تنم فرسودہ جاں پارہ ز ہجراں یارسولؐ اللہ
ایک بار پھر اللہ نے اس عالم پیری میں ان معطر فضائوں میں چند روز سانس لینے کی سعادت عطا فرمائی۔ جس میں فخر موجودات، محسن انسانیت، سید الانبیاء اور شافع روز جزا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وجود مبارک کی مہک آج بھی عشاق کے دلوں کو زندہ کرتی ہے، بے سکون روحوں کو سکون بخشتی ہے اور معصیت سے بھرے انسانوں کو مغفرت کی آس دلاتی ہے۔ ہر دفعہ جب بھی اس دیار میں آنے کا شرف حاصل ہوا ہے ایک ذاتی دکھ اور اس دکھ کے حوالے سے ان لاکھوں امتیوں کا دکھ ساتھ لے کر آتا ہوں۔
ذاتی دکھ میرے والد کی زندگی کا وہ کرب ہے، جواس سرزمین کے دیدار کی محرومی کی وجہ سے اپنے دل میں بسائے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں نے رسول رحمتؐ سے محبت اپنے والد کی انگلی پکڑ کرسیکھی۔ وہ عشق جن منزلوں سے شناسا تھا جیسے ان کی آنکھیں میرے پیارے آقاؐ کے ذکر سے نم ہو جایا کرتی ہیں، نہ اس کیفیت کی ایک جھلک میسر ہو سکی اور نہ ہی وہی تڑپ۔ پہلی دفعہ جب 1989ء میں اس در کی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تو ان کی صحت سفر کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
میں نے واپسی پر اتنا ذکر کیا کہ میں نے آپ کو روضہ رسولؐ پر یاد کیا۔ آپ کا سلام عرض کیا، گگھی بندھ گئی، فرط مسرت سے حالت غیر ہو گئی، میرا منہ ماتھا چومنے لگے اور ایسے میرے ممنون احسان ہوتے گئے جیسے میں نے انہیں دنیا جہان کی نعمتیں لا کر دے دی ہوں۔ مدینہ آنے سے پہلے جامی کی لاتعداد نعتوں اور اقبال کے دیوانہ وار محبت سے بھرپور اشعار میں نے ان سے ہوش سنبھالتے ہوئے سننا شروع کئے اور پھر ایک ایک شعر پر ان کی جو کیفیت ہوئی، وہ میری ذات کے ہر موسم میں عمر بھر رچ بس گئی۔
ہر کیفیت اور حال میں ان کو رسول اکرم ﷺ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی شعر یاد تھا، جسے پڑھتے اور پھر غربت و افلاس اور عسرت و ناداری کے عالم میں بھی ان کے چہرے پر اطمینان دوڑ جاتا۔ ایسے لگتا جیسے اس مفلوک الحال اور غریب امتی کو میرے آقاؐ نے تسلی دی ہے۔ دنیا کے اس امتحان میں ثابت قدم رہنے کے لیے سہارا دیا ہے۔ کتنے لوگ آج بھی ایسے ہیں جو اس سرزمین پر آنے کے لیے ویسے ہی بے تاب ہیں، ان کی آنکھوں میں ویسے ہی تڑپ کے آنسو ہیں جیسے میرے والد کی آنکھوں میں ہوا کرتے تھے لیکن وہ اپنی تنگ دامانی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اس دیار کی حاضری سے محروم ہیں۔
ایسے کسی شخص سے ملتا ہوں تو یکدم اس کا چہرہ میرے والد کے چہرے میں ڈھل جاتا ہے اور پھر میں زیادہ دیر اس کے چہرے کی تاب نہ لا سکتا۔ دوری کے احساس میں عشق رسول ﷺ کی یاد میں روشن چہرہ۔ اس دفعہ سرکار دو عالمؐ کے شہر آیا ہوں تو وہ سارے محروم چہرے آنکھوں کے سامنے روشن نظر آ رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو گنبد خضرا کے سامنے والے صحن میں بیٹھے ہوئے اور سیدہ فاطمہ ؓ کے حجرے کی جالیوں کو دیکھتے ہوئے کہ جن کے ساتھ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے میں میرے آقاو مولا ہیں۔ مجھ پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مجھے مولانا جامی کی وہ نعت بار بار ویسے ہی سنائی دیتی ہے جیسے میرے والد اسے آنسوؤں اور ہچکیوں میں پڑھا کرتے تھے۔
یوں لگتا ہے وہ سب محروم دید لوگ جو رسول اکرم ﷺ سے عشق کرتے ہیں لیکن اس شہر کی دید سے محروم ہیں، جامی کی یہ نعت مل کر پڑھ رہے ہوں۔
تنم فرسودہ جاں پارہ زہجراں یارسولؐ اللہ
دلم پژمردہ، آوارہ زعصیاں یا رسولؐ اللہ
"اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ سے دوری کی وجہ سے میرا جسم نڈھال اور جان ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے اور میرا دل گناہوں کی وجہ سے مرجھا کر بھٹک رہا ہے۔
"چوں سوئے من گزر آری، من مسکین ز ناداری
فدائے نقش نعلیست کنم جاں، یارسولؐ اللہ
"اے رسول اکرمؐ اگر آپ کبھی میری جانب تشریف لے آئیں تو میں جو ایک مسکین و نادار شخص ہوں، میں عجز کے عالم میں آپ کے نعلین مبارک سے زمین پر جو نقش بنیں ان پر اپنی جان قربان کردوں۔ "
زجام حب تو مستم، بازنجیر تو دل بستم
نمی گویم کہ من ہستم سخنداں، یارسولؐ اللہ
"آپ کی محبت کے جام سے میں مست ہو چکا ہوں اور میرا دل آپ کی زنجیر سے بندھا ہوا ہے۔ میرا کوئی دعویٰ نہیں کہ میں ایک سخنور (دکھنے والا) ہوں، یہ تو سب آپ کی حمیت کی وجہ سے ہے۔ "
زکردہ خویش حیرانم، سیاہ شدروز عصیانم
پشیمانم، پشیمانم، پشیماں، یارسولؐ اللہ
"میں اپنے اعمال کی وجہ سے حیران و پریشان ہوں، اس لیے کہ میرا مقدر میرے گناہوں کی وجہ سے تاریک و سیاہ ہو چکا ہے۔ یارسول اللہ، میں بہت پشیمان ہوں، بہت پشیمان۔ "
چوں بازوئے شفاعت راکشائی برگناہگاراں
مکن محروم جامی رادرآں، یارسولؐ اللہ
"یارسولؐ اللہ آپ کی شفاعت کے بازو تو تمام گناہ گاروں کے لیے کھلے ہیں، ایسے میں جامی کو بھی اپنی شفاعت سے محروم نہ رکھئے گا۔ "اس نعت کا یہ مصرعہ "پشیمانم، پشیمانم، پشیماں یارسولؐ اللہ پڑھتے ہوئے میں نے اپنے والد سمیت لاتعداد عشاق رسول کو خجالت و شرمندگی اور عجز و انکساری سے ایک ایسے عالم گریہ میں دیکھا ہے کہ اگر اس کا ایک لمحہ بھی نصیب ہو جائے تو دنیا کی تمام نعمتوں سے بالاتر ہے۔ عجز وانکساری تو اس در کی حاضری کی شرط اول ہے۔ تصوف کے امام سید الطائفہ حضرت جنید بغدادیؒ اور بایزید بسطامیؒ کی اس مقام پر حاضری کی کیفیت کا عالم یہ ہونا۔
ادب گا ہیست زیر آسماں در عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید، جنیدوبایزید ایں جا
"یہ ادب کا مقام ایسا ہے جو اس آسمان تلے عرش سے بھی نازک تر ہے۔ یہاں تو جنید و بایزید اپنے وجود کو بھول کر حاضر ہوتے تھے۔ "
اس شہر سے محبت کرنے والوں نے اس کی خاک کے ذروں سے بھی عقیدت کی ہے اور کیوں نہ کرے، سیدالانبیاؐء نے خود خاک مدینہ سے محبت کی ہے، جو کوئی اس کی گردسے بچنے کے لیے منہ ڈھانپتا، آپؐ ناراض ہو جاتے لیکن در اور اس شہر سے محبت کی معراج کا یہ عالم اقبال کے اس شعر میں ہے کہ جس میں مذہب عشق کا راج ہے اور عالم شوق کی وارفتگی ہے۔ اس زمانے کے سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سجودے نیست اے عبدالعزیزی
پروبم ازمژہ خاکِ دردوست
"اے عبدالعزیز! میں یہاں سجدہ تو نہیں کر رہا۔ میں تو دوست کے دروازے پر پلکوں سے جھاڑو دے رہا ہوں۔ "کون ہے جو یہاں آ کر اپنی حالت نہ بھول جائے۔ کون ہے جسے اپنی خوش بختی پر ناز نہ ہو، مگر وہ لاکھوں عشاق جن کی آرزوئیں تڑپتی ہیں، یہ بے آسرا، کم مایہ محروم لوگ، یارسولؐ اللہ اس دفعہ بہت یاد آئے۔