ہمیں، اپنی جہالت پر فخر ہے!
2022ہمارے لیے ایک روایتی سا سال تھا۔ سیاسی تلخیاں، اداروں کی چیرہ دستیاں، جہالت میں اضافہ، مذہبی شدت پسندوں کا تباہی میں اضافہ کرنا اور تخت کے لیے، بلکہ درست الفاظ میں پیسے کے لیے لڑائیاں قومی شعار رہیں۔
بدقسمتی، ملک مکمل طور پر اسی ڈگر پر چلتا رہا۔ مثبت جدت اور کسی بھی فکری تبدیلی کے بغیر۔ وہی بودا سا استدلال کہ یہود وہنود کی سازش نے ملک کو برباد کر ڈالا۔ اسی طرح کے عامیانہ مسائل میں گزشتہ سال گزار دیا۔
پر صاحبان، دنیا گزرے ہوئے سال میں ہر طرح سے فعال رہی اور سائنسی اعتبار سے مغرب نے متعدد جدید ایجادات کیں۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں ان کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ سائنس کے میدان میں تمام مسلمان ملک بھرپور تاریکی میں ڈوبے رہے۔ جدت پسندی اور سائنس کی دنیا سے دوری نہیں بلکہ نفرت کرتے رہے۔ مگر سائنس کی ترقی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہی۔ شرم آتی ہے کہ ہمارے اکابرین اور ان کی نیم خواندہ اولاد نے آج تک سائنسی تحقیق کی ترقی کے لیے کسی قسم کا کوئی بیان تک نہیں دیا۔
ہماری سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں تمام تر مل کر بھی ایک ایجاد نہ کر پائیں۔ ایک، ایسا زرخیز دماغ نہ سامنے لا سکیں جو دنیا کو حیرت زدہ کر سکے۔ دراصل ہماری درسگاہیں جائز نہیں بلکہ ناجائز ترین دولت سمیٹنے کا ایک راستہ بن چکی ہیں۔ سنا ہے اب تو ہر شہر میں کافی یونیورسٹیاں بنا دی گئی ہیں مگر ان کا عملی نتیجہ کیا ہے۔ بے روزگاروں کی ایک منڈی برپا کی گئی ہے جو کاغذ کی ڈگریاں ہاتھ میں لیے معمولی سی نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اس کے برعکس مغرب نے صرف ایک برس میں تحقیق، جدت اور سائنس کے میدان میں کمال حاصل کیا ہے۔ چند مثالیں دینا ضروری ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ مغربی دنیا ہم سے کتنے نوری سال آگے نکل چکی ہے۔ جیلی فش سمندر میں موجود ایک بالکل عام سی مخلوق ہے۔ سائنسی نام turritopsis dohrnii ہے۔ سائنس دانوں نے جب جیلی فش کی زندگی پر تحقیق کی تو ایک نایاب، نکتہ ابھر کر سامنے آیا۔
یہ ہے زندگی میں صحت مندانہ طوالت کا ہونا۔ آب حیات کا پینا۔ جیلی فش کو جب کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ اپنے بیرونی جسمانی اعضاء (tentacles) کو اپنے وجود میں واپس لے جاتی ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے ایک چھوٹی سی گیند بن کر سمندر کی تہہ میں گم ہو جاتی ہے۔ مگر تھوڑی دیر بعد اس کے جسم سے زندگی کا نیا دورانیہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے تمام بیرونی اعضاء واپس آ جاتے ہیں بلکہ اپنے جسم سے ان گنت نئی جیلی فش کا اخراج کرتی ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ ایک درخت کے ساتھ ٹہنیاں لگی ہوئی ہیں اور اس کے ساتھ پتے اور پھل پیدا ہو رہے ہیں۔ اسپین میں موجود سالک انسٹی ٹیوٹ اور گلن سینٹر نے حددرجہ مشکل تحقیق کر کے پتہ لگایا کہ جیلی فش کے ڈی این اے کا وہ حصہ جو عمر پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے وہ دوسروں سے بہت زیادہ ہے۔
حددرجہ سادہ الفاظ میں گزارش کر رہا ہوں۔ جیلی فش کے جینز میں ایسے stemcells ہیں جو اپنے سے بالکل مختلف سیل بنا سکتے ہیں۔ اس تحقیق کو جب انسان پر آزمایا گیا تو حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ anti-aging اس وقت سائنس کا حددرجہ طاقت سے پھیلتا ہوا علم ہے۔
اس کے ڈاکٹر اپنے مریضوں سے منہ مانگے پیسے وصول کرتے ہیں۔ یہ علم انسان کو صحت مند طریقے سے رکھتا ہے۔ اسے بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔ جیلی فش کے ڈی این اے کی طرح انسان کا وہ ڈی این اے جو زندگی کو بہتر اور صحت مند رکھتا ہے، بڑے آرام سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جیلی فش پر تحقیق انسان کی زندگی کو اتنا خوبصورت بنا دے گی جس سے نسل انسانی حددرجہ آسائش میں رہے گی۔
بی ایم ڈبلیو کمپنی نے کاروں میں ایک ایسا نیا پن پیدا کیا ہے کہ پڑھ کر خوشی اور حیرت ہوتی ہے۔ I X Flow نام کی نئی کار اپنا رنگ ڈرائیور کے مزاج کے حساب سے خودبخود تبدیل کر سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو E۔ Ink کا نام دیا گیا ہے۔ بٹن دبایئے اور گاڑی حکم کے مطابق اپنا رنگ تبدیل کر لے گی۔
اب ذرا موبائل فونز اور کمپیوٹر ٹیبلٹ کی طرف آیئے۔ ایک مغربی کمپنی نے ایسی ٹیبلٹ بنائی ہے جسے zenbook 17 کا نام دیا گیا ہے۔ اس کو تہہ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی آپ ایک ایسے کمپیوٹر کے متعلق بات کر رہے ہیں جو مرضی کے مطابق تہہ ہو کر موبائل فون یا لیپ ٹاپ یا پی سی بن جاتا ہے۔
اسے جیب میں ڈال کر بڑے آرام سے سیر کر سکتے ہیں۔ جہاں دل چاہے، فون بنا لیا اور اگر کسی جگہ بیٹھ گئے تو اس کی تہہ سیدھی کی تو یہ لیپ ٹاپ بن گیا۔ آگے چلیے، sky driveکمپنی نے بڑے شہروں میں ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک حددرجہ بہترین حل ڈھونڈا ہے۔ ایک ذاتی کار یا موٹرسائیکل کی طرح ایک چھوٹی سی مشین ہے جس میں ایک یا دو انسان بڑے آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔
ٹھہریئے، یہ گاڑی نہیں ہے بلکہ یہ اڑنے والی ایک مشین ہے جو پانچ سو میٹر کی بلندی پر ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر پرواز کر سکتی ہے۔ اس میں چھ سو کلوگرام تک وزن اٹھانے کی سکت ہے۔ اس کا فی الحال نام SD-03 رکھا گیا ہے۔ سامان اور عام آدمیوں کی آمد ورفت پر یہ مشین کتنا اثر ڈالتی ہے، سائنس دان اس کا اندازہ لگانے میں مصروف ہیں۔ فی الحال اسے super evolution کہا جا رہا ہے۔
ہر گھر کے باہر ایک گھنٹی لگی ہوتی ہے جسے بجا کر آنے والا شخص گھر والوں کو اپنی آمد کا بتاتا ہے۔ مگر Arlo نام کی ایک ایسی گھنٹی بنائی گئی ہے جسے بجانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جیسے ہی کوئی شخص مرکزی دروازے کے نزدیک آتا ہے، مشین میں موجود سینسر (sensor) خودبخود گھنٹی بجا دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اس میں موجود کیمرہ گھر والوں کو مہمان کی تصویر بھی بھیج دیتا ہے۔
آپ اندر بیٹھے بڑے اطمینان کے ساتھ معلوم کر سکتے ہیں کہ کون ملنے آیا ہے۔ اس پر ایک سبز سا دائرہ گھومنا شروع ہو جاتا ہے جس سے آنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اطلاع گھر والوں کو ہو چکی ہے۔ بالکل اسی طرح ہم تمام لوگ کسی نہ کسی طرح کاغذ کا استعمال کرتے ہیں۔ لکھنے والا کاغذ لکڑی کی چھال سے بنتا ہے اور کاغذ کے پیچھے ایک سانس لیتے ہوئے درخت کی موت ہوتی ہے۔ سنگاپور کی nanyang university نے ایک ایسا کاغذ بنایا ہے جس کا لکڑی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ "پولن" سے بنتا ہے۔
دیکھنے میں پلاسٹک کی ایک شیٹ سی معلوم ہوتی ہے۔ آپ اس پر لکھیں اور اس کے بعد ایک محلول میں ڈال دیجیے۔ تمام الفاظ مٹ جائیں گے اور یہ شیٹ دوبارہ لکھنے کے قابل ہو جائے گی۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ ایک شیٹ آٹھ بار بڑے آرام سے استعمال ہو سکتی ہے۔ یہ Recyclable Paper کی جدید ترین قسم ہے۔ انسانی زندگی اور ماحول پر کتنے اچھے اثرات پڑیں گے، آنے والے وقت میں معلوم ہو جائے گا۔
میرے سامنے اس وقت 2022میں ہونے والی ان گنت ایجادات کی فہرست پڑی ہے۔ کم ازکم سو کے قریب ایسی ہیں جن پر میں لکھنا چاہتا ہوں۔ مگر اتنے محدود کالم میں لکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ تمام تحقیقی کام اور ایجادات مغرب میں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ہمارا سائنس اور تحقیق سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ ہمارے حکمران بھی اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ جس دن ان پچیس کروڑ انسانوں، نہیں، نہیں، کیڑوں نے سوال پوچھنے شروع کر دیے، اس دن ہمارے اکابرین کو چھپنے کے لیے زمین تنگ پڑ جائے گی۔
مغرب، بہترین طرز عمل کی عمدہ مثال ہے۔ وہاں جدت، تحقیق، سائنس اور سوال پوچھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ زرخیز ذہن کو سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے متضاد ہمارے ہاں تحقیق اور جدت پر مبنی کام پر ان دیکھی پابندی ہے۔ تھوڑا سا جہالت سے باہر آنے کی کوشش کریں۔ ہمارا ظالمانہ نظام آپ کی گردن زنی کر دے گا۔ آپ فتوؤں کا شکار ہو کر قابل قتل گردانے جائیں گے۔ دراصل علم حاصل کرنا تو دور کی بات، ہمیں اپنی جہالت پر فخر ہے۔