ریاست مدینہ اور سودی بینکاری کا خاتمہ (2)
ریاست مدینہ کی طرز پر مملکت کا جو خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ اس کی بنیاد سودی بینکاری کے نظام کی مکمل تباہی اور بربادی کے بعد ممکن تھی اور اس تباہی کے لیے سب سے پہلے پھاوڑا جس شخص نے اپنے ہاتھ میں پکڑا وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ ایک ایسا شخص جسے لوگ آج تک مغربی تہذیب میں سر سے لے کر پاؤں تک ڈوبا ہوا قرار دیتے ہیں۔ وہ عظیم قائد اور ریاست مدینہ کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان کا معمار اول پاکستان کی تاریخ میں مغربی معاشی نظام کا سب سے بڑا ناقد اور نکتہ چین تھا۔
اپنی زندگی کی آخری تقریر انہوں نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بنک کے افتتاح پر کی اور نہ صرف سٹیٹ بنک عمارت کا فیتہ کاٹا بلکہ غیر سودی معاشی نظام کا بھی افتتاح کر دیا۔ اس تقریر کے اصلی انگریزی متن کو یہاں درج کر رہا ہوں کہ یار لوگ کہیں قائد اعظم سے غلط بات منسوب کرنے کا دعویٰ نہ کریں۔ فرمایا:
I shall Watch with to Keeness the work of you research organization in evolving banking practices compatible with Islamic ideas of social and economic life. The Economic system of the west has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world."
میں ذاتی طور پر آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن کے کام کو عرق ریزی سےدیکھوں گا کہ وہ کیسے بینکاری نظام کو اسلام کے معاشی اور معاشرتی تصورات کے مطابق ترتیب دیتی ہے۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس نظام کو تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ "بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی، قائد اعظم اس معاشی نظام کو دو عالمگیر جنگوں کا ذمہ ٹھہراتے ہیں۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم کے معاشی نظریات کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ یہاں ہر شخص یہ عزم لے کر اٹھتا ہے کہ وہ پاکستان کو قائد اعظم کا حقیقی پاکستان بنائے گا۔ جب کہ ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان اللہ کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے اور اس ملک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرمان ہی کو نافذ ہونا چاہیے، خواہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے فرامین اس سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن سودی معیشت کے معاملے میں تو اقبال اور قائد اعظم دونوں اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق تلواریں سونت کر کھڑے ہیں۔
قائد اعظم کا پاکستان ایک غیر سودی پاکستان ہے اور یہی ریاست مدینہ کی خشت اول ہے۔ آج کے معاشی پنڈت قائد اعظم اور علامہ اقبال کو بڑی آسان سے خواب کی دنیا میں رہنے والے اور گزشتہ صدی کے قدیم خیالات کے حامی پکار کر عمران خان کو گمراہ کر سکتے ہیں اور اس کی دو تین اہم دلیلیں یہ لوگ پیش کرتے ہیں۔ جن میں نمبر ایک یہ کہ دنیا ایک گلوبل گائوں بن چکا ہے اور ہم اس بینکاری سسٹم سے باہر نہیں رہ سکتے۔
نمبر 2یہ کہ اس سے معاشی ترقی ہوتی ہے، بڑے بڑے پراجیکٹ کئے جا سکتے ہیں نمبر 3یہ کہ اگر ہم اس نظام کو ترک کر دیں تو اس کا متبادل کیا ہو گا اور اگر کوئی ان تینوں سوالوں کا تسلی بخش جواب دے دے تو پھر آخری تیر یہ پھینکا جاتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے دور میں لیا جانے والا سود اور آج کا بینکاری سود دونوں مختلف ہیں۔ سب سے پہلے آخری سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں تاکہ وہ ابہام جو بعد میں پیدا ہوتا ہے، اسے شروع ہی سے دور کر لیا جائے۔
عربی میں "ربائ" فارسی اوراردو میں "سود" ہندی میں "بیاج" اور انگریزی میں Usuryایسے الفاظ ہیں جن کے معانی و مطالب ایک ہیں اور تمام معاشروں میں ان کی ایک ہی تعریف پائی جاتی ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی کتاب "اے ہسٹری اور ویسٹرن فلاسفی" میں اس لفظ کے مطالب کو سمو دیا ہے۔ یہ معاشرے میں سود (Usury)کی لعنت کا نچوڑ ہے۔
the most hated sort, and with greatest reason is usury: which makes a gain out of money it self and not from its natural object of it"
منطقی دلائل کے مطابق سب سے قابل نفرت آمدنی سود (یوژری) ہے جس میں دو پیسے سے نفع کمایا جاتا ہے نہ کہ اس سے خرید کردہ مال سے جو اس کا قدرتی ذریعہ ہے" آج کے دور کا بینکاری منافع بھی صرف روپے سے دولت بناناہے اور اس روپے سے کوئی چیز خرید کر منافع حاصل نہیں کیا جاتا۔ بنک کا کھاتہ دار کوئی کاروبار نہیں کرتا۔ ہندو سماج میں اسے بیاج کہتے ہیں اور ان کے مذہبی قوانین کی کتاب "منوسمرتی" کو جب عربی میں چھ صدیاں پہلے ترجمہ کیا گیا تو بیاج کی جگہ رباء تحریر ہوا۔
چونکہ ہندو معاشرہ ذات پات میں جکڑا ہوا تھا، اس لیے بیاج یعنی سود لینے کی مختلف قوموں سے مختلف شرحیں مقرر کی گئیں، برہمن سے دو فیصد، کھشتری سے تین، ویش سے چار اور شودر سے پانچ فیصد "بیاج" وصول کیا جائے اور پانچ فیصد سے زیادہ سود یا بیاج حرام ہے۔ انجیل مقدس میں تو قوانین بہت سخت ہیں "تم اپنے بھائی سے اضافے کے ساتھ سود وصول نہ کرو بلکہ خداوند سےڈرتے رہو تاکہ تمہارا بھائی تمہارے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔
تمہیں اس کو سود پر پیسہ نہیں دینا چاہیے۔ نہ ہی خوراک اضافے کی شرط پر ادھار دینی چاہیے، نہ (Leviticus 25، 29)۔ حضرت عیسیٰ نے مذمت کی ان لوگوں کی جو سود اور ناجائز منافع سے پیسہ کماتے ہیں۔ ایک خطاب میں کہا"تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی سے سود وصول کرتا ہے، میں نے ان کی پکار سنی، بہت ناراض ہوا، اور شرفاء اور حاکموں سے کہا کہ میں تمہارے خلاف ایک بڑا اجتماع کھڑا کرتا ہوں (مزامیر15، 13) یہودیت میں بھی ربائ، سود یا بیاج کی ممانعت ہے۔
ایک جیسے احکامات ہیں "جس نے سود پر مال دیا اور اس پر اضافہ وصول کیا، کیا وہ جینے کے لائق ہے، وہ ہرگز نہیں جئے گا کیونکہ اس نے تمام رذائل کا ارتکاب کیا ہے۔ (Ezekiel، 18، 4، 25)۔ اس وقت دنیا میں موجود تمام مذاہب کے عالم اور معیشت کے ماہرین سود، بنک کے منافع، بیاج اور رباء میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ ان سب کے نزدیک صرف روپے دے کر اس کے ساتھ بغیر کسی کاروبار کئے کوئی چیز خریدے یا بیچے، اگر زائد رقم وصول کی جائے وہ رباء اور سود ہے۔ دنیا کا ہر بنک اپنے کھاتے داروں کو صرف اور صرف ایک ترغیب دیتا ہے کہ تمہارا سرمایہ ہمارے پاس بڑھتا چلا جائے گا۔
تمہیں کام کرنے، غور و فکر کرنے اور کسی دھندے میں جی لگا کر پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی لیے بنک کے منافع پر فقیہہ امت نے وہی سود قرار دیا ہے جو قرآن میں منع ہے اور جس کے خلاف اللہ اور اس کے رسولؐ نے اعلان جنگ کیا اور فرمایا لعنت سود لینے والے، دینے والے، رکھنے والے اور گواہوں پر اور فرمایا سب برابر ہیں (مسلم1599)۔ اللہ اور اس کے رسولؐ، ہمارے قائدین اقبال اور قائد اعظم کے بعد اگر سود کی تعریف پر اتفاق ہو جائے تو ماہرین کے اس خوف کا کیا کیا جائے کہ صرف اس سے ہی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ دنیا بھر کے معیشت دان اس پر متفق ہیں کہ سود کا ستیاناس ہوتا ہے اور کینزkeynesان کا سرخیل ہے۔ (جاری ہے)