ہمیں کامیابی سے نفرت ہے!
اسرائیل کے پاس تین بندرگاہیں ہیں۔ حائفہ، اشدوو اور ایلات۔ چھوٹے سے ملک کا نوے فیصد سامان بذریعہ سمندر آتا ہے۔ بحیرہ روم سے منسلک حائفہ، گوادر کی طرح گہرے پانی والی قدرتی بندرگاہ ہے۔ پانچ برس پہلے اسرائیلی حکومت نے سرکاری شعبہ میں موجود کاروباری اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔
نصف دہائی کی سرکاری کارروائی کے بعد صرف چند دن پہلے اس اہم ترین بندرگاہ کو فروخت کر دیا گیا۔ یہ عام سی بات ہے۔ متعدد ملک اپنے اثاثے مختلف وجوہات کی بنیاد پر بیچتے یا خریدتے رہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ حائفہ کو ہندوستان کے اڈانی (Adani) گروپ نے خریدا ہے۔ اڈانی گروپ، ہمسایہ ملک کا حد درجہ امیر کاروباری ادارہ ہے۔
اس کا مالک گوتم اڈانی ہے۔ اس ادارہ کی مالیت ایک سو پچیس بلین ڈالر ہے۔ وہ دنیا کا گیارواں امیر ترین تاجر ہے۔ سیمنٹ، بندرگاہیں، ایئرپورٹ، گرین انرجی، رئیل اسٹیٹ اور متعدد شعبوں میں گوتم کامیابی سے کام کر رہا ہے۔
اڈانی گروپ یا گوتم اڈانی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پر ذہن میں منسلک متعدد ایسے سوالات ہیں جن کا کم از کم اپنے ملک کی صورت حال میں کوئی جواب نہیں ملتا۔ اول تو ہمارے نظام میں ان دیکھا خوف اتنا ہے کہ سوال اٹھانے کے لیے حد درجہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے، ہم نے ذہنوں کو اس طرح مرتب کر دیا ہے کہ سنجیدگی سے سوال سوچنا بھی ناممکن نظر آتا ہے۔
دراصل ہمارے معاشرے میں ہر شخص کسی بھی طریقہ سے امیر ہونا چاہتا ہے۔ مگر اس کا شدید اعتراض یہ ہے کہ دوسرا کیوں پیسے کما رہا ہے۔ یہی رویہ اداروں کے اندر بھی موجود ہے۔ ریاستی ادارے، اپنی بے پناہ دولت، مراعات اور اثر و رسوخ کو کسی بھی طور پر کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انھیں اس پر شدید اعتراض ہے کہ حکومت کے دوسرے ستون کیا گل کھلا رہے ہیں۔
یہ دو عملی ہر گلی محلہ، دفتر، نجی و سرکاری زندگی میں راج کر رہی ہے۔ بالکل اسی طرح ہماری شخصیت بھی متضاد پہلوؤں پر منجمد ہو چکی ہے۔ ہم جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں ہیں۔ اور جو کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں ہیں۔ ہر انسان کو ان نکات پر متعدد عملی مثالیں مل جائیں گی۔
میں بھی آپ کی خدمت میں مثال عرض کرتا ہوں۔ چند ماہ پہلے ایک کامیاب تاجر تشریف لائے۔ لاہور کی سب سے بڑی مارکیٹ میں ان کا کاسمیٹکس کا حد درجہ فعال کاروبار ہے۔ چین میں بھی فیکٹری ہے۔ پوچھا کہ آپ حد درجہ دینی ذہن کے مالک ہیں۔
وعظ اور نصیحت ہر وقت فرماتے رہتے ہیں۔ مگر حکومت کو ٹیکس کیوں نہیں دیتے۔ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگے کہ دین کا کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ دین اور دنیا کے اصول بالکل مختلف ہیں۔ اس گفتگو کے بعد وقت ضایع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ نجی ملاقات ختم ہوگئی۔
اب خود غور فرمائیے کہ جس معاشرہ میں مکمل طور پر اخلاقی اور سماجی بگاڑ موجود ہو۔ اس میں سیاست اور ریاست میں ادنیٰ پن کیوں نہیں ہوگا۔ نام نہیں لینا چاہتا۔ پاکستان کے پہلے، سو امیر ترین افراد کی فہرست بنا لیں۔
ذرا دیکھیے کہ ان کی صورت حال کیا ہے۔ ان کے حالات کیا ہیں۔ اکثریت مختلف اداروں کی زد میں نظر آئیگی۔ کوئی نیب کے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ کوئی دیگر حکومتی اداروں کے بابوؤں کے دفتر کے سامنے کھڑا نظر آئے گا۔ کوئی سیاسی عتاب کا شکار ہوگا اور کوئی ملک چھوڑنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوگا۔ شاید آپ کو لگے کہ میری تحریر کا مرکزی نکتہ، کالم کا پہلا حصہ ہے یا دوسرا۔ عرض ہے کہ جو دو عملی یا منافقت ہماری شخصیتوں میں پیدا کی گئی ہے۔
بعینہ وہی، ہماری عملی زندگیوں میں عود کر آئی ہے۔ اس میں باہمی رقابت کا عنصر مزید پیچیدگیاں پیدا کر دیتا ہے۔ اور یہی اداروں میں موجود ہے۔ یہاں ہر شخص، فرشتہ نظر آنا چاہتا ہے۔ چلیے، انسانی جبلت ہے۔ مگر ہر کوئی، دوسرے کو شیطان ثابت کرنا چاہتا ہے۔ سارا دن اور رات، یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دوسرے کا دولت مند ہونا جرم ہے۔ مگر اپنا غیر قانونی ارتکاز بالکل درست ہے۔ بلکہ ان کا جائز طریقے سے بنایا ہوا سرمایہ بھی بالکل غلط ہے۔
کیا یہ پوچھنے والی بات نہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی کامیابی پر کیا اعتراض ہے۔ یاد رکھیے اگر ہمارے معاشرے میں آپ تھوڑے سے کامیاب ہوتے نظر آئیں گے تو اردگرد یا دور دراز کے افراد، جن کا کوئی واسطہ نہیں، آپ کی جان کے دشمن بن جائیں گے۔
آپ کی زندگی کو برباد کرنا، متعدد لوگوں کی زندگی کا مرکز بن جائے گا۔ اور جب ان سے تنگ آ کر پوچھیں کہ جناب آپ کا مجھ پر اعتراض کیا ہے تو یقین مانیے کوئی جواب نہیں ہوگا۔ پوری زندگی سول سروس میں گزاری ہے۔ اس شعبہ کا اندرونی اندازہ ہے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔
اگر آپ سول سروس میں کسی اچھے خاندانی بیگ گراؤنڈ سے آئے ہیں اور آپ کے پاس زندگی کے چند لوازمات اپنے ہم عصروں سے بہتر ہیں۔ تو یقین فرمائیے آپ کے ساتھی جان کے دشمن بن جائیں گے۔ خدانخواستہ نئی گاڑی خرید لیں۔ تو ہر ایک اس کی قیمت پوچھنی شروع کر دیگا۔ یہ بھی پوچھے گا کہ گاڑی کہاں سے آئی۔
پھر یہ ضرور کہے گا کہ اس کے پاس تو نئی گاڑی خریدنے کا کوئی انتظام نہیں۔ مگر تیس سال کے دورانیے میں ان کی ذاتی جائیداد بڑھتی نظر آئے گی۔ گھر بھی بڑے ہوتے جائیں گے۔ اور گاڑیوں کا تو خیر شمار و قطار ہی کوئی نہیں ہو سکتا۔
ریٹائرڈ افسر تک اس بات کی ٹوہ میں ہوتے ہیں کہ ان کے دوسرے کولیگ کا گھر ایک کنال کا ہے یا دو کنال کا۔ بھئی اب آپ ریٹائر ہو چکے ہیں۔ دنیا سے جانے کا وقت قریب ہے اب تو دوسروں کو بخش دو۔ مگر نہیں، ہمارے اندر وسعتِ دل اتنی کم ہے کہ ہم مرتے دم تک دوسرے شخص کی کامیابی سے نفرت کرتے ہیں۔
اس کی دولت کو کسی صورت میں شرف قبولیت نہیں دیتے۔ یہی رجحان پورے ملک میں بیماری کی طرح ہر سطح اور ہر ادارے میں پھیل چکا ہے۔ دوسرے انسان کی کامیابی چوری ہے اور اپنی ذاتی کامیابی میرٹ پر ہے۔
اس نکتہ کوذرا ارباب اقتدار کی طرف لے کر آیئے۔ باہمی چپقلش اس قدر زیادہ ہے کہ اب صرف اور صرف ذاتی دشمنی ہے۔ سیاسی حریف کو برباد کرنے کی خواہش اتنی طاقتور ہے کہ اس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ طاقت کے ایوانوں میں معتدل رویہ ناپید ہے۔
ایک سابقہ وزیراعظم کے متعلق ان کے ایک واقف نے بتایا کہ وہ تیس سال پرانی بات بھی یاد رکھتے تھے کہ فلاں افسر نے یا سیاسی شخص نے میری بات نہیں مانی تھی۔ لہٰذا اسے نقصان پہنچنا چاہیے اور میرے ہاتھ سے پہنچنا چاہیے۔
بلکہ ہر اہم بندے سے مل کر اپنے اسٹاف سے پوچھتے تھے کہ یہ ہمارا آدمی ہے یا ہمارے دشمنوں کا۔ یہ نہیں فرماتے تھے کہ مخالفوں کا۔ ہاں اب اس میں ملک دشمنی کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ ریاستی اداروں کابھی یہی حال ہے۔ وہاں بھی ذاتیات بلکہ ذاتی مالی مفادات کی جنگ ہے۔ مگر اسے مقدس کپڑے سے ڈھانپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پر اس کمبخت، سوشل میڈیا نے سب کچھ کھول کر ہر ایک کو برہنہ کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کو جس مرضی نام سے پکار لیجیے۔ اس نے ہر شخص اور ادارے کی اصل شناخت لوگوں کے سامنے رکھ دی ہے۔ کس نے دس بارہ سال کیا فرمایا تھا اور اب کیا الٹ بات کہہ رہا ہے۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر متانت کے ساتھ موجود ہے۔
کیا یہ فطری سوال نہیں ہے کہ مستقبل میں موجودہ بگاڑ کو درست کیسے کیا جائے۔ اس وقت تو مجھے کوئی ایسا طریقہ معلوم نہیں پڑ رہا۔ جس سے معاملات کو درست سمت میں لایا جاسکے۔ مگر پھر بھی عرض کرونگا۔ دوسرے کی کامیابی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا بند فرمائیے۔ اس کو مبارک باد دیجیے۔ اس کی ہر طور سے تعریف کیجیے۔
مسئلہ تھوڑا سا بہتر ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح برداشت کے مادہ کو بڑھائیے۔ شخصی سطح پر بھی اور ادارہ جاتی سطح پر بھی۔ اگر ایک سیاسی پارٹی کو عوامی پذیرائی مل رہی ہے تو اسے قبول کیجیے۔ ہر وقت ان کے خلاف سازش کرنا یا کروانا بند فرمائیے۔
خیر سیاست دانوں پر تو بات کرنا وقت برباد کرنا ہے۔ ساٹھ سال سے اوپر سیاست دانوں کو فارغ کر دیں۔ ان کی باہمی تفرتیں اتنی زیادہ ہیں کہ پورے سماج میں زہر گھول دیا ہے۔ سیاست دانوں کو ساٹھ سال کی عمر کے بعد اپنا وقت معاشرے کی بہتری کی طرف خرچ کرنا چاہیے۔
تعلیمی درسگاہوں میں پڑھانا چاہیے، پودے لگانے چاہیں، کمزور طبقے کی مدد کرنی چاہیے۔ یقین ہے کہ میری ایک بھی بات کوئی فریق نہیں مانے گا۔ تصور کیجیے۔ اگر اڈانی ہمارے ملک میں ہوتا تو اس وقت کن حالات سے دوچار ہوتا۔ اداروں کی تفتیش بھگت رہا ہوتا۔ کال کوٹھڑی میں ہوتا۔ طاقتور لوگ چھپ چھپ کر اس سے قیمت وصول کر رہے ہوتے۔ میڈیا کی اکثریت اسے چور ثابت کر رہی ہوتی۔
اینکر خدائی لہجے میں اسے ڈاکو بنا چکے ہوتے۔ دراصل ہم کسی طور پر بھی دوسرے کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہمیں کامیاب افراد سے نہیں بلکہ کامیابی سے نفرت ہے۔