کہیں‘خدانخواستہ‘ آپ کامیاب تو نہیں ہو گئے؟
سیاسی میدان کو غور سے دیکھیے تو ذوالفقار علی بھٹو ایک دیو مالائی کردار کی طرح سامنے آئے گا۔ جو مرضی کر لیجیے، بھٹو کے بغیر ملک کا سیاسی منظر کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے دشمن بھی لا تعداد تھے اور ہیں۔ ہر انسان کی طرح بھٹو کے اندر بھی خامیاں موجود تھیں۔
اس شخص میں ان گنت ایسے بہترین جوہر تھے جس کا سیاسی طور پر مخالفین کبھی بھی مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا سازش، جھوٹے سچے الزامات، حد درجہ تنقید اور بغض بھٹو کے نصیب میں بہرحال آیا۔ حد درجہ کمزور کیس میں ان کا عدالتی قتل ہوا۔
بھٹو کا اصل قصور صرف ایک تھا۔ وہ پاکستان کے سیاسی نظام کا اپنے دور کا کامیاب ترین سیاست دان تھا۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ اگر وہ ایک درمیانے درجہ کے خیالات اور ادنیٰ سیاسی سطح کا لیڈر ہوتا تو شاید آج تک زندہ ہوتا۔ اسے کوئی ریاستی ادارہ، کوئی مخالف سیاسی اتحاد نقصان نہ پہنچاتا۔ اس کی اہلیت اس کی سب سے بڑی دشمن بن گئی۔ یہ بات ہمارے ملک کے ہر شعبہ میں یکساں ہے۔ آپ کسی بھی شعبے میں حد درجہ کامیاب ہو جائیں، بونے، آپ کی ٹانگیں کاٹنا شروع کر دیں گے۔
مولانا کوثرنیازی نے جو کتاب اپنے سیاسی قائد کے متعلق لکھی ہے۔ اس کی ورق گردانی کریں۔ آپ کو بھٹو اور سیاسی مخالفین میں فرق صاف نظر آجائے گا۔ شملہ معاہدہ کیا تھا۔ کن حالات میں کیا گیا۔ پاکستان اس وقت کس ذلت اور زبوں حالی کا شکار تھا۔ بہت کم لوگ اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کا پانچ ہزار میل رقبہ بھی ہندوستانی فوج کے قبضہ میں تھا۔ نوے ہزار قیدیوں کی بات تو ا کثر ہوتی رہتی ہے مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ بھٹو کی غیر معمولی سفارت کاری، مغربی پاکستان کو قائم رکھنے کی بنیادی وجہ بنی۔ بھٹو کی کارخانوں کو قومی تحویل میں لینے کی پالیسی پر مسلسل تنقید ہوتی رہتی ہے۔
ہر پالیسی کی طرح، اس میں اگر فوائد تھے تو اس کے نقصانات بھی ہوئے۔ مگر کیا آج کے دور میں چینی، کھاد، سیمنٹ، رئیل اسٹیٹ کے سیٹھوں کی حکومت نہیں ہے۔ کیا آج سرمایہ کاری نظام، ہمارے غریب لوگوں بلکہ ہر شہری کی ہڈیاں نہیں بھنبھوڑ رہا۔ کیا ان کے مالکان، کیاہمارے ملک کے اصل مالک نہیں ہیں۔ کیا یہ واقعی عوام سے صرف جائز منافع لے رہے ہیں؟ کیا تمام سیاسی پارٹیاں آج انھی سیٹھوں کی جیبوں میں نہیں ہیں۔ اگر بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی غلط تھی۔ تو آج سرمایہ کارکو عوام کے خون چوسنے کی کھلی چھٹی دینے کی حکمت عملی بھی غیر معقول ہے۔
بھٹو نے سرمایہ کاری کے عذاب پر کاری وار کیا تھا۔ یہ جنگ بہر حال اسے مہنگی پڑی اور سربازار مارا گیا۔ اس کا زرخیز ذہن، اس کی حد درجہ اعلیٰ تعلیم، تقریر کرنے کا طاقتور انداز، بہترین کپڑے اور جوتے پہننے کی عادت اور سرکاری اور غیر سرکاری وسائل میں مکمل دیانت داری، اس طرح کے کامیاب جرائم تھے جو اس کے مخالفین آج تک برداشت نہیں کر سکے۔
کوثر نیازی کی کتاب دیدہ ور سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
پنڈی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایران پاک دوستی کی انجمن کی طرف سے ایک مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مجھے اس کی صدارت کرنی تھی۔ ایران کے سفیر اور کچھ اور ملکوں کے سفراء بھی اس میں مدعو تھے۔ مشاعرہ کا وقت ساڑھے سات بجے شام تھا، مجھے منتظمین نے یہ سہولت دی تھی کہ پونے آٹھ بجے تک آ سکتا ہوں، میں پونے آٹھ بجے مشاعرہ میں پہنچا اور مشاعرہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ دو دن کے بعد مجھے پریذیڈنسی سے جناب بھٹو کا ایک نوٹ موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ میں اس مشاعرہ میں وقت مقررہ سے پندرہ منٹ تاخیر سے کیوں پہنچا جب کہ اس میں کئی سفارتی نمایندے شریک تھے۔ جناب بھٹو نے اپنے اس نوٹ میں مجھے بڑے حسین انداز میں تلقین کی کہ آیندہ ایسے مواقع پر تاخیر سے نہ آؤں کیونکہ اس طرح پاکستان کا وقار متاثر ہوتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ اور پیش آیا۔ کیبنٹ کی ڈیفنس کمیٹی اس وقت پریذیڈنٹ بھٹو کی صدارت میں مجتمع ہوتی تھی، میں بھی اس کا رکن تھا، اجلاس دس بجے تھے، میں ٹھیک دس بجے کمرہ میں داخل ہوا تو ایک چپراسی کمرے کا دروازہ بند کرنے کے لیے دروازہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا، اس سے پہلے کبھی اجلاس کے وقت کمرے کا دروازہ بند نہیں کیا گیا تھا۔ جناب بھٹو اس وقت شرکائے اجلاس سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ مجھ پر نگاہ اٹھی تو مسکراتے ہوئے بولے۔ "تمہیں نہ دیکھ کر میں نے حکم دیا تھا کہ عین دس بجے دروازہ بند کر دیا جائے تاکہ تم باہر رہو اور آیندہ وقت پر اجلاس میں شامل ہو۔ "
ان کا انداز بڑا شفیقانہ تھا مگر اس کا اثر مجھ پر یہ ہوا کہ اس کے بعد میں کبھی تاخیر سے کسی بھی اجلاس میں نہیں پہنچا۔ وقت کی پابندی میرا معمول بن گیا۔ جناب بھٹو نہ صرف اپنے ساتھیوں اور رفقائے کار کو وقت کی پابندی کی تربیت دیتے اور انھیں وقت کا پابند بناتے۔
وہ رات دن اور صبح و شام متواتر مسلسل کام کرتے رہتے۔ سات بجے اپنے کام کی میز پر آ جاتے اور دو دو بجے رات تک کام میں مصروف رہتے۔ کئی بار رات کو دو بجے میرے ہاں یا دوسرے ساتھیوں کے ہاں، ٹیلی فون کی گھنٹی اچانک بجنے لگتی تو فوراً سمجھ جاتے کہ یہ ٹیلی فون ایوان صدر سے آیا ہے اور ہمیں طلب کیا گیا ہے۔
وہ تو ایمر جنسی کے دن تھے۔ بعد میں بھی ان کے کام کا معمول یہی رہا کہ وہ صبح ساڑھے ساتھ بجے اپنی میز پر موجود ہوتے اور رات کے ساڑھے بارہ بجے تک برابر کام کرتے، صرف کبھی کبھی سہ پہر کو ایک گھنٹے کا وقفہ کرتے۔ کام کی زیادتی کے سبب وہ اکثر دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تاکہ پیٹ بوجھل نہ ہو جائے اور کام متاثر نہ ہو۔ ساڑھے پانچ سال کے دوران ایک واقعہ یا ایک وقت بھی ایسا یاد نہیں ہے۔
جب کہ میں نے کوئی فائل ان کے ملاحظہ کے لیے اپنے ہاں سے بھیجی ہو اور وہ فائل جس تاریخ کو وزیراعظم ہاؤس پہنچی اسی دن انھوں نے اسے پڑھا اور اس پر حکم نہ لکھا ہو۔ یہی حال دوسری وزارتوں سے ان کے پاس جانے والی فائلوں کا تھا۔
روزانہ کی فائلیں روزانہ پڑھتے حتیٰ کہ دن کی فائلیں دن کو، شام کی فائلیں شام کو اور رات کی فائلیں رات کو پڑھتے اور ان پر احکام اپنے ہاتھ سے لکھتے اور جب تک یہ فائلیں ختم نہ ہو جاتیں بستر پر نہ آتے۔ یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ سفر کے دوران یقینا اس معمول میں فرق آ جاتا۔ انھیں جلسوں اور جلوسوں سے خطاب کرنا پڑتا۔ وفود سے ملنا ہوتا۔ عوامی رابطہ قائم کرنا پڑتا۔ مقامی حکام کو ہدایت دینا ہوتیں۔ اس کے باوجود ان کی روزانہ کی ضروری فائلیں وہ جہاں بھی ہوتے ان تک پابندی سے پہنچتی رہتیں اور وہ انھیں وقت نکال کر ضرور ملاحظہ فرماتے اور ان پر احکام لکھتے۔
جو کچھ ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ رفیق نے ان کے متعلق قلم بند کیا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو پسند نہ آئے۔ مگرکچھ حقائق کو پیش کیا ہے۔ فیصلہ کرنا تو بہر حال آپ کا کام ہے۔ یا شاید آنے والے زمانے کا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو کی حد درجہ کامیابی نے اسے برباد کر ڈالا۔ مخالفین کیونکہ سیاسی بلکہ کسی بھی میدان میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا اسے مار ڈالنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔
آج دوبارہ وہی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان آج کے وقت میں مقبول ترین سیاسی لیڈر ہے۔ اس کا کوئی مخالف، سیاسی میدان میں اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اس نے مسلم لیگ ن کے گڑھ یعنی لاہور میں، ن لیگ کو شکست فاش دی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے موجودہ پیپلزپارٹی لاڑکانہ سے ہار جائے۔
عمران خان کا بیانیہ درست ہے یا غلط۔ اس کا فیصلہ صرف اور صرف عوام کریں گے۔ معلومات کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں کہ ریاستی ادارے بھی اب ان معاملات کو سمجھ چکے ہیں اور اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی کوشش بہر حال پنپ رہی ہے۔ جس شخص نے برطانوی عدالت میں جمائما سے طلاق کے وقت تین سوملین پاؤنڈ لینے سے انکار دیا تھا۔ وہ کرپٹ نہیں ہو سکتا۔ ہاں۔ اس میں شخصی کمزوریاں موجود ہیں۔ مگر کیا اس کے تمام سیاسی مخالفین دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ عمران خان کا انجام کیا ہو گا۔ اس کے متعلق تو فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ مگر آج اس کی سیاسی کامیابی اس کی سب سے بڑی دشمن ہے۔