خامیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں!
2018کاالیکشن سر پر تھا۔ ن لیگ حد درجہ ضعف کا شکار تھی۔ مقتدر قوتیں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوئی تھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج وہ شہباز شریف اور زرداری صاحب کے ساتھ شانہ بشانہ موجود ہیں۔ صاف نظر آ رہا تھاکہ تحریک انصاف بھرپور طریقے سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرے گی۔
ہوتا یوں تھا کہ جہانگیر ترین کو مخصوص ایم پی اے یا ایم این اے کے بارے میں اطلاع دی جاتی تھی اور طیارہ حرکت میں آ جاتا تھا۔
منتخب نمایندہ ہوائی سواری میں اسلام آباد آتا تھا۔ بنی گالا میں خان صاحب کوئی چوں چراں کیے بغیر، گلے میں تحریک انصاف کانشان ڈالتے تھے۔ اور وہ "میرٹ" پر خان صاحب کا ساتھی بن جاتا تھا۔
عمران خان کو علم نہیں ہوتاتھا کہ یہ قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر کس وضع کا ہے اور اس کا ماضی کیاہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا بہت کم لوگوں کوعلم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شاید بہت لوگ اس کو جانتے ہوں۔ مگر درون خانہ تمام باخبر لوگوں کواس کامیاب مشق کا علم تھا۔ بہر حال اب یہ تیر بہدف نسخہ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حق میں استعمال ہو رہا ہے۔
عمومی خیال تھاکہ عمران خان ایک حد درجہ کامیاب وزیراعظم ثابت ہونگے۔ کیونکہ ماضی میں جس بھی شعبہ میں ہاتھ ڈالا تھا، وہ بھرپور طریقے سے کامیاب ٹھہرے تھے۔ مگر یہ سیاست اور کارکردگی کا ریگزار تھا اور ہے۔
جس میں ان کا تجربہ بہت زیادہ نہیں تھا۔ طاقتور حلقوں کو یقین تھا کہ عمران خان ملک کی حکمرانی کا حق ادا کر دے گا۔ پر امید سی فضا تھی۔ خان صاحب نے کامیابی کے بعد جو پہلی تقریر کی، وہ بھی کافی پرمغز اور حوصلہ افزاء تھی۔ مگر چند سمجھدار افراد کچھ مختلف سوچ رہے تھے۔
ان کے خیال میں مرکز اور پنجاب میں کمزور حکومت بنی ہے اور یہ اتحادیوں کی بیساکھی پر کھڑی ہے۔ چند باخبر لوگوں نے 2018 میں بھی الیکشن کے نتائج کو مستقبل کے سیاسی منظر کے لیے حد درجہ افسوس ناک قرار دیا تھا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ خان صاحب کو طاقت ور حلقوں کی کافی حد تک مدد حاصل تھی۔ اب یہاں ایک حد درجہ سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب نے عملی طور پر جوکام کرنے تھے۔
کیا درست حکمت عملی سے انھوں نے ایسا کیا؟ سچ تویہ ہے کہ بطور وزیراعظم، خان صاحب نے حد درجہ بچگانہ حرکات کرنی شروع کر دیں۔ جس نے ہر ایک کو چو نکا دیا۔ 2018 کی بات کر رہا ہوں۔ اس وقت کوئی تجزیہ کار سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خان صاحب کے ابتدائی فیصلوں سے ان کے حامی حلقے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے پہلو بدلنے لگے ہیں۔ پہلی انتظامی غلطی، ایک ایسے اہم افسر کی تعیناتی تھی جس کو پنجاب کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔
کون سی برادریاں مضبوط ہیں۔ حلقے میں کون سے مقامی لوگ طاقتور ہیں۔ کس دھڑے کے ساتھ کیسے لوگ ہیں۔ اس افسر کو اس سیاسی جزئیات کی کوئی خبر نہیں تھی۔ یہ ایسی غلطی تھی جس نے خان صاحب کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا۔ ابتدائی دور کی عرض کر رہا ہوں۔ پھر خان صاحب ایسے گھیرے میں آئے کہ ان کے خیر خواہ جیسے جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ دور ہوتے چلے گئے۔ جہانگیر ترین اس حوالے سے میڈیا میں بھی بات کر چکے تھے۔ مگر خان صاحب نے اس بات پر توجہ قطعاً نہیں دی۔
وہ اس وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے۔ جو سیاست دان یا سرکاری افسر اختلاف کرتا ان کی نظر میں وہ چور، ڈاکو اور غدار تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ بیورو کریسی نے خان صاحب کے تمام احکامات میں بریکیں لگانی شروع کر دیں۔ خان صاحب کے احکامات کو ہوامیں اڑانا شروع کر دیا۔ جوایک منطقی بات ہے۔ چونتیس برس، سرکار کا حصہ رہا ہوں۔ ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے، کہ کوئی بھی کام کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔
اور اسی کام کوناکرنے کے دو ہزار طریقے ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ شروع کے چند ماہ بعد "دوہزار " والا فارمولا استعمال ہونا شروع ہو گیا۔ مگر یہاں ایک المیہ رونما ہوا۔ چند مخصوص لوگوں نے سب کو اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ذمے داری سے بات کر رہاہوں کہ وزیراعظم کے قریبی لوگوں اور وزیراعظم نے لوگوں سے چن چن کر بدلے لیے۔ اس طرح طاقتور حلقے مزید پریشان ہو گئے۔
عمران خان نے ایک ایسا غیر سنجیدہ بلکہ محیرالعقول سیاسی فیصلہ کر دیا جس پر ان کی تمام جماعت اور اسٹیبملشمنٹ نے تحفظات کا اظہار کیا۔ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ لگانا سیاسی خودکشی کے مترادف تھا۔ تمام باخبر لوگوں نے خان صاحب کے، اس فیصلے کی مخالفت کی۔ مگر خان صاحب نے سب کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
اب پنجاب ایک ایسے شخص کے قبضے میں آ گیا جسے لاہور تو کیا، وسطی پنجاب کی پیچیدہ سیاست کا کوئی ادراک نہیں تھا۔ پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے کے بلدیاتی لیول کی سیاست کرنے والے شخص کو پنجاب کا تخت سونپ دیاگیا۔ یہ وہ فاش غلطی تھی جس کا مخالف سیاسی جماعتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اور درست طور پر اٹھایا۔ شہباز شریف، ہرطور پر، عثمان بزدار سے ہزار درجہ بہتر تھے۔ ان کی قوت فیصلہ، افسروں سے کام لینے کی ترکیب، حددرجہ کامیاب تھی۔
حزب اختلاف کے لیے عثمان بزدار کی تقرری حد درجہ عمدہ خوش خبری تھی۔ کیونکہ انھیں اندازہ ہو چکا تھا کہ پنجاب اب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جو ناتجربہ کار ہونے کی بدولت فاش غلطیاں کرینگے۔
اور بالکل ایسے ہی ہوا۔ عثمان بزدار پریس سے گھبراتے تھے۔ ادھر ساؤتھ پنجاب میں "بزدار ٹیکس" کی باتیں شروع ہوگئیں۔ لوگ سرعام باتیں کرنے لگے کہ فلاں شخص کو مل لو، بزدار صاحب کام کر دیں گے۔ یہ باتیں سچ ہیں یا جھوٹ میں نہیں جانتا لیکن فہمیدہ حلقوں نے خان صاحب کو ان حالات سے آگاہ ضرور کیا۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ وزیراعظم نے سرزنش کے بجائے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی بے جا تعریف کرنی شروع کردی۔
یہاں تک فرمایا کہ بزدار صاحب کو خود نہیں پتا کہ وہ کتنا غیر معمولی کام کر رہے ہیں۔ اس طرز عمل پر صرف ماتم کیا جا سکتا تھا۔ المیہ یہ بھی ہوا کہ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے مخلص لوگوں کو خان صاحب نے اپنے متکبرانہ رویہ سے اتنا دور کر دیاکہ واپسی کے راستے بند ہوگئے۔ کیا آپ یقین فرمائیں گے کہ وزیراعظم پاکستان، جب فیصل آباد سرکاری دورہ پر آئے تو حکم تھا کہ فلاں ایم این اے کوکسی میٹنگ میں نہیں بلانا۔ اختلافات اپنی جگہ، مگر حکومتی پارٹی کے ایک منتخب ایم این اے کوسرکاری محفل میں شرکت سے روکنا، حددرجہ غیر سیاسی فیصلہ تھا۔
ان تمام غلطیوں کا نتیجہ یہی نکلاکہ جیتے ہوئے ممبران نے ایک علیحدہ گروپ بنا لیا۔ جس کی بدولت تحریک انصاف کمزور ہوتی چلی گئی۔ مگر خان صاحب نے ناراض گروپ کومنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ ذاتی انا اور تکبر کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
اس ناراض گروہ نے وقت آنے پر خان صاحب کو دن میں تارے دکھا دیے۔ اگر عمران خان اپنے ذاتی غیر سنجیدہ رویہ کو تبدیل کر لیتے تو انھیں کسی سیاسی مشکل کا منہ دیکھنا نہیں پڑنا تھا۔ مگر معروضی حالات کے بالکل برعکس، وزیراعظم اپنے رویہ پر قائم رہے۔ بلکہ جلسوں میں اس پر اترانا بھی شروع کردیا۔
طاقتور حلقے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ان میں بے چینی، بڑھ کر پریشانی کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ خان صاحب تمام صورت کوبھانپنے کے بجائے، عجیب و غریب تصوراتی دنیامیں چلے گئے۔ وہ توہم پرستی کا شکار ہو گئے۔ بالآخر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انھیں حکومت سے علیحدہ کیا گیا۔ مگر وہ اسے کبھی بیرونی سازش قرار دے رہے ہیں۔
کبھی اپنی حکومت کو واپس حاصل کرنے کے عمل کو جہاد قرار دے رہے ہیں۔ وہ تو اب سیاسی مخالفین کوغدار تک کہنے لگے ہیں۔ طالب علم کا مشورہ تو بہت سادہ ساہے۔ خان صاحب، ٹھنڈے دل سے اپنی غلطیوں کو پرکھیں، خامیوں کودور کریں اور آگے بڑھیں۔ ویسے آثار یہی ہیں کہ وہ مسند شاہی سے ہزاروں نوری سال دور ہیں، شاید ہمیشہ کے لیے۔