حکومت کی تبدیلی!
اینگلو ایرانین آئل کمپنی (Anglo iranian oil company) تیل کی پیداوار کا بہت بڑا ادارہ تھا۔ تیل جسے "کالا سونا" (Black gold) بھی کہا جاتا تھا، وافر مقدار میں پیدا ہوتا تھا۔ پھر تیل برطانیہ اور امریکا کے بحری جہازوں کے ذریعے مختلف جگہ پہنچایاجاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران محمد رضا شاہ پہلوی بادشاہ تو تھا ہی مگر اس کا قانونی اثر کم ہوتا جا رہا تھا۔
جنگ کے بعد بھی وہ تخت نشین رہا۔ کمزور حکومت کی وجہ سے برطانیہ، امریکا اور روس براہ راست ایران میں مداخلت کرتے تھے۔ اسی اثناء میں ایرانی حکومت نے محسوس کیا کہ برطانیہ، اس تیل کمپنی کا سب سے زیادہ معاشی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہی حال امریکا کا تھا۔
اس کے بالکل متضاد، ایرانی حکومت کو آئل کمپنی سے بہت ہی کم فائدہ ہو رہا تھا۔ 1948میں ایرانی، امریکی اور برطانوی ماہرین کے درمیان اس معاملہ میں سنجیدہ مذاکرات ہوئے۔ مغربی طاقتوں نے ایران کی بات ماننے سے بالکل انکار کر دیا۔ ان کا فرمانا تھا کہ وہ اگر تیل کی ترسیل سے مالی فائدہ اٹھا رہے ہیں تو یہ ان کا حق ہے کیونکہ اس آئل کمپنی میں سرمایہ کاری انھیں کی ہے۔ ایرانی حکومت تو اتنی فرسودہ اور غریب ہے کہ خود تو کچھ نہیں کر سکتی۔
معاملہ میں حد درجہ تلخی آ گئی کیونکہ یہ تمام نکات حقائق کے خلاف تھے۔ بہر حال سپر پاورز کے سامنے ایران مکمل طور پر بے بس ہو گیا۔ ان تمام حالات میں یک دم ایک محیر العقول تبدیلی آ گئی۔ پارلیمنٹ جسے مجلس کہا جاتا ہے۔
وہاں ایک حد درجہ محب الوطن سیاست دان "محمد مصدق" نے ایک بل پیش کر دیا کہ آئل کمپنی کو قومیانے میں لے لیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایران کی پارلیمنٹ اور سینیٹ نے اس کمپنی کو قومیانے میں لینے کا قانونی فیصلہ کر دیا۔ یہ 15 مارچ 1951کا دن تھا۔ پورے ایران میں جشن کا سماں بندھ گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اب تیل کمپنی کے حد درجہ زیادہ منافع سے عام لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔
اسکول، طبی سہولتیں، اچھی سڑکیں اور انصاف کا بول بالا ہو گا۔ اس واقعہ کے پندرہ مہینے بعد محمد مصدق پارلیمنٹ میں انتخاب جیت کر ایران کا وزیراعظم بن گیا۔ وہ حد درجہ قوم پرست اور اپنے ملک کے فائدے کی بات کرتا تھا۔ اتنا جذباتی انسان تھا کہ تقریر کرتے کرتے چند لمحوں کے لیے بے ہوش ہو جاتا تھا۔
اس کی زندگی کا صرف ایک ہی مشن تھا کہ ایران کو ترقی کی راہ پر گامزن کر ڈالے۔ عام آدمی کے مسائل ختم ہوں اور انھیں ایک خوشحال مستقبل نصیب ہو۔ مگر یہ مصدق کی سب سے بڑی بھول تھی۔ بلکہ حد درجہ مہیب غلطی تھی۔ بھول گیا تھا کہ عالمی طاقتیں مکھی کی طرح کسی بھی حکمران کو نکالنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ وہ بین الاقوامی طاقتوں کو کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔
1952میں ایران میں نئے الیکشن کا انعقاد ہونا تھا۔ اس الیکشن میں سی آئی اے نے اٹھارہ امیدواروں پر ہن برسانا شروع کر دیا۔ ان کے لیے امریکی خزانے کے مونہہ کھول دیے گئے۔ الیکشن کے دوران یہ اٹھارہ طاقتور ترین امیدوار، سی آئی اے کے کندھوں پر چڑھ کر حکومت میں آنے کے لیے مکمل تیار تھے۔ مگر وزیراعظم مصدق نے بین الاقوامی قوتوں کی یہ خوفناک چال ناکام بنا دی۔
عوام میں جا کر سب کچھ بتا ڈالا۔ یہ بھی بتایا کہ کس طرح سی آئی اے، ایرانی انتخابات میں مداخلت کر رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کی طاقت سے یہ اٹھارہ امیدوار پارلیمنٹ کا الیکشن ہار گئے۔
یہ صورت حال امریکی اداروں کو قطعاً قابل قبول نہیں تھی۔ چنانچہ وزیراعظم کو ہٹانے کی سازش تیار کی گئی۔ سب سے پہلے تو رضا شاہ پہلوی اور محمد مصدق کے درمیان اختیارات کی جنگ شروع کروا دی گئی۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس قانونی لڑائی میں سی آئی اے اور برطانیہ کے خفیہ اداروں نے منتخب حکومت کے بجائے بادشاہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ مگر بات بن نہیں رہی تھی۔ وجہ صرف یہ کہ محمدمصدق ہر دلعزیز وزیراعظم تھا اور لوگ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔
اس صورت حال میں 1952 میں جوہری تبدیلی آئی۔ امریکا میں الیکشن کے ذریعے آیزن ہاور صدر منتخب ہو گیا۔ وہ مصدق کو شدید ناپسند کرتا تھا۔ فیصلہ کیا کہ کسی بھی صورت میں ایرانی وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دے گا۔ آیزن ہاورکے حکم کے تحت یہ خفیہ کام Kermit Roosevelt jrکے سپرد کیا گیا۔ تبدیلی کے منصوبہ کا کوٹ operation Ajaxرکھا گیا۔ رضا شاہ پہلوی کو وافر تعداد میں امریکی ڈالر مہیا کیے گئے۔
بادشاہ نے یہ سب رشوت کے طور پر ایران کے سیاسی اور غیر سیاسی اکابرین میں دریا دلی سے تقسیم کیے۔ پیسے کے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے۔ اور وہ بھی ہر ایک کی توقع سے بڑھ کر رشوت۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر ہی سے وزیراعظم کو امریکی ڈالر کے ذریعے تبدیل کر دیا گیا۔ مصدق جیسے قوم پرست لیڈر کی جگہ، سی آئی اے نے اپنا مقامی نمایندہ جنرل فضل اللہ زاہدی کو تخت نشین کر دیا۔ آپ سی آئی اے کا اس معاملہ میں اعتماد تودیکھیے کہ ان کا ڈائریکٹر "ڈانلنڈولبر" باقاعدہ حکم نامہ جاری کرتا تھا۔
مصدق کو پارلیمنٹ سے نکالنے سے پہلے، امریکی سی آئی اے کے افسران ان تمام اہم ایرانی قائدین سے بار بار ملے جو اس آپریشن میں ان کے معاون تھے۔ اس کے بعد وزیراعظم کے عہدے کو قانونی طورپر کمزور کر دیا گیا۔ اختیارات بادشاہ کو منتقل ہوگئے۔ یہ اور بات کہ آہستہ آہستہ شاہ بھی ان کی تابعداری نہ کر سکا اور اسے بھی سی آئی اے کے ذریعے 1979میں ہٹا دیا گیا۔ شروع شروع میں امریکا تردید کرتا تھا کہ اس کا انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر ساٹھ برس بعد جو سرکاری دستاویزات سامنے آئیں اس میں امریکی مداخلت کو تسلیم کیا گیا۔
ایرانی معاملات کا پاکستان کے موجودہ حالات سے موازانہ کریں تو بہت زیادہ مماثلت سامنے نظر آتی ہے۔ یہ مماثلت ہرگز ہرگز اتفاقیہ نہیں ہے۔ مگر ان تمام گزارشات سے پہلے چند اہم باتوں پر نظر دوڑانا از حد ضروری ہے۔
سابقہ وزیراعظم کسی طور پر بھی ایک کامیاب انتظامی انسان نہیں تھے۔ گورننس کا تجربہ نہ ہونے کی بدولت انھوں نے ہر شعبہ میں حددرجہ غلطیاں کی ہیں۔ ناتجربہ کاری کی بدولت خان صاحب ایسے ٰ فیصلے کر ڈالتے تھے کہ ان کے ہمدرد لوگ اور ادارے سر پیٹ لیتے تھے۔
پنجاب میں عثمان بزدار جیسے شخص کو وزیراعلیٰ بنانا، ان کے لیے پورس کا ہاتھی ثابت ہوا۔ عثمان بزدار کسی صورت میں بھی پنجاب جیسے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے اہل نہیں تھے۔ اس کے علاوہ خان صاحب اتحادیوں کو ساتھ ملا کر چلنے کی صلاحیت سے نابلد تھے۔ عجیب سچ ہے کہ انھوں نے اپنے ہر خیر خواہ کو خراب کیا۔ نیب اور دیگر اداروں کو استعمال کیا۔ حد درجہ سنجیدہ معاملات کو حل کرنے کے لیے غیر سنجیدہ افراد کو سامنے لائے۔
ان کے پرنسپل سیکریٹری پنجاب کی برادریوں اور دھڑوں کی سیاست سے مکمل طور پر ناآشنا تھے۔ انھوں نے پوری زندگی خیبر پختوخوا سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ علم ہی نہیں تھا کہ پنجاب کے سیاسی اکابرین سے کیسے رویہ اختیار کرنا ہے۔ خان صاحب کے اسٹاف نے اکثر سیاست دانوں کو اپنی بے اعتدالی سے ناراض کر ڈالا۔ ہاں ایک بات اور وہ کرپشن کے خلاف بات کرتے رہے۔
مگر ان کے چند سیاسی ساتھی، ایک ہزار روپیہ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ نچلی سطح پر ان کے قریبی رفقا نے اس قدر رشوت ستانی کا بازار گرم کیا کہ خلق خدا نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ کلرک سے لے کر ہر عہدے کے لیے الگ الگ نرخ تھے۔ مگر خان صاحب مکمل خاموش رہے۔
یہ خاموشی ان کی حکومت کو لے ڈوبی۔ اس کے علاوہ غیر منتخب مشیران کو تمام اختیارات سونپ دیے۔ نیب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ لوگوں پر جھوٹے کیس بنوائے گئے۔
خان صاحب اپنی ناتجربہ کاری کی بدولت گورننس کے اعتبار سے صفر ثابت ہوئے۔ پھر انھوں نے مذہبی کارڈ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اپنی حکومت کے آخر میں امریکی سازش کا واویلہ مچا دیا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکی سازش ہوئی ہو۔ مگرناکامی کی بساط خود خان صاحب نے بچھائی تھی۔ وہ اپنی گورننس کا ملبہ کسی اور پر نہیں ڈال سکتے۔
ان تمام غلطیوں کے باوجود خاں صاحب آج بھی ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔ ان کے چاہنے والے ان کے ایک اشارے پر والہانہ باہر نکل آتے ہیں۔ وہ ملکی تاریخ کے لازوال جلسے کر رہے ہیں۔ مگر بین الاقوامی قوتوں کے سامنے یہ مقبولیت کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ ہمارے جیسے لاغر معاشروں میں بیرونی کٹھ پتلیاں ہمیشہ اقتدار میں رہی ہیں۔ اس معمول سے جو بھی تھوڑا سا انحراف کرے گا۔ اس کا انجام ایران کے ڈاکٹر مصدق کی طرح ہی ہو گا! باقی غیب کا علم صرف خدا جانتا ہے۔