علاج کون کرے گا؟
حکیم زکریا رازی، مسلمانوں کے سنہری دور کے وہ زرخیز انسان تھے۔ جنھوں نے طب کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ پچیس جلدوں پر مبنی شہرہ آفاق کتاب "الحاوی" سیکڑوں سال مغربی بلکہ یورپی دنیا میں نصابی سطح پر پڑھائی جاتی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ لاطینی، فرانسیسی اور انگریزی زبان میں کیا گیا۔
حتیٰ کہ جرمنی میں بھی "الحاوی" طب کے طلباء کو مقامی زبان میں پڑھائی جاتی تھی۔ الرازی اپنے وقت میں طب کے امام تھے۔ بالکل اسی طرح ان کی تصانیف میں"المنصوری" "الجدری والحصبہ" کتاب الطب الملوکی اور کتاب الاسرار جیسی نایاب کتب بھی شامل تھی۔ مگر آپ کو زکریا رازی کے طبی کارنامے نہیں عرض کرناچاہتا۔ صرف اس نکتہ پر گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جس کے ذریعے رازی نے محیرالعقول طریقے سے لوگوں کا علاج کیا۔
اپنی جان خطرے میں ڈال کر حکمرانوں کے ذہن اور جسم کو صحت مند بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ صرف ایک واقعہ درج کرتاہوں جس سے آپ کو رازی کے علم کی گہرائی اور سچائی جاننے میں مدد ملے گی۔
زکریا رازی کو ایک مرتبہ اپنے وقت کے بادشاہ نوح بن نصر کے علاج کے لیے دربار میں طلب کیا گیا۔ بادشاہ ایک نہایت ہی عجیب وغریب مرض میں مبتلا ہو چکا تھا۔ اس کا بہت زیادہ علاج معالجہ کیا گیا مگر مرض کسی بھی حکیم کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ نہایت پیچیدہ مرض کی وجہ سے بادشاہ دن بہ دن کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا تھا۔
کسی بھی بڑے سے بڑے حکیم کی دوا بھی اثر نہیں کر رہی تھی۔ حکیم رازی کی شہرت سن کر بادشاہ کے وزیراعظم نے بادشاہ سے کہا کہ اس وقت دنیامیں حکیم زکریا رازی سے بڑھ کر کوئی بھی معالج نہیں ہے کیوں نہ ہم اسے طلب کریں شاید آپ کو اس موذی مرض سے نجات حاصل ہو جائے۔
چنانچہ بادشاہ نے اپنی حاجت دیکھتے ہوئے اجازت دے دی۔ حکیم رازی نے اس بادشاہ کا علاج اپنے طریقے سے شروع کیا مگر وہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی کسی بھی دوا نے بادشاہ پر کوئی اثر نہیں کیا۔ اب انھوں نے بادشاہ سے کہا کہ" اے بادشاہ! اب میں آپ کا علاج اپنے طریقے سے کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ اس کے لیے مجھے ایک نہایت تیز رفتار گھوڑا چاہیے"۔
چنانچہ شاہی حکم سے آپ کو نہایت اعلیٰ نسل کا تیز رفتار گھوڑا دے دیا گیا۔ اب آپ نے بادشاہ کو ساتھ لیا اور شاہی حمام میں لے گئے۔ گھوڑا آپ نے حمام کے باہر ہی باندھ دیا اور تمام لوگوں کو حمام میں آنے سے روک دیا۔ اب حکیم رازی نے بادشاہ کو ایک کرسی پر بٹھایا اور اس کے اوپر قدرے گرم پانی دھیرے دھیرے ڈالنا شروع کیا۔
تھوڑی دیر کے بعد آپ نے ایک خاص شربت بادشاہ کو پلایا جو کہ وہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ شربت جب بادشاہ نے پی لیا تو حکیم رازی نے بادشاہ کو اچانک ہی برا بھلاکہنا شروع کر دیا۔ بھلا بادشاہ بھی کسی کی کوئی بات سنتے ہیں۔ یہی ہوا اور بادشاہ مارے غصے کے آگ بگولا ہوگیا۔
وہ کرسی سے اٹھاا ور حکیم صاحب کو مارنے کے لیے دوڑا تاکہ انھیں جان سے ہی مار ڈالے۔ حکیم رازی اس صورتحال کے لیے بالکل تیار تھے۔ آپ نے چھلانگ لگائی ا ور بڑی تیزی کے ساتھ حمام سے نکلے۔ گھوڑے کی لگام پکڑی اورجھٹ اس پر سوار ہو کر تیزی کے ساتھ وہاں سے نکلے۔
جب تک سپاہیوں کو کچھ سمجھ آتی آخر ہوا کیا ہے؟ وہاں سے بڑی دور جا چکے تھے۔ وہاں سے نکل کر ایک محفوظ مقام پر پہنچے جس کاکسی کو بھی علم نہ تھا۔ ادھر بادشاہ جب اپنے غصے کی حالت سے باہر آیا تو اس نے محسوس کیا کہ اب تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔
یعنی جو اس کا مرض تھا وہ رخصت ہو چکا تھا۔ چنانچہ فوری طور پر حکم دیا کہ اس حکیم کو فوراً حاضر کیا جائے۔ مگر بتایا گیا کہ وہ حکیم تو وہاں سے بھاگ گیا تھا اور کسی کو اس کے ٹھکانے کا کوئی علم نہیں ہے۔ حکیم رازی نے محفوظ مقام پر پہنچنے کے بعد بادشاہ کوایک خط لکھا کہ "بادشاہ سلامت! میں نے آپ کے مرض کی تشخیص کر لی تھی اور اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ آپ کا علاج دواؤں سے نہیں ہوگا۔ کیونکہ آپ کے جسم میں خون کا دباؤ بہت ہی کم ہوتا جا رہا تھا۔ جو کسی بھی دوا سے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ خون کا دباؤ بڑھایا جائے۔
چنانچہ میں نے اپنے طریقے سے آپ کا علاج کیا جو کہ سو فیصد کامیاب رہا۔ اب ان شاء اللہ تعالیٰ آپ اس مرض سے نجات پا چکے ہیں"۔ جب یہ خط بادشاہ کوملا تو خط کو پڑھ کر حد درجہ خوش ہوا۔ وزیراعظم سے کہا کہ فوراً حکیم صاحب کو دربار میں نہایت ہی ادب واحترام سے لایا جائے۔ چنانچہ جب حکیم رازی دربار میں آئے تو بادشاہ نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور خوب انعام و کرام سے نوازا۔
آپ کے ذہن میں یہ ضرور سوال اٹھے گا کہ رازی کے مشاہدے، طرز علاج اور علم کاہمارے دور سے کیا تعلق ہے۔ سرسری انداز سے دیکھیے تو شاید کوئی تعلق نہ نظر آئے۔ مگر بغور پرکھیے تو حد درجہ گہرا تعلق ہے۔ ہمارے ملک کے سماجی، سیاسی، معاشی حالات ان بیماریوں کی طرز کے ہو چکے ہیں۔ جن کے متعلق کھل کر بات کرنا قدرے مشکل ہے۔ حکمران طبقے کی اکثریت حد درجہ بیمار فکر کی مالک رہی ہے۔
عوام کو بھی رفتہ رفتہ مذہبی شدت پسندی کے مرض میں ایک پالیسی کے تحت مبتلا کیا گیا۔ ہمارے اصل مسائل کی طرف اشارہ کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ درستگی تو دور کی بات۔ یہاں درست بات کرنے اور لکھنے پر بھی پابندی ہے۔ ایک اہم مسئلہ یا نکتہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی شرح نموچھ فیصد سے لے کر آٹھ فیصد تک ہے۔ معیشت کے اعتبار سے انڈیا، برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک سے بھی آگے نکل چکا ہے، مگر ہم ہندوستان کے بارے میں ایک حددرجہ غیر عملی اور نقصان دے طرز عمل میں مبتلا ہیں۔ ہم اس سے کسی قسم کے روابط رکھنے کو غداری کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ ہر ایک کومعلوم ہے کہ انڈیا سے تجارت ہمارے ملک کے لیے کتنی سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک منظم ترتیب کے ذریعے ہمارے ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنادیا گیا ہے۔
کشمیر کے معاملے میں بھی پوری دنیا میں ہماری بات سننے کے لیے کوئی ملک یا طاقت ور فریق تیار نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے کی استطاعت ہی کھو بیٹھے ہیں۔ جو بھی ہندوستان، ایران، افغانستان کے ساتھ جذباتی وابستگی کے بغیر ملکی مفادات کے تحت، مذاکرات، یا حالات کوبہتر کرنے کی بات کرتا ہے۔ اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ہندوستان سے تجارت بذریعہ دبئی جاری ہے، جوکہ حد درجہ مہنگی اور غیر معقول ہے۔ اس کے باوجود کوئی استدلال نہیں دے سکتا کہ جناب واہگہ بارڈر کے ذریعہ آمدورفت اور معاشی معاملات حددرجہ سودمند ثابت ہوسکتے ہیں۔ تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان ہمارا دشمن ملک ہے مگر کیا چین اور ہندوستان آپس میں اربوں ڈالر کی تجارت نہیں کر رہے۔
ان دونوں ممالک کی دشمنی مبینہ طور پر سب کے سامنے آشکارہ ہے۔ تمام کشیدگیوں کے باوجود دونوں ملک بھرپور طریقے سے ایک دوسرے سے معاشی استفادہ کر رہے ہیں۔ اگریہی بات کھل کر وضاحت سے بتائیں تو آپ کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے۔ افغانستان کی طرف آئیے۔ آج بھی تحریک طالبان پاکستان جو افغانی طالبان سے منسلک گروہ ہے، اس کی نہ بیخ کنی ہو پائی ہے اور نہ ہی ان سے نجات حاصل کرنے کی کوئی جامع منصوبہ بندی بنائی گئی۔ ہمارے جوانوں کی شہید کرنے کی خبریں ہر وقت میڈیا پر نظر آتی رہتی ہیں۔
ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم اسی ہزار لوگوں کی قربانی دے چکے ہیں مگر اس سے کسی قسم کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ملک کے چند حصے پرامن صرف اس لیے ہیں کہ ہمارے پاس ایک مضبوط دفاعی نظام موجود ہے، مگر یہ دفاعی مشینری نظام کتنا بوجھ برداشت کر سکتا ہے، اس پر غور ہونا چاہیے۔
اسی طرح ایران سے تعلقات بھی بس واجبی سے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم کوئی سپر پاور ہیں کہ پوری دنیا کواپنے جوتے کی نوک پر رکھیں۔ جیسے ہی کوئی ہمسایہ ممالک سے کشیدگی کم کرنے کامشورہ دے گا۔ اسے شک سے دیکھا جائے گا۔
ذرا موجودہ حکمرانوں کی طرف نظر ڈالیے۔ آپ کوکشیدگی، منافقت، جہالت اور دروغ گوئی نظر آئے گی۔ دلیل کی بنیاد پر اگر ان کی کمزوریوں کوسامنے لائیں گے توآپ کو ہر طرح کی تکالیف پہنچائیں گے۔ یہاں کوئی رازی جیسی حکمت والا دانا انسان نہیں ہے جو ملک کو درپیش موذی بیماریوں کی بابت علی الاعلان بتا سکے۔
ویسے ہمارا بگاڑ اتنا زیادہ ہے کہ اگر رازی ہمارے ملک میں ہوتا بھی تو جیل میں گل سڑ رہا ہوتا۔ یا اسے کافر قرار دے کر کب کا قتل کر چکا ہوتا۔ شکر ہے کہ رازی، مسلمانوں میں ایک ہزار سال پہلے پیدا ہوا، جب بادشاہ پر گرم پانی ڈال کر اس کا علاج کیا جا سکتا تھا۔ اب تو ہمارا مقتدر طبقہ اور مہربان ذہنی، فکری اور جسمانی طور پر صحت مند ہونے کے لیے بھی قطعاً تیار نہیں؟