جنگ
براؤن یونیورسٹی امریکا کی بہترین تحقیقی اداروں میں سے ایک ہے۔ آئی وی لیگ یونیورسٹی ہونے کا اعزاز امریکا کی معدودے چند یونیورسٹیوں کو حاصل ہے اور براؤن یونیورسٹی ان میں سے ایک ہے۔ جو عنصر اسے سب سے زیادہ اہمیت دلاتا ہے، وہ اس کی تحقیق اور دشوار ترین مسائل پر بے لاگ پن ہے۔
یہاں سے شایع شدہ تحقیقی رپورٹس پوری دنیا میں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ 1764سے قائم اس ادارہ نے حال ہی میں ایک حد درجہ حساس موضوع پر مقالہ شایع کیا ہے۔
عنوان ہے "جنگ اور اس کی قیمت"۔ عنوان ہی سے اندازہ لگا لیجیے کہ یہ موضوع امریکی حکومت کے لیے ہضم کرنا کتنا مشکل ہو گا۔ ویسے ہمارے جیسے یا تیسری دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کے موضوع "شجر ممنوع" ہیں، اتنے نازک موضوعات پر کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں۔ براؤن یونیورسٹی کی جاری شدہ تحقیق صرف امریکا اور اس کی مسلط کردہ جنگوں کے سفلی اخراجات کے متعلق ہے۔ یہ خرچے پڑھ کر انسان کا دماغ گھوم جاتا ہے۔
دل تھام کر سنیئے۔ گزشتہ بیس برسوں میں امریکا جنگوں پر چودہ ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ ہمارے جیسے غریب ملک کا قومی بجٹ اس رقم سے حد درجہ قلیل ہے۔ شاید 1947 سے لے کر آج تک ہمارے تمام بجٹ بھی اس چودہ ٹریلین ڈالر کی رقم سے کم ہوں۔ براؤن یونیورسٹی نے ثابت کیا ہے کہ اس محیر العقول خطیر رقم کا آدھا حصہ "جنگی ٹھیکیداروں" کی جیبوں میں گیا ہے۔
جنگی ٹھیکیدار ان جنگوں کے سب سے بڑے منافع خور ہیں۔ اس اصطلاح کو مثال دے کر واضح کرتا ہوں۔ امریکا نے عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی۔ یہ جنگ جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی گئی۔
دونوں مسلمان ملک مکمل طور پر برباد ہو گئے۔ مگر مالی منافع کیسے ہوا۔ یہ حد درجہ اہم نکتہ ہے۔ Halliburtonنام کی ایک کمپنی کو عراق اور افغانستان میں امریکی چھاؤنیاں کے قیام، اسلحہ کی صفائی، فوجیوں کی خوراک کی فراہمی اور وردیوں کی دھلائی کی مد میں تیس بلین ڈالر ادا کیے گئے۔
خطیر رقم 2008 تک ادا ہوئی۔ حالیہ افغان جنگ میں جنگی ٹھیکیداروں کو مزید کتنے پیسے ملے، اس کو قیاس کرنا ناممکن ہے۔
ڈک چینی ہیلی برٹن کمپنی کا سی ای او تھا۔ تیس بلین ڈالر کمانے کے بعد امریکی نظام نے اسے ملک کانائب صدر بنا دیا۔ موصوف وہی شخص ہیں جنھیں ماحولیات پر ڈاکو منٹری بنانے پر 2007 کا نوبل پرائز عطا کیا گیا تھا۔
کھیل کوسمجھیں۔ پہلے لاکھوں لوگوں کے قتل عام میں معاونت کی۔ غیر محدود دولت کمائی۔ پھر چہرے پر لگا ہوا انسانی خون صاف کر کے ماحولیات جیسے انسان دوست موضوع پر کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ منافقت اور "کارپوریٹ لالچ" کی انتہا ہے۔ مگر یہ تماشا سب کے سامنے ہوا ہے۔
میجر جنرل سمیڈلی بٹرلر (Smedly Butler)نے 1935 میں جنگ کے متعلق حد درجہ دلچسپ کتاب لکھی تھی۔ سمیڈلی کو دوبار بہادری کی بدولت "میڈل آف آئر" سے نوازا گیا تھا۔ جنگوں کی ہلاکتوں، کرختگیوں اور بنیادوں سے ہر طور سے آگاہ تھا۔ کتاب کا نام تھا۔ "War is a racket"۔ ریکٹ کا قریب ترین اردو ترجمہ دھندا یا جرم ہی کیا جا سکتا ہے۔
بہر حال "ریکٹ" کا لفظ ہرگز ہرگز مثبت نہیں ہے۔ اس سے منفی بدبو جڑی ہوئی ہے۔ بٹلر کی کتاب کے چند جملے پیش کرتا ہوں۔ "جنگ دنیا کا سب سے بڑا دھندا ہے۔ ہمیشہ سے اس کی یہی کیفیت تھی اور شاید رہتی دنیا تک اس طرح رہے گا۔ سب سے قدیم کاروبار میں منافع بھی قیامت خیز ہے۔ کوئی دوسرا کاروبار اس کے منافع کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ واحد تجارت ہے جس کا منافع ڈالروں میں ہوتا ہے۔ اور نقصان انسانی جان گنوانے کا ہوتا ہے۔
جنگ سے جڑا ہوا ایک حد درجہ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ معدودے چند لوگوں کو اس کے اصل اغراض و مقاصد کا علم ہوتا ہے۔ اور یہی تھوڑے سے لوگ، جنگوں سے منافع کماتے ہیں۔ یعنی صرف چند لوگ اپنے فائدے کے لیے ان گنت بندوں کی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ عام لوگوں کو قطعاً پتہ نہیں چلتا ہے کہ کثیر دولت کس کی جیب میں جا رہی ہے"۔
چند ہو شربا حقائق مزید عرض کرتا چلوں۔ اسلحہ بنانے کے کارخانوں کو کتنا منافع ہوتا ہے۔ امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگوں میں Lockheed Martin corp` Boeing co` General Dyranics corp` Raythen Technologies corp ` اور Northrop corp`نے بے پناہ دولت کمائی ہے۔ یہ کمپنیاں ہمارے ملکی قرضے سے بھی زیادہ منافع پیسہ کماتی ہیں۔
2020میں پینٹا گون نے صرف لاک ہیڈ مارٹن کو پچھتر75 بلین ڈالر ادا کیے ہیں۔ یعنی صرف ایک کمپنی کو پینٹا گون نے اسلحہ بنانے کے لیے اتنے پیسے دیے ہیں جو ہمارے جیسے ملکوں کی قسمت بدل سکتے ہیں۔
مگر آپ کو کبھی بھی کوئی بھی یہ نہیں بتائے گا کہ جنگی اسلحہ بنانے کی کمپنیاں کتنی زیادہ دولت میں کھیل رہی ہیں۔ اور اس اسلحہ سے متاثر بلکہ برباد ہونے والے انسان کتنی بدقسمتی سے گزر رہے ہیں۔ صاحبان! اس کھیل میں کمپنیوں کا فائدہ تو اربوں ڈالر میں ہے۔ مگر اس کا نقصان انسانی خون کے ضیاع میں ہے۔
اسلحہ ساز کارخانوں، جنگی اداروں سے آگے نکلیں تو آپ کو موت کے سوداگروں کی ایک اور قبیل نظر آئے گی۔ امریکا کیونکہ اپنے فوجیوں کو کم سے کم ہلاکت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس لیے امریکی حکومت نے باقاعدہ قتل کرنے والے تاجر بنائے ہیں۔
انھیں مقامی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ بلیک واٹر جیسی تنظیمیں ان میں سے ایک ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ چند اہم لوگوں کو باقاعدہ ٹھیکہ دیا جاتا ہے کہ وہ ریٹائر فوجی اور جنگجو لوگوں کو اکٹھا کریں۔ انھیں خطیر تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اور ان کا کام مفتوح یا حالت جنگ میں مبتلا کمزور ملکوں میں قتل عام کرنا ہوتا ہے۔
عراق اور افغانستان میں بلیک واٹر تنظیم نے ان گنت لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ لوگوں پر تشدد کرنا، ان کے جسم کے آہستہ آہستہ ٹکڑے کرنا، ناقابل برداشت اذیت دینا اور اس طرح کے قبیح کام انھی کرائے کے قاتلوں سے لیے جاتے ہیں۔ لاہور میں گرفتار ہونے والا ریمنڈڈیوس اسی تنظیم سے تعلق رکھتا تھا۔
اندازہ لگایئے کہ وہ امریکی مفادات کے لیے کتنا اہم تھا۔ کہ ہماری پوری حکومت نے محنت کر کے ریمنڈڈیوس جیسے قاتل انسان کو آزاد کروانے میں کلیدی لیکن شرمناک کردار ادا کیا تھا۔ مگر وہ تو درست کہتے ہیں کہ "جمہوریت بہترین انتقام ہے" مگر یہ نہیں بتاتے کہ اس انتقام کی کون کون سی اقسام ہیں اور اس سے کتنا مالی فائدہ جڑا ہوا ہے۔
امریکا کبھی بھی دنیا میں جنگ کو ختم نہیں ہونے دیتا۔ افغانستان سے نکالے جانے کے بعد، اب یوکرین اور روس کی جنگ میں براہ راست شامل ہو چکا ہے۔ امریکی میڈیا جنگ کو اپنی سابقہ روایات کے مطابق خوب بھڑکا رہا ہے۔ بار ہا کہا جا رہا ہے کہ روس کے پاس ایسے میزائل ہیں جن سے وہ نیویارک کو تباہ کر سکتا ہے۔
روس کے پاس ایسے سیارے ہیں جو امریکی سیاروں کو ختم کر سکتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ جنگ کسی صورت میں ختم نہ ہو اور امریکی کمپنیوں کا منافع بڑھتا رہے۔ اس صورت حال میں اگر ہمارے ادنیٰ نظام میں سے چند اہم لوگ چند بلین ڈالر کما لیتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ جہاں تک عوام کا تعلق ہے۔
انھیں جذباتی نعروں سے مسلسل بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گا۔ یقین نہ آئے تو جنرل بٹلر کا فقرہ ازبر کر لیجیے کہ جنگ کا دھندا ابد تک ختم نہیں ہو گا؟