Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Rao Manzar Hayat
  3. Bayaniya, Qaumi Mafad Ke Tehat Hona Chahiye

Bayaniya, Qaumi Mafad Ke Tehat Hona Chahiye

بیانیہ، قومی مفاد کے تحت ہونا چاہیے

سعودی عرب اور اسرائیل مدتوں، ایک دوسرے کے بدترین مخالف رہے ہیں۔ مگر موجودہ حالات کی ضرورتوں اور تقاضوں نے ان کے درمیان دشمنی کی برف پگھلانا شروع کردی ہے۔

ولی عہد، محمد بن سلمان نے عالمی طاقتوں کی نئی صف بندی اور ترجیحات پر گہری نظر رکھی، اس جیوپولیٹیکل اور جیواکنامک صف بندی میں سعودی عرب کی پوزیشن کا گہرائی سے جائزہ لے کرایسے بنیادی فیصلے کیے ہیں جنھیں کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا، دیکھا جائے تو سعودی عرب قدامت پسندی سے نکل کر جدیدیت کی راہ پر سفر کا آغاز کر چکا ہے۔

انقلابی فیصلوں کی فکری اساس حد درجہ سادہ ہے۔ صرف اپنے ملک اور عوام کے سیاسی و معاشی مفادات کا تحفظ کرنا۔ غور سے دیکھا جائے تو محمد بن سلمان نے جذباتیت، قدامت پرستی اور شدت پسندی کے ہر رویے اور طریق کی نفی کی ہے، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، اس کے لیے ایک غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل قائد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایسا قائد جو جرات مند ہو اور دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو اور ریاستی فیصلوں پر سوفیصد عمل کرانا جانتا ہو اور عوام کی طاقت بھی اس کے ساتھ ہو۔ محمد بن سلمان میں یہ صلاحتیں موجود ہیں اور ان کا ثبوت نتائج کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔

نیویارک ٹائمز اور یروشلم پوسٹ کے مطابق امریکا نے سعودی عرب اور اسرائیل کو اتنا قریب ضرورکردیا ہے جہاں سے مسائل کے حل کی راہ پر چلا جاسکتا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان اصولی طور پر ایک امن معاہدہ پر اتفاق ہو چکا ہے۔

دونوں ملک ایک دوسرے کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یکسوئی کے ساتھ معاشی ترقی کی طرف گامزن ہو جائیں گے۔ سعودی عرب نے امریکا سے کچھ یقین دہانیاں بھی مانگی ہیں جو کافی حد تک تسلیم بھی ہو چکی ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکا، سعودی عرب کا اسی طرح ساتھ دے گا، جس طرح نیٹو ممالک کا دیتا ہے۔

دوسرا، امریکا، سعودی عرب کو نیو کلیئر ری ایکٹر اور یورینیم فراہم کرے گا جس سے جوہری طاقت کو پرامن طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ امریکا بنیادی طور پر یہ مطالبات تسلیم کر چکا ہے۔ امن معاہدے کی جزئیات پر بھی اتفاق ہو چکا ہے۔ چند چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن پر حد درجہ سنجیدہ طریقے سے سفارت کاری جاری ہے۔

یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے۔ 2020میں امریکا نے Abrahmic Accords نام کے معاہدے مرتب کرائے تھے۔ جن کی بدولت، یو اے ای نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، بحرین نے بھی تھوڑے عرصے کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ عمان اور اسرائیل بھی ایک دوسرے کے قریب آئے، اب سعودی عرب بھی تین سال پرانے اسی معاہدے کے تحت بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ اس ساری کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنا ملک اور اس کا مفاد ہے۔

یو اے ای، بحرین اوراب سعودی عرب نے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کو اولین ترجیح بنایا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں محیر العقول تبدیلی آ رہی ہیں۔ محمد بن سلمان کا بیانیہ یہ ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ کا طاقتور ترین ملک بن جائے، وہ اس بیانئے کو لے کر چل رہے ہیں اور اس ٹارگٹ تک پہنچنے کے لیے انقلابی اقدامات کررہے ہیں۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے ملک کا بدلتے ہوئے حالات میں کیا فیصلہ ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا اشد ضروری ہے کہ ہمارے قومی مفاد میں کیا چیز سود مند ہوگی۔ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بات کرنا از حد دشوار ہے۔

میں کسی فکری بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ مگر حقائق یہ ہیں کہ 1971ء میں پاکستان دولخت کردیا گیا، ہمارا کوئی بھی بیانیہ ہمارے کام نہیں آیا، معاشی طور پر بھی ہم کچھ نہیں کر پائے۔ ابتدائی دور کی ترقی کے بعد ہم مسلسل اقتصادی عدم استحکام کا شکار ہوتے گئے۔ گزشتہ چالیس برس میں دنیا کی کوئی بین الاقوامی کمپنی پاکستان کو اپنا مرکز نہیں بنا سکی۔

بل گیٹس، پاکستان کو آئی ٹی کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے اس سے بھی رعب سے بات کی۔ ہماری کج فہمی سے گھبرا کر، بل گٹس، ہندوستان چلا گیا۔ وہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ انڈیا کی آئی ٹی انڈسٹری کی شاندار ترقی کی بنیاد، ہمارے سیاسی اکابرین کی حد درجہ کوتاہ اندیشی سے ممکن ہوئی۔ مگر ایک چیز میں ہم نے کمال حاصل کر لیا۔ ہماری ادنیٰ ترین جمہوریت نے دو سو کے قریب ایسے خاندان بنا ڈالے، جن کے پاس پورے ملک کی دولت چلی گئی۔ ناجائز ذرایع سے کھربوں کی سلطنت بنانے والے ہمارے نجات دہندہ گردانے گئے۔

اس معاملے میں کسی بھی سیاسی جماعت میں انیس بیس کا بھی فرق نہیں۔ ریاستی اداروں کے بااختیار افسروں اور اعلیٰ عہدیداروں اور ان کے خاندانوں نے دولت کی گنگا میں خوب اشنان کیا۔ مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ملک ایک ناکام ریاست کا روپ دھار گیا۔

ایک غریب ترین بلکہ قلاش ملک کی امیر ترین قیادت نے عوام اور ریاست کے لیے رکاوٹوں کا پہاڑ کھڑا کر دیا جسے عبور کرنا، کسی کے بس کی بات نہیں۔ پھر اس مصنوعی اشرافیہ نے اپنے جرائم چھپانے کے لیے پورے ملک کو نفرتوں، عصبیتوں، مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جھونک دیا۔ ضیاء الحق، اس کے ساتھیوں نے پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا۔

انتہاپسندوں کو ریاستی اداروں میں رسائی فراہم کی، مخصوص مدارس کا ایسا نیٹ ورک قائم کیا گیا جس نے ہمارے پورے سماج کی ساخت ہی تبدیل کر ڈالی۔ ایک آزاد خیال ملک سے تبدیل کرکے ہمیں بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ مذہبی لشکر اور تنظیمیں ان خطوط پر ترتیب دی گئی جنھوں نے امریکی مفادات کی حفاظت کو جذبہ جہاد سے منسلک کر دیا۔ اور پھر صاحبان! پوری دنیا میں ہمارا تشخص ایک دہشت گرد ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ہم دنیا سے کٹتے چلے گئے۔

اس کھیل نے پاکستان کو مکمل طور پر ختم کر ڈالا۔ آج کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ دہشت گرد، سیکڑوں شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ ڈالتے ہیں۔ جہاں چاہیں، جب چاہیں، موت کا کھیل رچا دیتے ہیں۔ یہ سب اس جعل سازی کا نتیجہ ہے جو ہمارا مقتدر طبقہ دہائیوں سے کر رہا ہے اور بدقسمتی سے آج بھی یہ کھیل جاری ہے۔

معروضی طور پر دیکھیے، آج پاکستان میں کون سا حکمران ہے جو ریاست اور عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر سخت ترین فیصلے کر سکے، جیسے پرنس محمد بن سلمان اور ان کے قریبی ساتھیوں نے کیے ہیں۔ ہم ان خود ساختہ مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ شاید اب ہمارے پاس بھی نہیں۔

جان کی امان پاؤں تو کیا پوچھ سکتا ہوں کہ موجودہ عبوری حکومت کس آئین و قانون کے تحت کام کر رہی ہے؟ اقتدار کی منتقلی کس طرح عمل میں آپائے گی؟ بلکہ اب تو میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہ رہا۔ مجھے بھی صبح کی سیر، ورزش کے فوائد، بیماریوں کو دور کرنے کے نسخوں پر کالم لکھنا چاہیے۔

دراصل ہمارے ملک کے مسائل ہر ایک کو معلوم ہیں، مگر اس دور آشوب میں ان پر بات کرنا شجرِ ممنوعہ ہے۔ ہم سے مشرقی وسطیٰ کے ممالک حد درجہ بہتر ہیں جو اپنے ملک اور شہریوں کی جائز دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بدترین دشمن ممالک سے امن معاہدے کر رہے ہیں۔

شہریوں کے لیے آسانیاں اور آسودگی پیدا کر رہے ہیں۔ اپنے قومی مفاد کو عزیز ترین سمجھ رہے ہیں۔ مگر ہمیں اس چیز کی بالکل بھی اجازت نہیں کہ ملکی مفادات کے مطابق کوئی نیا بیانیہ ترتیب دے پائیں۔ ذرا روایتی بیانئے کے برعکس کوئی مثبت بات تو کرکے دیکھیے۔ آپ کو چیر پھاڑ دیا جائے گا؟

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari