدگان کے لیے ڈونر کانفرنس منعقد کی گئی۔ میڈیا پر ہونہار وزیر خارجہ کا ذاتی کارنامہ گردانا گیا۔ وہاں دعوے ہوئے۔ صرف دعوے۔ "فرزانوں" نے گلا پھاڑ کر وظیفہ شروع کر دیا کہ پاکستان کو اتنے بلین ڈالر امداد مل گئی۔
واہ صاحب واہ۔ اعلان کردہ دعوؤںکی اکثریت، قرضے ہیں جو پہلے سے منظور شدہ تھے۔ جو تھوڑی سی امداد ہے وہ بھی ملکی اداروں کو نہیں دی جائے گی۔ وہ پیسے بھی غیر ملکی سفارت خانے اپنی نگرانی میں نجی اداروں سے خرچ کروائیں گے۔
جناب فرمائیے، کہ یہ کس طرح کی کامیابی ہے؟ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ سندھ میں ناکام صوبائی حکومت آج تک سیلاب کا پانی متعدد ضلعوں سے نکال ہی نہیں پائی۔ باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ دوار کا کا قلعہ ابھی فتح کر کے لوٹے ہیں۔
موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ عدالتوں میں اپنے مقدمات ختم ہونے اور چند ذاتی فوائد اٹھانے کے بعد ان کی پاکستان میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی بلا سے ملک کو بڑا نقصان بھی پہنچ جائے تو کم از کم یہ لوگ مکمل محفوظ رہیں گے۔ ان کے پیسے باہر، جائیدادیں باہر، اولاد باہر۔ ان کی دولت ڈالروں میں ہے۔
لہٰذا اگر روپیہ پانچ سو روپیہ ڈالر تک گر جائے توبھی ان کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ مجبور اور مفلوک قوم کو کچھ دینے کے لیے ان کے پاس سوائے تقریروں کے کچھ بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب جیسا ملک جو ہمارا برادر کہلاتاہے۔ ڈیوس کے ورلڈ اکنامک فورم پر ان کے وزیر خزانہ نے برملا کہا ہے کہ ہم صرف ان دوست ملکوں کو امداد دیں گے جو اسے اپنے مالیاتی نظام میں درست طریقے سے خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دراصل یہ ہماری اقتصادی ٹیم پر ایک بھرپور طنز ہے۔ پیغام ہمارے ملک کے جس طبقے کے متعلق ہے، انھیں بین السطور پیغام پہنچ چکا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی عملی سیاست پر غور فرمایئے۔ پی ڈی ایم کا پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار، پاکستان آنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتا۔ پنجاب میں چند دن پہلے سیاسی قیامت برپا تھی۔
اس کے باوجود مسلم لیگ کے امیدوار وزیراعلیٰ منظر سے مکمل طور پر لا تعلق رہے۔ فیصلہ فرمائیے کہ کیا ان خاندانوں کو معمولی سی سیاسی جدوجہد بھی نہیں کرنی چاہیے۔ کیا یہ پیدا ہی صرف اور صرف بے لاگ حکومت کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔
پنجاب کی سیاسی حقیقت میں اب تبدیلی آرہی ہے۔ یہ نکتہ درست ہے کہ عمران خان میں ابھی وہ سیاسی پختگی نہیں آئی جس کی ضرورت ہے۔ مگر وہ شخص اس کمزوری کو بھی طاقت بنا چکا ہے۔
سندھ میں بھی خاندانی سیاست کا یہی حال ہے۔ بلاول زرداری کسی صورت میں ایک منجھے ہوئے سیاست دان نہیں ہیں۔ امور خارجہ کا ان کا کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ مگر وہ آیندہ وزیراعظم بننے کے لیے ہر پروپیگنڈہ اور حربہ استعمال کر رہے ہیں۔
مقابلے میں ہندوستان کا وزیر خارجہ ایس جے شنکر حد درجہ تجربہ کار سفارت کار ہے۔ اس کے پاس 1977سے لے کر آج تک کا سفارت کاری کا عملی تجربہ ہے۔ امریکا سمیت کئی اہم ترین ممالک میں بطور سفیر بھی کام کر چکا ہے۔ فیصلہ فرمائیے کہ بلاول کا سفارت کاری سے کیا تعلق ہے؟ کیونکہ وہ زرداری کا سپوت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے وزیرخارجہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہم نے سیاست اور گوریننس کو ایک سنگین مذاق بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف بھی اپنے دور حکومت میں ہر طرح کی غلطی کرتی رہی ہے۔ خان صاحب کے پاس ایک ہنر بے مثال ہے، اپنے بہترین دوستوں کو دشمن بنانے کے فن میں یکتا ہے۔ دوسرا ان کی شخصیت میں لوگوں کے لیے فیض نہیں ہے۔ ان کی ہر بات میں، سے شروع ہو کر میں، پر ختم ہوتی ہے۔
ہر دعویٰ خدائی دعویٰ ہے۔ سیاسی ناتجربہ کاری اور انا کے گھوڑے پر سوار، وہ بھی ہر ظلم روا رکھتے رہے ہیں۔ عوام نہ ان کے دور میں خوش تھے اور نہ ان کے بعد۔ مگر متوازن بات یہ ہے کہ ان کا دور، بہرحال موجودہ پر آشوب دور سے بہت بہتر تھا۔
سیاست دان، مکمل بلوغت سے دور ہوں تو رہ سہہ کے ریاستی ادارے ہی بچتے ہیں۔ 1947سے لے کر آج تک سیاست دانوں نے ریاستی اداروں کو اتنی وسعت دے دی ہے کہ اب وہ کسی صورت میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا سے لے کر افغان پالیسی تک، ہمارے ریاستی اداروں نے کردار ادا کیا ہے۔
ان کے ساتھ مذہبی طبقے نے بھی دولت کی گنگا میں خوب اشنان کیا ہے۔ چند مذہبی رہنماؤں نے تو سیاست اور مذہب کا ملغوبہ اس طرح مرتب کیا ہے کہ دونوں میں فرق معدوم ہو چکا ہے۔ پھر ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جس سے مذہبی طبقہ کا مثبت اور منفی اثر اوج ثریا پر پہنچ چکا ہے۔
موجودہ صورت حال، بالکل ویسی ہے جو کسی بھی ملک کے برباد ہونے سے ذرا پہلے ہوتی ہے۔ صور اسرافیل تو پھونک دیا گیا ہے۔ مگر کسی کو کوئی فکر معلوم نہیں پڑتی۔ سیاست دان آج بھی تواتر سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ ترقی کے جھوٹے خواب دکھا رہے ہیں۔ ان خوابوں کی تعبیر بہرحال حد درجہ خوفناک معلوم ہوتی ہے۔ مگرکیا کریں، ہم تو پوری عمر صرف خواب ہی دیکھتے آئے ہیں۔