جنگل کو برباد کر دیا گیا
ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ سیکڑوں میل پر پھیلے ہوئے، جنگل میں جھیلیں، پہاڑ، صحرا، دریا سب کچھ تھا۔ ہرے بھرے درختوں پر ان گنت پرندے رہتے تھے۔ زمین پر ہر جانور بڑے آرام اور سکون سے زندگی گزار رہا تھا۔ نیلے پانیوں کے اندر مگر مچھ اور مہیب سانپ بھی موجود تھے۔ مگر اپنے حالات میں مگن رہتے تھے۔
کوئی جانور بلا ضرورت کسی پر حملہ نہیں کرتا تھا۔ سارے سکون اور شادمانی کی صرف ایک وجہ تھی کہ جنگل میں ایک چٹان نما ہاتھی، سب امور کا سربراہ تھا۔ اس کی کابینہ میں شیر، لومڑی، عقاب، ریچھ، مگر مچھ وغیرہ سب موجود رہتے تھے۔
ہاتھی کا رعب اتنا تھا کہ کوئی بھی طاقتور جانور، کمزور سے ظلم یا زیادتی نہیں کر سکتا تھا۔ شیر کی بھی جرأت نہیں تھی کہ شکار کے لیے چھوٹے جانوروں کے بچوں کو نقصان پہنچائے۔ بادشاہ نے عقاب کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ وہ اوراس کے ساتھی جنگل پر مسلسل پرواز کرتے رہیں۔ اوراگر کسی مقام پر بھی، معمولی سی زیادتی ہو رہی ہو تو فوراً ہاتھی کو اس کی خبرکریں۔ اسی لمحے، عدالت لگتی تھی اور ظالم جانور کو سزا دی جاتی تھی۔
طریقہ بالکل سادہ سا تھا۔ ظالم جانور کو گوشت خور جانوروں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا اور وہ اس کی تکہ بوٹی کر ڈالتے تھے۔ ہاں ایک بات، جنگل میں کوئی انسان نہیں رہتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اس خطے میں اتنا انصاف اور امن تھا۔ ایک دن مگر مچھ نے دریا سے باہر نکل کر ایک بطخ پر حملہ کر دیا۔ اور اسے صفا چٹ کر دیا۔
جیسے ہی یہ خبر ہاتھی تک پہنچی۔ اس نے مگرمچھ کو طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ تم نے بلا ضرورت، بطخ کو کیوں نقصان پہنچایا۔ مگر مچھ کوئی معقول جواب نہ دے پایا۔ ہکلاتے ہوئے کہنے لگا کہ غلطی ہوگئی ہے۔
ہاتھی نے حکم دیا کہ مگر مچھ کے سارے دانت توڑ دیے جائیں تاکہ آیندہ یہ کسی سے ظلم نہ کر سکے۔ مگر مچھ کی سزا کے بعد تو پورے جنگل میں ظلم اور ناانصافی کا راستہ بھرپور طریقے سے بند ہو چکاتھا۔ اس طرح ایک مثالی امن قائم ہو چکا تھا۔
ہاتھی آہستہ آہستہ بوڑھا ہو رہا تھا۔ وہ اپنی طبعی عمر کے تقریباً آخری حصے میں پہنچ چکا تھا۔ بادشاہ کی بیوی ایک حد درجہ عیار ہتھنی تھی۔ اور قیامت یہ تھی کہ ہاتھی اس پر بہت اعتماد کرتا تھا۔ ہتھنی کے دل میں دو طرح کا لالچ تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کا بیٹا، باپ کے بعد، جنگل کا بادشاہ بنے۔ اور دوسرا، اس کے پاس تمام جنگل کی دولت ہو۔
ہتھنی نے ایک دن ایک چالاک بندر کو بلایا۔ اور لالچ دیا کہ اگر میرا بیٹا جنگل کا بادشاہ بن گیا تو پھلوں کے تمام درخت اس کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ بندر کو اور کیا چاہیے تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ دریا کی تہہ میں ایک بہت بڑا سانپ رہتا تھا۔ جو زیادہ غذا کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اور وہ مگر مچھ جس کے دانت، بادشاہ نے تڑوا دیے تھے۔
وہ بھی کافی خار کھائے بیٹھا ہے۔ ایک رات ہتھنی اور بندر، دونوں چھپ کر دریا کے نزدیک پہنچے۔ اور سانپ اور مگر مچھ سے سارا معاملہ طے کر لیا۔ معاہدہ یہ تھا کہ سانپ اور مگر مچھ پورے جنگل میں جس بھی پرندے یا جانور کو شکار کرنا چاہیں۔ ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ یہ اتنا بڑا لالچ تھا کہ سانپ اور مگر مچھ خوشی سے پانی میں قلا بازیاں کھانے لگے۔ ہتھنی نے ایک اور شرط بھی رکھی کہ یہ پانی کی تہہ سے تمام موتی، نکال کر اس کے حوالے کریں گے۔ بندر، پورے جواہرات کو پہاڑ کی ایک غار میں محفوظ رکھے گا۔
اس طرح یہ خزانہ شاہی خاندان کی ذاتی ملکیت ہوگا۔ ہتھنی کو کسی نے بتایا تھا کہ جنگل کے نزدیک ایک شہر ہے اور وہاں یہ بیش قیمت پتھر انسانوں کو بیچے جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف جنگل کے اصل بادشاہ یعنی ہاتھی کو کانوں کان کچھ بھی خبر نہیں تھی۔ اب بندر، مگر مچھ اور سانپ نے اپنے اپنے گروہ بنا لیے۔ یہ چھپ کر نکلتے تھے اور جہاں بھی کوئی جانور نظر آتا تھا۔ اس کو چیر پھاڑ دیتے تھے۔
ایک دن شیر کے چار بچے، پانی پینے کے لیے دریا تک گئے تو بندروں کے غول نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس یلغار میں مگر مچھ بھی آ گئے۔ وہ بچوں کو زندہ ہڑپ کر گئے۔ شیر بھاگا بھاگا بادشاہ کے پاس گیا کہ اس کے بچوں کو اس طرح بندر اور مگر مچھ ایکا کرکے کھا گئے ہیں۔ ہاتھی کو یقین ہی نہیں آیا۔ خیر عدالت لگائی۔ جب شیر نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ اور عقاب نے بھی گواہی دی کہ انھوں نے شیر کے بچوں کا خون ناحق کیا ہے۔ تو ہاتھی نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کو فوری طور پر بھوکے چیتوں کے سامنے ڈال دیا جائے۔
ابھی یہ الفاظ ادا ہی کیے تھے کہ ہتھنی نے بادشاہ کو ٹوکا کہ یہ وہ بندر اور مگر مچھ نہیں جنھوں نے ظلم کیا ہے۔ دراصل وہ جانور تو کسی اور جنگل سے تھوڑی دیر کے لیے آئے تھے۔ اور اپنی بھوک مٹا کر فرار ہو گئے ہیں۔ یہ دونوں تو بالکل بے گناہ ہیں۔
بادشاہ کے ذہن میں شک ڈال دیا گیا۔ عقاب سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے ان دونوں کو شیر کے بچے کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ عقاب بھی تذبذب کا شکار ہوگیا۔ بہر حال ہتھنی نے سازش کرکے دونوں مجرموں کو بچا لیا۔ اب تو یہ ہونے لگا کہ روزانہ، دریا اور جھیلوں کی تہہ میں موتی اور جواہرات نکالے جاتے تھے اور بندر انھیں ایک پہاڑ کی غار میں چھپا کر واپس آ جاتا تھا۔
ہاتھی اپنی پیرانہ سالی اور جسمانی کمزوری کی بدولت نحیف ہوتا جا رہا تھا۔ حکومت اور امور سلطنت پر اس کی گرفت کمزور پڑ رہی تھی۔ جنگل میں اب ظلم ہی ظلم تھا۔ طاقتور جانور، ہر وقت، لاغر اور کمزور جانوروں کو بے وجہ مارتے رہتے تھے۔ پرندوں میں بھی ناانصافی کا بیج بو دیا گیا تھا۔ کوے، دوسرے پرندوں کے گھونسلے اجاڑ دیتے تھے۔
انڈے آرام سے پی کر اڑ جاتے تھے۔ ہوا یہ کہ بندر نے ایک دن سوچا کہ سارا کام تو میں کرتا ہوں۔ ہتھنی، مگر مچھ اور سانپ تو بہت کم محنت کرتے ہیں۔ لہٰذا جنگل کا اقتدار اس کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ مگر وہ یہ بات کسی کو بتا نہیں سکتا تھا۔ ایک دن اس کے ذہن میں ترکیب آئی کہ وہ کچھ موتی لے کر شہر چلا گیا اور وہاں ایک امیر سردار کی نذر کر دیے۔ سردار بڑا خوش ہوا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ بندر اپنے فائدے کے لیے خزانہ چوری کرکے سردار کو دیتا جاتا تھا۔
اس نے سردار سے اپنے اقتدار کا وعدہ بھی لے لیا تھا۔ مگراسے اندازہ نہیں تھا کہ طاقتور سردار کس قدر سفاک ہو سکتا ہے۔ سردار کے ذہن میں تھا کہ ایک ساتھ ہی خزانہ پر قبضہ کر لے اور پھر بندر کو فنا کر ڈالے۔ مگر ظاہری طور پر وہ بندر کی از حد تعریف کرتا رہا۔ ایک دن، نادان بندر نے سردار کو غار کا پتہ بتا دیا۔ سردار نے اپنا لشکر لیا اور فوری طور پر تمام جواہرات اپنے قبضے میں کر لیے۔ جب بندر نے کہا کہ اس نے اپنا کام تو پورا کر لیا ہے۔ اب اسے جنگل کی بادشاہی دی جائے۔
سردار نے قہقہہ لگایا اور جلاد کو حکم دیا کہ بندر کا سر قلم کر دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ سردار نے فیصلہ کیا کہ بذات خود جنگل پر حملہ کرکے تمام قیمتی اشیاء اپنی تحویل میں لے گا۔ لشکر جرار لے کر اس نے جنگل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہاتھی تو خیر پہلے حملے میں مارا گیا۔ ہتھنی اور اس کی اولاد یعنی ممکنہ بادشاہ کو، سردار نے بازار میں فروخت کروا دیا۔ جانوروں کو قتل کرکے ان کی کھالیں بیچ دی گئیں۔ جب سانپ اور مگر مچھ نے دہائی دی کہ وہ تو پہلے ہی بادشاہ کے خلاف تھے۔
ان کی جان بخشی کی جائے تو سردار نے دونوں کی کھال کھنچوا کر ایک میدان میں بچھا دی۔ اور ان پر اپنا تخت بچھا دیا۔ جنگل مکمل طور پر برباد ہوگیا۔ درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ پرندے وہاں سے ہجرت کر گئے۔ یعنی جو بھی اپنی جان بچا سکتا تھا۔ وہاں سے فرار ہوگیا۔ نہ بادشاہ رہا، نہ سازشی اور نہ رعایا۔ سب کچھ فنا ہوگیا۔ ہرا بھرا جنگل مکمل طور پر ریگستان بنا دیا گیا۔
(اس فرضی کہانی کا ملکی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے)۔