سول سروس (پہلا حصہ)
1983 میں سی ایس ایس کا امتحان دیا تھا۔ میڈیکل کی تعلیم کی ضخیم اور مشکل ترین کتابیں پڑھنے کے بعد مقابلے کے امتحان کے مضامین بہت آسان نظر آئے۔
کہاں، انا ٹومی، سرجری اور باؤ کیمسٹری کے بھاری بھرکم الفاظ اور کہاں عام سی تاریخی کہانیاں۔ بہرحال انتہائی آرام سے سی ایس ایس پاس ہوگیا۔
نتیجہ آیا تو پاکستان میں گیارویں پوزیشن تھی۔ والدین حد درجہ خوش تھے۔ 1984کے آخر میں ٹریننگ کے لیے سول سروسز اکیڈمی چلا گیا۔ ڈی ایم جی کا شعبہ ملا تھا۔ جسے کچھ عرصہ اسے سی ایس اپی کہا جاتا تھا۔ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ بیورو کریسی کے ایسے خار دار جنگل میں داخل ہو رہا ہوں۔ جس میں کپڑے تو دور کی بات، انسان کی روح تک تار تار ہو جاتی ہے۔
ایسا بیابان جس کے باسیوں کا صرف ایک اصول تھا اور ہے کہ دوسرے کے سر پر پاؤں رکھ کر اپنا قد بڑھانا ہے۔ پروفیشنل تعلیم گاہیں جیسے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ذاتی قدروقیمت کا اصول صرف اور صرف محنت اور اہلیت تھی۔ مگر سول سروس میں ان دونوں اوصاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب اکیڈمی میں تربیت کے لیے گیا۔ تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کون سے ایسے "گن" ہیں جنھیں لے کر آپ اس میدان منافقت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
میرا عملی رویہ ایک طالب علم کا سا تھا جو کہ حد درجہ نقصان دہ ثابت ہوا۔ اکیڈمی میں آپ کا اپنا تعارف تو خیر تھا ہی۔ مگراصل تعارف یہ تھاکہ آپ کون ہیں۔ والدین یا قریبی عزیز کتنے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ بیورو کریسی میں آپ کے نزدیکی رشتہ دار کتنے بڑے درجوں پرفائز ہیں۔ یہاں ایک عرض کرنا صائب سمجھتا ہوں۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال کا ایک کلاس فیلو بھی ڈی ایم جی میں آیا۔ اس کے والد سندھ کے گورنر تھے۔
مگر اس افسر نے کبھی بھی کسی کو یہ نہیں بتایا کہ اس کے والد کتنے بڑے آدمی ہیں۔ مارشل لاء کے گورنر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر وہ "مرد درویش" کسی بھی احساس برتری کے بغیر بالکل عام طریقے سے رہتا تھا۔ اس بلند طرز عمل کے افراد بہت کم تھے۔
ایک عرض کرتا چلوں۔ جو لوگ بھی مقابلہ کا امتحان دے کر آئے تھے۔ ان کی اکثریت، اوسط درجے کے گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ حد درجہ اہم نکتہ ہے۔ یعنی "پدرم سلطان بود" والی صورت حال حد درجہ کم تھی۔
بلکہ تھی ہی نہیں۔ المناک حقیقت یہ بھی تھی کہ دس بارہ سال کی نوکری کے بعد تقریباً ہر افسر اپنا شجرہ کسی نہ کسی عظمت سے منسلک کر چکا تھا۔ مثال دینا چاہتا ہوں۔ ڈی ایم جی کے ایک افسر حد درجہ درمیانے درجہ سے تعلق رکھتے تھے۔ محنت کر کے سی ایس ایس کاامتحان پاس کیا۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ دس بارہ سال بعد، ملاقات ہوئی۔ تو انھوں نے بتایا کہ ساؤتھ پنجاب کا ایک شہر ان کے بزرگوں کے نام سے منسوب ہے۔
اوروہ انتہائی شاہانہ بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حد درجہ عجیب سا لگا کہ یہ بندہ کیا فرما رہا ہے۔ مگر اس طرح کے بہت سے افسر تھے جو تھوڑے عرصے بعد اپنی جون بدل لیتے ہیں۔
اکیڈیمی کے بعد، فیلڈ میں ٹریننگ کا ایک سال ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں۔ ذہن میں ملتان آیا۔ میں نے ڈپٹی سیکریٹری سروسز کو ملتان تعیناتی کا نا م دے دیا۔ چونتیس برس کے عملی کیرئیر میں شاید یہ واحد پوسٹنگ تھی جو میرے اپنے کہنے پر ہوئی۔ خیر ایک برس کے لیے ملتان چلا گیا۔ یہ 1986 کا سال تھا۔ وہاں کے ڈپٹی کمشنر طارق محمود صاحب تھے۔
حد درجہ نفیس اور علم دوست انسان۔ کسی قسم کے تعصب اور تکبر سے بالاتر افسر۔ اللہ تعالیٰ انھیں قائم و دائم رکھے۔ ان کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے ہر دم کھلے رہتے تھے۔ بہر حال تربیت کے شروع کا عرصہ اس بڑے آدمی کی چھتر چھاؤں میں گزرا۔ طارق صاحب کے بلند کردار کا اندازہ لگایئے کہ ادبی تقریب میں جا کر پچھلی نشست پر بیٹھ جاتے تھے۔
کسی کو بتاتے نہیں تھے کہ اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ بہر حال طارق محمود جیسے بلند پایہ انسان کم ہی ہوتے ہیں۔ چھ سات مہینے بعد ان کا تبادلہ ہوگیا۔ اور شہزاد قیصر صاحب ڈی سی بن گئے۔ ایک جہان حیرت سامنے کھل گیا۔
فلسفہ کے شعبہ کے استاد اور اس دور میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ خواجہ فرید مٹھن کوٹی پر تحقیق کر رہے تھے۔ بلا کے ذہین انسان اور حد درجہ سادہ آدمی۔ مصروف ترین اوقات میں بھی ذاتی طور پر پڑھنے کے لیے دو چار گھنٹے نکال لیتے تھے۔ یہ طرز عمل ایک حد درجہ زیرک عالم کا ہو سکتا ہے۔ جہاں میں رہتا تھا نزدیک ہی معذور بچوں کا اسکول تھا۔ شہزاد قیصر صاحب سے ذکر کیا کہ اسکول کو دیکھنا چاہے اور ان کی مدد کرنی چاہیے۔
ایک دن دفتر میں بیٹھا تھا۔ مجھے ساتھ لے کر اسکول چلے گئے اور خاتون پرنسپل کو ایک لاکھ روپیہ عطیہ کر دیا۔ شہزاد قیصر صاحب نے کمال طریقہ سے اسکول کے تقریباً تمام بنیادی مسائل حل کر دیے۔ معذور بچوں کے دل سے اس عظیم شخص کے لیے کتنی دعائیں نکلتی ہونگیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ببانگ دہل عرض کرونگا کہ طارق محمود اور شہزاد قیصر صوفی منش لوگ تھے۔
حد درجہ دیانت دار اور نیک افسر۔ سول سروس میں پرانے لوگ اسی طرز کے ہوتے تھے۔ تنخواہ میں گزارہ کرنے والے درویش۔ تنخواہ بھی بس پوری پوری ہی ہوتی تھی۔ میری اپنی تنخواہ کوئی تیرہ سو یا شاید پندرہ سو تھی۔ مگر مہنگائی اتنی کم تھی کہ بڑے آرام سے گزارہ ہو جاتا تھا۔
قطعاً اندازہ نہیں تھاکہ سروس میں کسی طاقتور شخص یا گروہ میں شامل ہوجانا چاہیے۔ میری ذاتی سوچ اور عمل ہمیشہ آزاد پسندی کی طرف مائل تھا۔ چنانچہ شروع سے لے کر ریٹائرمنٹ تک میں بیوروکریسی کے کسی اندرونی مافیا کا حصہ نہیں بنا۔ بہت سے مواقع تھے۔ آل شریف کا عروج تھا۔ نواز شریف وزیراعلیٰ تھے۔ بہت آرام سے ان تک رسائی حاصل کر سکتا تھا۔ بلکہ ایک دو بار تو دربار سے ایسے اشارے بھی ملے جس میں درج تھا کہ درباریوں میں شامل ہو جاؤ۔ اور میرے لیے یہ بالکل بھی مشکل نہیں تھا۔ اس طرح کی فاش غلطی میرے علاوہ شاید کسی نے بھی نہیں کی۔ جس کو بھی موقع ملا۔ اس نے طاقتور حلقوں کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ لازم ہے کہ سول سروس میں ایسے مرنجان مرنج افسر ہیں، جو اپنے آپ کو گروہی آلائش سے مبرا رکھتے ہیں۔ پہلی فیلڈ پوسٹنگ شکر گڑھ میں ہوئی۔ اس وقت وہ سیالکوٹ کی تحصیل تھی۔ شکر گڑھ سے ہیڈ کواٹر جاتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا۔ جو ہفتے میں دو تین بار کرنا پڑتا تھا۔ شاید نجم صاحب سیالکوٹ کے ڈی سی تھے۔ انھیں ضیاء الحق نے ملک کا بہترین ڈپٹی کمشنر قرار دیا تھا۔ اپنی شیروانی پر لگے ہوئے ایک پھول کو اتار کر بذات خود شاید نجم صاحب کے کوٹ پر آویزاں کیا تھا۔
شاہد صاحب نے اس پھول کو فریم کروا کر اپنے دفتر میں سجا رکھا تھا۔ بلا کا سخت افسر اور ناک کی سیدھ میں چلنے والا انسان۔ سیالکوٹ جید سیاستدانوں کا مسکن تھا۔ خواجہ صفدر سے لے کر اختر دریو، اور انور عزیز سے لے کر رانا شمیم تک۔ ایک سے ایک سرخیل سیاست دان موجود تھا۔ ان تمام کے مفادات اکثر ایک دوسرے سے متضاد ہوتے تھے۔
انتظامی طور پر ڈی سی کے لیے یہ صورت حال حد درجہ دشوار تھی۔ مگر جس قابلیت بلکہ اہلیت سے شاہد نجم صاحب نے اپنا سرکاری کام جاری رکھا اور ڈی سی کے عہدے کو معتبر بنایا اس کی مثال آج تک لوگ دیتے ہیں۔ بہت ایمان دار شخص تھا۔
یاد ہے کہ میٹنگ کے بعد دوپہر کو اپنی گرہ خاص سے پیسے نکال کر ملازم کو دیتے تھے اور ہم سب کے لیے کھانا منگواتے تھے۔ اتفاق سے کہ چند ہفتہ پہلے ایک تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو شاداب دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ مگر یہاں ایک تکلیف دہ معاملہ عرض کرتا چلوں۔ ناروال کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین بننے کے لیے ہی ایک مقامی ایم پی اے بضد تھے۔
شاہد صاحب کو نواز شریف نے بطور وزیراعلیٰ حکم بھی دیا تھا کہ فوراً اس ایم پی اے کے لیے کونسلر اکٹھے کیے جائیں اور اس ایم پی اے کو چیئرمین منتخب کروایا جائے۔ شاہد نجم نے صاف انکار کر دیا کہ وہ اپنی انتظامی ٹیم کو کسی بھی سیاست دان کی کامیابی کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ دربار میں اس گستاخی کو حد درجہ ناگوار انداز سے دیکھا گیا۔
شاہد نجم جیسے قابل افسر کو فوراً صوبہ بدر کر دیا گیا۔ انھیں سزا کے طور پر وفاق میں بھجوا دیا گیا۔ میرٹ کا یہ قتل میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر شاہد صاحب ایک سیکنڈ کے لیے بھی رنجیدہ نہ ہوئے۔ خدا نے ان کے لیے بہترین راستے کھول دیے۔ قلیل مدت کے بعد وہ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے میں روم چلے گئے۔ (جاری ہے۔)