اردو گیت
ڈاکٹر بسم اللہ اپنی تصنیف کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ گیتوں پر تنقید بھی ہے اور گیت نویسوں کا تذکرہ بھی۔ یہ گیتوں کے ارتقا کی تاریخ ضرور ہے لیکن گیتوں کا مجموعہ نہیں۔ نہ ان کا جامع تذکرہ۔ صرف ان چند گیتوں کو منتخب کرلیا گیا ہے جو موضوع اور موقف زیر نظر سے متعلق تھے۔ البتہ جہاں جہاں ممکن ہو سکا ہے گیت کے ذہنی رجحان کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے سماجی اور معاشی محرکات پر بھی نظر ڈالی ہے۔
بسم اللہ نیاز لکھتی ہیں کہ اگر گیت دنیا میں شاعری کی پہلی صنف ہے تو لوری گیتوں میں پہلا گیت ہے۔ ہر ملک کے ادب اور شاعری میں لوریوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے لوری پہلا سبق ہے جو ماں اپنے بچے کو سکھاتی ہے۔ لوری کے ذریعے ہی اس کے ننھے سے دل میں جذبات اور احساسات کو بیدار کرتی ہے۔ لوری ہی ماں کی طرف سے بچے کے لیے آرام و سکون کا پیغام ہے:
آ جا ری نندیا تو آکیوں نہ جائے
میرے بچے کی آنکھوں میں گھل مل جائے
ڈاکٹر بسم اللہ نیاز کا تعارف بیگم شائستہ اکرام اللہ نے کرایا ہے۔ وہ لکھتی ہیں "مسز نیاز احمد ایک خاموش، لگن اور انہماک سے کام کرنے والی خاتون ہیں۔ ان کی تعلیم علی گڑھ مسلم گرلز اسکول اور کالج اور پھر لکھنو آئی ٹی کالج سے ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا، گرلز کالج میں اردو کی لیکچرر ہوئیں۔ پاکستان آنے کے بعد کراچی میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں پڑھایا اور پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔"
ڈاکٹر بسم اللہ نیاز کی صاحبزادیوں، یاسمین محی الدین اور اسما نیاز نے اپنی ماں کی شخصیت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بہت دلکش ہے۔ یاسمین لکھتی ہیں "امی ہر دل عزیز استاد تھیں، انھیں اپنے مضمون اردو سے عشق، پیشے سے محبت اور شاگردوں سے لگاؤ تھا۔ وہ سب امی کی گرویدہ تھیں کیونکہ وہ صرف ایک استاد نہیں تھیں، انھوں نے اپنے کئی شاگردوں کی زندگی سنوارنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔"
اسما نیاز لکھتی ہیں "ہماری والدہ پروفیسر ڈاکٹر بسم اللہ نیاز یعنی جگت بسم اللہ آپا، ایک ہمہ جہت شخصیت تھیں۔ ان کی وسیع القلبی، ان کی علم دوستی، خداترسی، خدمت خلق اور تعلیم نسواں کے ضمن میں ان کی کوششیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔"
یہ بات بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر بسم اللہ نیاز کی کامیابیوں میں ان کے شوہر نیاز احمد صدیقی کا بڑا ہاتھ تھا۔ ان کا تعلق بھی درس و تدریس سے تھا، وہ اردو اور انگریزی میں ایم اے تھے اور فارسی میں کافی دسترس تھی۔ نیاز صاحب اور بسم اللہ آپا دونوں کا علی گڑھ یونیورسٹی سے ساتھ تھا۔ نیاز صاحب انتہائی قابل، روشن خیال اور مہذب انسان تھے۔ ڈاکٹر بسم اللہ کا کراچی میں 1987 میں انتقال ہوا اور پورے دو سال بعد نیاز احمد صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسکول میں، میں نے ان سے پڑھا ہے، وہ ہمارے استاد تھے۔ پھر بہت برسوں کے بعد جب کراچی میں اظہار برنی کے گھر اچانک ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے پہچان لیا اور شفقت سے گلے لگایا۔ مجھے یہ خوشی تھی کہ وہ اپنے شاگرد کو بھولے نہیں۔
ڈاکٹر بسم اللہ نیاز نے اپنی تصنیف "اردو گیت" ان گمنام اور بے نام و نمود عورتوں کے نام منسوب کی ہے جو "صدیوں سے اردو میں گیت تصنیف کرتی آئی ہیں لیکن تشخص اور تخلیص سے گریز پا رہیں اور لطیف نسوانی جذبات کو لوچدار اور میٹھی آوازوں کے سادہ اور پرکار صوتی پیکروں میں ڈھال ڈھال کر سینہ بہ سینہ ہم تک منتقل کرتی رہیں۔" اس تصنیف میں جو ان کا پی ایچ ڈی کا بڑی کاوش و محنت سے لکھا مقالہ ہے انھوں نے گیت کی تعریف اور خصوصیات، ان کی ابتدا اور تاریخی پس منظر، گیتوں میں رومانی، سیاسی اور عوامی عنصر کے عنوانوں کے تحت گیتوں کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ حفیظ جالندھری اور ساغر نظامی کے گیتوں کا ذکر کیا ہے۔ میرا جی کے بارے میں وہ لکھتی ہیں کہ ہندوستان میں آزادی کی تحریک کے دنوں میں سب سے زیادہ گیت انھوں نے لکھے ہیں۔
"گیت اور فلمی دنیا" کے عنوان سے بسم اللہ نیاز نے فلموں کے لیے لکھے گئے گیت اور ان گیتوں کے لکھنے والے شاعروں کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ فیض نے فلمی گیتوں کو اردو ادب میں ایک مقام دلوانے کے لیے جہاد کیا بلکہ ان گیتوں کی سطح کو اور بلند کردیا۔ اس لیے وہ اردو زبان کے ان نوجوان شعرا کے سرخیل ہیں جنھوں نے فلمی نغموں کو تخلیقی شاعری کے پہلو بہ پہلو کھڑا کیا اور پھر اسی نئی صنف کے ذریعے سماجی اور سیاسی نظریوں کو معاشرے کے مزاج میں داخل کیا اور اس مزاج کو گیتوں میں سمو کر ان نظریوں کو عوام تک پہنچانے کا اہتمام فراہم کیا۔"
ڈاکٹر بسم اللہ نیاز نے "قومی گیتوں " کا دور جمیل الدین عالی کے نام کیا ہے اور انھیں گیتوں کے رسیا قرار دیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ان کی شاعری اور ان کے گیتوں نے ارتقائی منازل سے گزر کر وہ شکل اختیار کی ہے جسے قومی گیت کے نام سے پکارا جا رہا ہے اور یہ قومی گیت وہ ہیں جو قوم اور ملت کے جذبات، احساسات، امید و بیم، فخر و مباہات اور اجتماعی مزاج کی آئینہ داری کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بسم اللہ نیاز کی یہ قابل قدر تصنیف راشد اشرف نے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کرکے اچھا کام کیا ہے کہ تاریخ، تنقید اور تحقیق کے میدان میں اردو گیتوں پر یہ ایک منفرد تحریر ہے۔