ہر دور کا اپنا کموڈس ہوتا ہے
کموڈس روم کی طاقتور ترین سلطنت کا ناکام ترین بادشاہ تھا۔ اس کا والد مارکس تاریخ کے عظیم شہنشاہوں میں گنا جاتا ہے۔ آج سے ٹھیک دو ہزار برس پہلے کا ذکر ہے۔ کم لوگ سمجھتے ہیں کہ کرہ ارض پر روم کی عظیم اور طاقتور سلطنت کا وجود کتنا مؤثر تھا۔
ان کی فوج، دنیا کی سب سے مہیب ادارہ تھا۔ مارکس، ان لوگوں میں سے تھا۔ جو اپنی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑتا تھا، اس کی حکومت تین براعظموں پر محیط تھی۔ مارکس نہ صرف شاندار سپہ سالار تھا بلکہ روم کی سینیٹ کو بھی رام کرنا جانتا تھا۔ سینیٹ کے ممبران کسی الیکشن کے بغیر بلند پایہ ایوان میں پہنچتے تھے۔
ان میں سے اکثریت حد درجہ کرپٹ اور نااہل لوگوں پر مشتمل تھی۔ مگر اس عظیم شہنشاہ کا ایک سنگین مسئلہ تھا۔ اس کا صرف ایک بیٹا تھا۔ کموڈس۔ مارکس نے اکلوتے بیٹے کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔ کموڈس حد درجہ نااہل اور ادنیٰ انسان تھا۔
رموز سلطنت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہر دم مینا و ساغر میں غرق، وہ کسی طرح بھی بادشاہ بننے کے لائق نہیں تھا۔ والد کی تمام تر محنت اور ریاضت کے باوجود، کموڈس درمیانے درجے کا جنگجو بھی نہ بن سکا۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد بہر حال کموڈس روم کی سلطنت کا والی بن گیا۔ دنیا کی اس وقت کی سوپر پاور کی زوال کی ابتداء اسی عہد سے ہوئی۔ کیونکہ، اقتدار کی منتقلی کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا۔
لہٰذا کموڈس اس عظیم سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔ اسے اپنی سرحدوں کی حفاظت کا بھی کوئی شوق نہیں تھا۔ اس کا ایک نوکر کیلینڈر تھا جو ایک سابقہ غلام تھا۔ بادشاہ نے تمام حکومتی اختیارات اس نیچ انسان کے حوالے کر دیے۔ کیلینڈر نے وہی کیا جو ایک لالچی انسان کر سکتا ہے۔ رومن سینیٹ کی نشستیں فروخت کرنی شروع کر دیں۔
ہر حکومتی عہدے پر تقرری کے لیے پیسے لینے شروع کر دیے۔ روم بکھرنا شروع ہوگیا۔ کیلینڈر نے پیسہ کمانے کی ایک بھیانک سازش کی۔ سلطنت کا تمام غلہ مصر سے آتا تھا۔ کیلینڈر نے بحری جہازوں سے غلہ اتار کر اپنے گوداموں میں محفوظ کر لیا۔ اس طرح روم، بدترین قحط کا شکار ہوگیا۔ شہر میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ بدامنی کی ہواکموڈس تک بھی پہنچ گئی۔
تحقیق سے سارا معاملہ کھل گیا۔ کموڈس نے خنجر سے اپنے معتمد خاص کی گردن کاٹ ڈالی۔ لاش کو روم کے شہریوں کے حوالے کر دیا۔ دو دن تک، شہری اس لاش کو گھسیٹتے رہے۔ اس کی بے حرمتی کرتے رہے۔ ان کا غم و غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہو سکا۔ کیونکہ کموڈس کسی صورت میں بھی اپنی بے راہ روی کی زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
اس کی شہرت ایک حد درجہ بزدل انسان کی تھی۔ پورا روم، اس سے نفرت کرتا تھا۔ مگر مجبور تھا۔ کموڈس کے ہاتھ میں مارنے کی طاقت تھی۔ کموڈس نے اپنی شہرت بہتر کرنے کے لیے ایک حددرجہ گھٹیا حرکت کی۔
اس نے گلیڈیٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ اور تلوار لے کر کلوسیم میں لڑنا شروع کر دیا۔ مگر وہ کرتا یہ تھا، کہ اپنے مدمقابل گلیڈیٹر کو وہ ہتھیار دیتا تھا جس کی دھار نہیں ہوتی تھی۔ یعنی وہ بالکل بے بس ہوتا تھا۔ کموڈس اپنی تیز تلوار سے ان گلیڈیٹروں کو بڑی آسانی سے قتل کر دیتا تھا۔
مگر جلد ہی یہ راز سب کے سامنے کھل گیا۔ روم میں اس اوچھے ہتھکنڈوں کا حد درجہ منفی اثر ہوا۔ کموڈس کو سینیٹ کے بااثر افراد اور ایک خاتون کنیز نے مل کر قتل کر ڈالا۔ مگر جو نقصان، کموڈس اپنے ملک کو پہنچا چکا تھا۔ وہ بہر حال کبھی بھی پورا نہ ہو سکا۔ بدعہدی، لوٹ مار، کرپشن، بزدلی اور غیر معقول طرز حکمرانی نے دنیا کی سپر پاور کو ہمیشہ کے لیے گہنا دیا۔ روم، دوبارہ کبھی بھی وہ عظمت حاصل نہ کر پایا۔ جو اس کا سابقہ مقدر تھا۔
عجیب سی بات ہے۔ مجھے پاکستان کے گزشتہ ستر سال کے حالات کموڈس، کیلینڈراور سازشوں کے حوالے سے بالکل یکساں معلوم ہوتے ہیں۔ پاکستان، تاریخ کا ایک عظیم جمہوری تجربہ تھا۔ قائد اعظم، لیاقت علی خان، اور دیگر سیاسی احباب، مغربی جمہوریت کی فکری اساس کے مالک تھے۔ ان کے ساتھیوں کی اکثریت کسی قسم کے دنیاوی لالچ سے مبرا تھی۔
راجہ صاحب آف محمود آباد، اپنی ذاتی حیثیت میں برصغیر کے امراء میں شمار کیے جاتے تھے۔ اس عظیم شخص نے اپنی جاگیر اور محلات چھوڑ کر قائد کے ہمراہ کراچی ہجرت کر لی۔ مالی حالات اتنے کمزور تھے کہ گھر کا کھانا بنانے کے لیے کوئی ملازم بھی نہ رکھ سکتے تھے۔ ان گنت ایسے لوگ تھے جنھوں نے اپنا تن من اور دھن اس نوزائیدہ ملک کے لیے وقف کر ڈالا تھا۔ مگر ایک حیرت انگیز عنصر اور بھی تھا۔
قائداعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں میں سے کسی ایک نے بھی اقتدار کو اپنے گھرانوں میں منتقل نہیں کیا۔ قائد کا پورا خاندان کراچی میں رہتا تھا۔ ایک واقعہ بھی بتایئے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ محمد علی جناح نے اپنے بعد، گورنر جنرل یا وزیراعظم، اپنی اولاد یا قریبی عزیزوں کو بنانے کی معمولی سی بھی کوشش کی ہو۔ قائداعظم کی زبان سے کبھی یہ نہیں نکلا کہ ان کے بعد، ان کی سیاست کی وارث محترمہ فاطمہ جناح ہوں گی۔
ابتدائی حکمرانوں کا یہی وطیرہ تھا۔ غلام محمد، سکندر مرزا اور دیگر اصحاب نے کبھی بھی کسی عزیز کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا۔ یہ ابتلاء ایوب خان سے شروع ہوئی۔ اس نے اپنے بیٹے کو سیاسی طور پر پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر وہ خواہش بھی عوام میں شرف قبولیت نہ لے پائی۔
قدرت کا اتفاق دیکھیئے۔ کہ مارشل لاء کے ذریعے حکمران بننے والوں میں سے کسی ایک نے بھی موروثی سیاست کی داغ بیل نہیں ڈالی۔ انھوں نے ہر طرح کی لاقانونیت اور بربریت کا مظاہرہ کیا مگر ایک معاملے میں اپنا دامن اجلا رکھا۔
ضیاء الحق اور پرویز مشرف جب تک حکمران رہے۔ ان کی اولادیں، کسی صورت میں امور سلطنت میں داخل نہیں ہوئیں۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا، کہ ان لوگوں کے دور، کسی بھی طرز سے فائدہ مند تھے۔ درست ہے کہ ان عرصہ حکمرانی میں معیشت قدرے بہتر ہوئی تھی۔ مگر ان کے ادوار نے ہماری سیاست، معیشت اور سماجی قدروں کی چولیں ہلا ڈالیں۔
اس نکتے کے برعکس، جب آج کے جمہوری قائدین پر نظر دوڑاتا ہوں۔ تو انھیں اپنی اولاد سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ان کی اولادوں میں وصف ہونگے۔ مگر میرٹ اور بہتر طرز حکمرانی کسے کہتے ہیں، انھیں بالکل علم نہیں ہے۔
ذاتیات سے بالاتر ہو کر گزارش کر رہا ہوں۔ موجودہ وزیر خارجہ نے دس بارہ ماہ میں غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے کا سرکاری سرمایہ خرچ کیا، ہر اس جگہ پر بھی بھاری وفد سمیت پہنچ گیا، جن کا ہمارے ملکی مفادات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دعوے کیے گئے کہ ملک کی سفارتی تنہائی ختم کر دی۔ خصوصاً امریکا سے تعلق حد درجہ بہتر کر لیا۔ مگر بھارت کے وزیراعظم اور امریکی صدر نے حال ہی میں جو مشترکہ بیان جاری کیا ہے، اس میں پاکستان کا نام لے کر دہشت گردی کا تذکرہ کیا ہے۔
کہاں گئی وہ سفارت کاری، جس کا دعوی کیا جا رہا تھا۔ میرے جیسے کیوں نہ سوچیں کہ یہ سب کچھ سیر سپاٹے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں وزیرخارجہ کے والد، انھیں ہر قیمت پر وزیراعظم بنانے پر مصر ہیں۔ قرائن یہ ہیں کہ ان کی سیاسی شطرنج پر گرفت یہ خواہش پوری کرکے رہے گی۔ وقتی انکار اپنی جگہ، مگر پختہ عزم اپنی جگہ۔ اگر میرٹ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو ان کی سیاسی جماعت میں حد درجہ ذہین اور بہتر لوگ موجود ہیں، جو وزیراعظم بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مگر نہیں۔ اپنے سپوت سے آگے کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔
کے پی کے میں تو مذہبی جماعت کے رہنما اپنے خاندان کو اقتدار حوالے کر چکے ہیں۔ بیٹے سے لے کر، بھائی اور پھر سمدھی ماشاء اللہ سب اقتدار میں ہیں۔ مسلم لیگ ن میں بھی یہی قصہ ہے۔ شاہد خاقان عباسی جیسا دانا انسان، اب کسی بھی عہدے سے کوسوں دور ہے۔ مسلم لیگ ن کے شہنشاہ کو بھی صرف بھائی اور اولاد کے سوا کچھ بھی نہیں سوجھتا۔
مگر صاحبان! قدرت کا اپنا نظام ہوتا ہے۔ خدا کی اپنی حکمت ہوتی ہے جو صرف اور صرف میرٹ پرچلتی ہے۔ کسی بھی عصبیت سے بالاتر، قدرت ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ حکمرانی کی بساط ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ روم کے نااہل ترین بادشاہ کموڈس کی طرح، ہر موروثی مہرہ، تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جاتا ہے۔ مانیے یا نہ مانیے۔ اولاد کو زبردستی تاج پہنایاتو جا سکتا ہے۔ مگر حکمرانی کے تاج کو عظمت اور توقیر نہیں دلوائی جا سکتی۔
ہر دور کا کموڈس، فاش غلطیاں کرتا ہے۔ اور پھرزوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ مگر اس خاندانی اقتدار کے کھیل میں ملک اور قومیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ غربت سر چڑھ کر بولتی ہے۔ اور لوگ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے اپنی نفرت کا اظہاربھی کرتے ہیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ کوئی بھی کموڈس، اس قانون کی چکی میں پسنے سے بچ نہیں سکتا!