فکری تبدیلی کی ضرورت ہے!
ہم بھی عجیب سے مشکل لوگ ہیں۔ جس خطہ سے وابستہ ہیں اس کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ میں انصاف، انسانی حقوق، دولت کی منصفانہ تقسیم اور قانون کی بالادستی کا نام ونشان نہیں ملتا۔ برصغیر سونے کی وہ چڑیا تھا جو اکثر غاصبوں کے پنجرے میں قید رہی۔ وسطی ایشیا اور شمالی افغانستان سے ہارے ہوئے لوگ اٹھتے تھے اور دہلی پر قابض ہو جاتے تھے۔
بابر آبائی علاقہ میں اپنی موروثی حکومت حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ مگر برصغیر کو اس طرح مفتوح کر ڈالا جیسے بات ہی کچھ نہیں۔ سلاطین دہلی کا بھی یہی حال تھا۔ ذرا غور فرمایے ترک غلام، برصغیر جیسے عظیم خطے پر بغیر کسی تکلف کے صدیوں حکومت کرتے رہے۔ غلاموں کا ذکر کر رہا ہوں۔ یعنی یہ واحد خطہ ہے جس میں ہمارے آقا، دراصل آزاد کردہ غلام تھے۔ حیرت انگیز سچ یہ بھی ہے کہ ہمارے خطے کو برباد کرنے والے ہمارے "ہیرو" بنا دیے گئے۔
یعنی جس نے بھی ہمارے علاقوں میں لوٹ مار کی، مقامی خواتین اور بچوں کو برہنہ پا سیکڑوں میل دور لے جا کر فروخت کر ڈالا، ہم نے انھیں محسن قرار دیا۔ کیا آپ کو یہ بات غیرمعمولی نہیں لگتی کہ جس بھی آدمی، گروہ یا ریاست نے افغانستان اور وسطی ایشیا سے آنے والے غاصبوں کے سامنے سر اٹھایا، اسے شکست خوردہ پیش کیا گیا۔ تاریخی سچ یہ ہے کہ مقامی مزاحمت کرنے والوں کو حددرجہ منفی بنا دیا گیا۔ یہ معاملہ آج بھی جاری ہے۔ برصغیر میں غیرمتعصب تاریخ لکھنے، پڑھنے اور جاننے کی اشد ضرورت ہے مگر اس کی اجازت ہمیں دی نہیں گئی۔ ہم نے جو تاریخ ترتیب دی اس میں ولن کو ہیرو اور ہیرو کو ولن بنایا گیا۔
یہ ایک خوفناک بات ہے جو آج بھی اصل حقیقت ہے۔ اگر انگریز نہ آتے تو شاید آج بھی ہم "ظل الٰہی" اور "بادشاہ سلامت" کی اردل میں رہنے پر فخر محسوس کرتے۔ درست بات ہے کہ انگریزوں نے برصغیر میں اپنے تسلط کو قائم کرنے کے لیے بہت مظالم کیے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ بات بھی تو تسلیم کرنی چاہیے کہ ان کی افواج اور نظام میں نوے فیصد کے لگ بھگ مقامی لوگ تھے۔
یعنی انگریز جان چکا تھا کہ صدیوں کی مسلسل پستی نے ہمیں سوچنے کی طاقت سے محروم کر دیا تھا۔ اور ہم چند روپوں کی خاطر اپنے ہم وطنوں کا گلا بڑے فخر سے کاٹ سکتے ہیں۔ مگر جہاں یہ منفی معاملات ہوئے وہاں انگریزوں نے ہمارے پورے نظام کی کایا پلٹ دی۔ برطانیہ سپرپاور تھا اور اس نے ہندوستان کو ہر وہ جدید چیز دینے کی کامیاب کوشش کی جس میں برطانیہ دنیا میں سب سے آگے تھا۔ ریلوے، بجلی، موٹرکار، ڈاک اور تار کا نظام، تعلیمی ادارے، بڑے بڑے اسپتال، نہروں کا بہتر نظام اور اس طرز کے بہت سے بہتر کام انھوں نے بہرحال کیے۔ مگر ایک معاملے میں وہ صورت حال برپا ہوگئی جو کسی کے وہم وگمان تک میں نہیں تھی۔
مسلمانوں کی اکثریت نے جدید علوم کو پڑھنے سے مکمل اجتناب کیا۔ یہ ایک مہیب ترین غلطی تھی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جس شخص نے بھی مغربی تعلیم حاصل کرنے کی طرفداری کی اس کی ایک مخصوص سوچ کے تحت مخالفت کی گئی۔ ہمارے تمام قومی سطح کے رہنماؤں کو "غیرمسلم" ہونے کا فتوے دے ڈالے گئے۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ ایک فتویٰ موجود ہے کہ جو بھی ٹرین میں سفر کرے گا اس کا نکاح فاسق ہو جائے گا۔
سرسید وہ پہلے شخص تھے جو یہ تمام معاملہ بھانپ گئے اور انھوں نے حددرجہ تنقید کے باوجود مسلمانوں کو مغربی تعلیم حاصل کرنے پر قائل کیا۔ سرسید احمد خان جیسے عظیم انسان کو جس طرح ذلیل ورسوا کرنے کی منظم کوشش کی گئی، وہ ایک المناک سچ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ہماری قدیم دینی درسگاہوں کی مقامی شاخیں کبھی اپنا ماضی عام لوگوں کے سامنے نہیں لاتیں۔
افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ آج بھی ہم اندر سے جدید علوم سے گھبراتے ہیں۔ دو ممالک کی مثال آپ کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک افغانستان اور دوسرا بنگلہ دیش۔ افغانستان آج سے چالیس سال پہلے ایک جدید ملک تھا۔ یونیورسٹیاں، کالج، خواتین کی تعلیم، جدید فکر کے لوگ، ان کے پاس ہر چیز تھی۔ وہ دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل رہے تھے۔ پھر پورے افغانستان کی جدت کو بارود کے ذریعے اڑا دیا گیا۔ شدت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے ایک ایسے گروہ کو اس ملک پر حاوی کروا دیا گیا جو حددرجہ قدیم خیالات کے مالک تھے۔ آج کے حالات دیکھ لیجیے، پورے افغانستان میں بچیوں کی تعلیم ایک مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ مغربی لباس کو پہننا کفر ہے۔
مگر اندازہ فرمایے کہ "امداد" آج بھی امریکا ہی سے مانگی جا رہی ہے۔ اس صورت حال نے اب ہمارے ملک کو بھی تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں ہمارے ہزاروں فوجی اور عام لوگ شہید ہوئے ہیں۔ اور قیامت یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کی بھرپور مدد اور انھیں ماڈل کے طور پر ہمارے چند دانشور مسلسل پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان معدودے چند لوگوں نے ہمارے عوام کو فکری طور پر منتشر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ افغانستان دہشت، جہالت، موت اور قتل کا گڑھ ہے اور یہ آگ بتدریج ہمارے ملک میں بھی سلگائی جا رہی ہے۔ خود فیصلہ کرلیجیے کہ موجودہ افغانستان بہتر ہے یا صرف چند دہائیاں پہلے کا افغانستان۔
دوسرا ملک بنگلہ دیش ہے جس نے تین دہائیاں پہلے ریاست کی سطح پر مشکل ترین فیصلہ کیا کہ ان کا ملک جدید فکر کے ساتھ صرف اپنے ملک کی بہتری کے متعلق کام کرے گا۔ یہ غیرمعمولی فیصلہ تھا۔ اس نے بنگلہ دیش کی کایا پلٹ دی۔ بنگالی پورے برصغیر کی سب سے جدت پسند قوم ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے کپڑے کی صنعت کی طرف بھرپور توجہ دی۔ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے آہنی اقدامات کیے۔ جس نے ریاست کے مفادات کے خلاف چوں بھی کی، اسے پھانسی پر لٹکا دیا۔ مذہب اور سیاست کو بھرپور طریقے سے علیحدہ کر دیا۔ اپنا آئین بھی جدید راستوں پر استوار کر ڈالا۔ یہ کوئی آسان فیصلے نہیں تھے۔
یہ صرف وہ قائدین لے سکتے ہیں جن کو اپنے ملک سے شدید محبت ہو۔ آج بنگلہ دیش ہم سے یعنی موجودہ پاکستان سے ہر لحاظ سے برتر اور بہتر ہے۔ ہمارے تاجر وہاں فیکٹریاں لگا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ بنگلہ دیش کی قیادت کو اندازہ ہو گیا کہ قدیم روایات کے ذریعے لوگوں کی فلاح ممکن نہیں ہے۔ جو شخص بھی ریاست کے خلاف چلے گا اس کے لیے کوئی معافی نہیں۔ لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ بنگلہ دیش کے ڈالر کے ذخائر آج چالیس بلین سے زیادہ ہیں، ان کی برآمدات ہم سے سیکڑوں گنا زیادہ ہیں۔ آبادی کے پھیلاؤ کی شرح ایک فیصد ہو چکی ہے۔ پورے خطہ میں بنگلہ دیش ایک جدید، امیر اور مستحکم ملک بن چکا ہے۔ آپ کے سامنے دو مسلمان ممالک رکھے ہیں۔ فیصلہ فرمایے کہ عوام کے لیے کون سا ملک آسانیاں پیدا کر رہا ہے، افغانستان یا بنگلہ دیش۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔
اب ذرا ہمارے حالات پر نظر دوڑایئے۔ ہم میں سے اکثریت دوسرے کے لیے بھرپور ناصح ہے۔ اپنے علاوہ ہر دوسرا شخص ہماری تنقید کا نشانہ ہے۔ ہم اسے زبردستی "پرفیکٹ انسان" بنانا چاہتے ہیں۔ ہر جگہ واعظ اور اسلاف کی اقدار پر بات کرنے والے لوگ براجمان ہیں۔ پوری دنیا میں سے عمرہ کے لیے جانے والوں کی تعداد پاکستان سے سب سے زیادہ ہے۔ ہم لوگ اپنے مذہبی مقامات پر رو رو کر اپنے ملک کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کا ذکر کرتے کرتے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ پینتیس ہزار مدارس اور لاکھوں طلباء ہر وقت ہمارے مذہب کی ترویج میں مصروف ہیں۔ میڈیا پر دائیں بازو کے لوگ ہر وقت ہماری تربیت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر پھر مثبت نتائج کیوں نہیں نکل رہے۔ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ ہم بین الاقوامی سطح پر حقیر کیوں گردانتے جاتے ہیں۔ اور ہاں کشمیر اور فلسطین اب تک ظلم کے چنگل میں کیوں ہیں۔ میں صرف ایک طالب علم ہوں۔
میرے نزدیک ہم آج بھی جدید سوچ، فکری تبدیلی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق پر عملی یقین نہیں رکھتے۔ زبانی جمع خرچ تو خیر قیامت ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو محیرالعقول سیاسی اور مذہبی سوداگروں کے حوالے کر دیا۔ جو بات تو اسلام کی کرتے ہیں مگر ان کی نظر صرف اور صرف اسلام آباد پر ہوتی ہے۔ ہم اپنے دشمن خود ہیں۔ ہم ہر کامیاب انسان اور ملک سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج بھی ریاست کی سطح پر ایسے مفروضے پھیلائے جاتے ہیں کہ بس دنیا کو اہمیت نہ دیں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر صاحبان! ہمارے انقلابی مذہب نے دنیا میں حددرجہ محنت، کوشش اور جدت کا علم دیا ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنی فکر کو تبدیل کرنے کی عملی ضرورت ہے۔ باقی نصیحت کرنے والوں سے تو ہر کونہ بھرا ہوا ہے۔