ایک ٹریلین ڈالر
بسوا راج بومائی، ہندوستان کی کرنا ٹکا ریاست کا وزیراعلیٰ ہے۔ چند ماہ قبل، فیصلہ کیا کہ صوبہ کو سونے کی چڑیا بنا کر دم لے گا۔ تمام سینئر سرکاری ملازمین، صنعت کار اور معیشت کے ماہرین سرجوڑ کر بیٹھے۔ وزیراعلیٰ کو ایک تفصیلی منصوبہ دیا گیا۔
جس میں درج ہے کہ اگلے دس برس میں صرف اور صرف کرناٹکاکی معیشت، ایک ٹریلین ڈالر تک بڑھا دی جائے گی۔ منصوبہ میں آئی ٹی انڈسٹری سے لے کر زراعت، نوجوانوں کے لیے شارٹ اپ پروگرامز سے لے کر صحت اور پانی کا حد درجہ بہترین نظام، یعنی ترقی کی تمام جہتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔
بسوا راج، بی جے پی کا وزیراعلیٰ ہے اور اپنی ریاست کو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے عدسے سے دیکھتا ہے۔ گزشتہ سال بسوا ورلڈ اکنامک (W۔ E۔ F) میں شرکت کے لیے ڈیوس گیا۔ وہاں بھی کمال کر دکھایا۔ لولو گروپ اور ری نیوپاور کمپنیوں سے پانچ سو بیس ارب روپے کے معاہدے کر ڈالے۔ یہ بیرونی سرمایہ کاری اگلے پانچ برس میں ہوگی۔
اس کے ذہن میں صرف ایک ہی خواب ہے کہ کرناٹکا، ہندوستان کا ہی نہیں، دنیا کا امیر ترین خطہ بن جائے۔ نومبر2022 میں بسوا راج نے بنگلور انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر Statue of Prosperity بنوایا۔ اس کی اونچائی 108فٹ تھی اور یہ تانبے کابنا ہوا ہے۔
مقصد صرف ایک کہ صوبے کو بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری کے ذریعے، صرف چند سالوں میں ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنا کر دکھا جائے۔ یہ صرف خواب نہیں، اس پر عملی کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ تمام قرائن بتا رہے ہیں کہ جامع منصوبہ بندی اور عملیت پسندی سے یہ سب کچھ ممکن ہو جائے گا۔ اس کا ایک ثبوت چھ سو پندرہ ایکڑ پر محیط، ہیلی کاپٹر بنانے کی ایشیاء میں سب سے بڑی فیکٹری کی تعمیر ہے۔
گزارش کرنے کا مقصد صرف ایک ہے کہ جن قوموں نے ترقی کرنی ہوتی ہے اور جن سیاسی قائدین نے اپنے عوام کو خوشحال کرنا ہوتا ہے۔ وہ عام انسان ہی نظر آتے ہیں۔ مگر ان کی منصوبہ بندی اور عمل پسندی، انھیں عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہندوستان کے وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کو دیکھیئے، وہ صرف ترقی کی بات کرتا نظر آتا ہے۔
اس کے برعکس جب میں اپنے محترم ملک کی طرف دیکھتا ہوں تو دل بیٹھتا ہے۔ یہاں کسی بھی سطح کی منصوبہ بندی تو دور کی بات، ملکی تنزلی کے ناپاک اقدامات صاف نظر آتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمسایہ ملک، ہم سے ہر معاملے میں آگے نکل چکا ہے۔ دولت مند ہو رہا ہے۔
لوگ خوشحال ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے بالکل متضاد ہم لوگ انتشار، خلفشار اور ایک دوسرے کی تضحیک میں مصروف ہیں۔ کرپشن ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے۔ ایشیا کے تمام ممالک میں موجود ہے۔ اتنی مہیب کرپشن جس کا تصور بھی کرنا محال ہے۔ اس کے باوجود تمام ملک ترقی کرتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں ہر سطح کی کرپشن، حد درجہ زیادہ ہے۔ اس کے باوجود، ترقی ہوتی جا رہی ہے۔
اس کی کیا وجہ ہے۔ بہت سی وجوہات ہیں۔ مگر ایک بہت بڑی وجہ، نظام حکومت کا تسلسل، شفاف انتخابات اور اقتدار کی بروقت منتقلی ہے۔ ساتھ ساتھ، ریاستی ادارے، آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنے کے عادی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں، ہر ادارہ دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔ اب یہ سب کچھ کھلم کھلا ہو رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اپنی جگہ پر فعال ہیں۔ مگر سوشل میڈیا نے سب کچھ کھول کر ہر ایک کے سامنے رکھ ڈالا ہے۔
ایک سے ایک شرمناک بات واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے۔ ہم نے گزشتہ پندرہ سال تو بالکل ضایع کر ڈالے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ حکمرانوں اور مہربانوں نے تہیہ کر رکھا تھا اور ہے، کہ کسی صورت میں خدانخواستہ ملک ترقی نہ کرلے۔
ہر ادارہ مونہہ میں رام رام اور بغل میں چھری لیے گھوم رہا ہے۔ آہستہ آہستہ یقین ہوتا جا رہا ہے، کہ ہم اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ترقی کے، انسانی فکر کے، آزادی اظہار کے اور سچائی کے۔ جھوٹ کو سچ بنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم ہر طرح کی ترقی سے نفرت کرنے والے لوگ ہیں۔ دور مت جائیے۔
موجودہ سیاسی صورت حال کو پرکھ لیجیے۔ اتنی سیاسی غلاظت ہمارے ہمسایہ ممالک میں قطعاً نہیں ہے۔ اور پھر ہمیں اپنی گراؤٹ پر کوئی شرم بھی نہیں آتی۔ حقیقت میں موجودہ سیاسی نظام، مہربانوں کی فراہم کردہ بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔ وزارت اعظمیٰ پر فائز انسان، کسی صورت میں پراعتماد نظر نہیں آتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے بھرپور طریقے سے ملکی سیاست میں ملوث ہو چکے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دو صوبوں میں عبوری حکومتیں ہیں۔
جن کا مینڈیٹ صرف اور صرف شفاف الیکشن کروانا ہے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت، ن لیگ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اور کے پی میں فضل الرحمن کی جماعت حکومت کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت میں کسی ایک نکتہ پر بھی سیاسی فریقین کی یکسوئی نہیں ہے۔ جھوٹ اتنی تواتر سے بولا جا رہا ہے کہ ہر شخص، ادارہ، گرد آلود ہو چکا ہے۔ اس صورت حال میں اندرونی ا ور بیرونی سرمایہ کاری کیا خاک ہوگی۔
چلتی ہوئی معیشت رک گئی ہے۔ بلکہ اب تو دم توڑ رہی ہے۔ جھوٹ اگر ریاستی پالیسی بن جائے تو سمجھ جایئے کہ مزید بربادی ہونے والی ہے۔ مجھے تباہی آتے ہوئے سامنے صاف نظر آ رہی ہے۔ کوئی بھی اس سے بچنے کے لیے تگ و دو نہیں کر رہا۔ سب اپنے اپنے مفادات کو محفوظ کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔
موجودہ سیاسی دگر گوں صورتحال، حد درجہ مضبوط اور غیر متعصب ریاستی فیصلوں کی متقاضی ہے۔ آج سیاسی لوگوں سے لے کر ریاستی مہربانوں تک کوئی بھی فیصلہ کن نیوٹرل فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ملک میں حقیقی صنعتی انقلاب لانے کی بھرپور کوشش نوازشریف نے دل سے کی تھی۔ مگر وہ سب کچھ حد درجہ ادنیٰ کرپشن اور بونے پن کا شکار ہوگئی۔ اداروں نے ایسا کھیل کھیلا کہ ترقی تو دور کی بات، نوازشریف کو جان کے لالے پڑ گئے۔ اور اسے ملک سے باہر جانے میں ہی عافیت نظر آئی۔ موجودہ صورت حال، اب پیچیدہ ہی نہیں۔ حد درجہ مشکل بھی ہے۔
یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ عمران خان نے جو سیاسی اثاثہ اپنی دور حکمرانی میں ضایع کیا تھا۔ وہ سود کے ساتھ اس کے پاس واپس آ چکا ہے۔ مانیے یا نا مانیے، الیکشن میں عمران خان کو ہرانا ناممکن ہے۔ پنجاب میں بدقسمتی سے ن لیگ اعتماد سے عاری نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسے سیاسی طور پر شکست نہیں دی جا سکتی۔
الیکشن شیڈول کے اعلان ہونے کے بعد پنجاب کی عبوری حکومت کی طرف سے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں پر پابندی کا فیصلہ حد درجہ متنازعہ ہے۔ اس کا کسی قسم کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز موجود نہیں ہے۔
الیکشن ہونا تو ہمارے آئین میں درج ہے۔ اس کی میعاد اور مدت سب کچھ طے شدہ ہے۔ جو ادارہ یا شخص، اس آئین سے صرف نظر کرے گا، وہ تاریخ کے کوڑے دان میں رسوا رہے گا۔ آئین تو خیر برپا ہو کر رہے گا۔ نتیجہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اگر شفاف الیکشن ہوتے ہیں، جس کی کوئی توقع نہیں ہے۔ تو پھر امید ہے کہ نتیجہ خان کے حق میں آئے گا۔
واپس، مرکزی نقطہ کی طرف آتا ہوں۔ معاشی ترقی اور عام آدمی کے لیے خوشحالی۔ شرم کی بات ہے کہ پورے ملک کی جی ڈی پی، چند سوبلین ڈالر کے برابر ہے۔
اس میں بھی مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ کوئی حکومتی منصوبہ بندی نہیں ہے کہ صنعت اور کاروباری ماحول کو کیسے بہتر کیا جائے۔ سینٹرل بینک کے قرضے کے ریٹ نے، ہر کاروبار کو بینکوں کے ذریعے بڑھانا ناممکن بنا دیا ہے۔ پورے ملک میں کوئی ایک ادارہ یا شخص نہیں، جو یہ کہے کہ ملک کو معاشی طور پر کیسے اور کیونکر، دلدل سے نکالنا ہے۔ خیر اب تو ممکن ہی نہیں رہا ہے کہ معیشت کو درست کیا جاسکے۔
یہ اس حد تک کمزور ہو چکی ہے کہ اسے اٹھانا ناممکن ہے۔ مگر کیا کریں۔ اگر کرنا ٹکا ریاست کا وزیر اعلیٰ اپنی معیشت، ہمارے ملک کی مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ بڑھا رہا ہے تو خود اندازہ کر لیجیے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے۔ ہمارا حال، ہمارے آنے والے زوال کی قدرتی پیش بندی ہے۔ یقین نہ آئے تو تھوڑا سا غور وفکر کر لیجیے۔ سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا!