ہر عہدِ کربلا نے پکارا ہے اس کا نام
عہد کربلا کیا ہے۔ گزشتہ چودہ سو سال سے یہ مسلم ادب، تہذیب اور سیاست کا استعارہ کیوں چلا آ رہا ہے۔ کیا یہ صرف خانوادۂ رسولؐ پر کئے گئے بہیمانہ ظلم کی داستان ہے، جس پر ہر سال چند دن سوگواری اور ماتم میں گزارنے کے بعد پوری امت اپنے روز مرہ کاروبارِ زندگی میں مگن ہو جاتی ہے۔ شہروں، گلیوں، محلوں اور کوچہ و بازار میں یکم محرم سے عاشور کی رات تک داستانِ مظلومِ کربلا بیان ہوتی ہے۔
اخبارات میں مضامین لکھے جاتے ہیں، ریڈیو پر سوز و سلام کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور پھر گیارہ محرم کو سب کچھ واپس لوٹ آتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے رمضان المبارک کے مہینے کے دوران تزکیہ نفس اور قلوب کی طہارت کی گفتگو ہرجگہ سنائی دیتی ہے، لیکن عید کا چاند نظر آتے ہی سب کچھ ویسے کا ویسا ہو جاتا ہے جیسے رمضان سے پہلے تھا۔ کیا ہمیں پوری زندگی میں ہر روز جھوٹ، غیبت، بے ایمانی، فحاشی و عریانی اور ایسے لاتعداد گناہوں کا روزہ نہیں رکھنا۔
رمضان جس طرح ایک ایسی تربیتی ورکشاپ میں ایک مہینہ گزارنے کا نام ہے جس کی تربیت کا اثر باقی گیارہ ماہ قائم رہے اور اگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ آدمی میں سستی، کاہلی اور گناہوں سے اجتناب میں کمی آنے لگے، تو اگلا رمضان دوبارہ ایک تربیتی ورکشاپ لیے موجود ہوتا ہے کہ آؤ اس ماحول میں اپنے نفس کا تزکیہ کر کے خود کو تازہ دم کر لو۔ لیکن ایک بہت بڑی اکثریت چونکہ اس ایک ماہ کو شرعی ضرورت کی قید کے طور پر لیتی ہے، اسی لیے باقی گیارہ ماہ رمضان کا اثر نہیں رہتا۔
کربلائی یاد کے دس دن بھی ہم لوگ ویسے ہی گزارتے ہیں۔ دونوں بڑے مسالک کے لوگ اپنے اپنے نظریے کے مطابق خانوادہ، رسول ﷺ کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ظلم و بربریت کی داستانیں بیان ہوتی ہیں اور صبر و استقامت کے پرچم بلند ہوتے ہیں۔ لیکن ہر سال اس عظیم شخصیت کی چودہ سو سال سے یاد منانے کے بعد اقبال کو یہ ماتم کرنا پڑتا ہے:قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فراتکیا کربلا صرف دشتِ نینوا میں فرات کے کنارے 61ہجری کو سیدنا امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی المناک شہادت اور یزید کی بادشاہت میں ابن زیاد کی شفاوت کی ایک داستان ہے۔
اگر یہ صرف ایک المناک تاریخ ہے تو پھر آج تک اتنا بڑا استعارہ کیوں ہے کہ اقبال کو تیرہ سو سال بعد یہ صدا بلند کرنا پڑتی ہے:رمزِ قرآن از حسین آمو ختیمزِآتشِ اُو شعلہ ہا اندوختیمترجمہ: میں نے سیدنا حسینؓ سے قرآن کی رمزیں سیکھیں ہیں اور آپ کی آگ سے میں نے کئی شعلے حاصل کئے ہیں:نقش اِلا اللہ برصحرا نوشتسطرِ عنوانِ نجاتِ مانوشتترجمہ:انہوں نے خون کے ہر قطرے سے صحرا پر الااللہ کا نقش رکھ دیا اور نقش نہیں امت کی نجات کا مضمون لکھ دیا۔
یہ "نقش الااللہ" کیا ہے جو کربلا کے ریگزار پر سیدنا امام حسینؓ نے اپنے خون سے تحریر کیا۔ یہ دنیا کے ہر اس شخص، حکمران، بادشاہ اور ملک سے انکار کا اعلان ہے اور صرف ایک الٰہ یعنی اللہ سبحان و تعالیٰ کی بادشاہت اور تمام زندگی پر حاکمیت کا اعلان ہے۔ یہ تمام الٰہ، تمام حاکم، تمام معبود کون ہیں جن کا انکار سیدنا امام حسین کو کربلا میں لے آیا۔ یہ تمام الٰہ اور حاکم صرف ایک تصور سے جنم لیتے ہیں اور جس فرد میں یہ تصور پیدا ہو جائے اللہ نے رسول اکرم ﷺ کو بھی اس سے بری الذمہ ہونے کے لیے فرمایا ہے۔
سورۃ الفرقان کی 43ویں آیت میں اللہ فرماتا ہے "کیا آپ نے (اے محبوب ﷺ)اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو۔ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو(الفرقان:43) خواہشات نفس کو اپنا معبود اور اپنا الٰہی بنانے کا سب سے واضح اظہار اقتدار کی صورت میں نظر آتا ہے۔ جب انسان اپنی خواہشات نفس کو معبود بناتے ہوئے زمین پر اللہ کی نہیں اپنی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ہر رکاوٹ سے لڑتا ہے اور توانا و کمزور کو نیست و نابود کرتا ہے۔
سیدالانبیاء ﷺ کی تیار کردہ جس ٹیم، سابقون الاولون کے جس گروہ نے ریاست مدینہ کی صورت میں میراثِ رسولﷺ کو قائم رکھتے ہوئے ایک ایسی حکومت قائم کی تھی، جس میں واحد و حقیقی الٰہ یعنی اللہ سبحان و تعالیٰ کی بادشاہت کا اعلان تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنؓ وحدانیت الٰہی اور حاکمیت پروردگار عالم کے علمبردار تھے اور اسلام کی گاڑی اپنے سفر پر روانہ تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی گاڑی، کوئی ٹرین یامنہ زور سواری اپنا راستہ بدلنے لگتی ہے تو ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم بہت دور نکل جائیں گے۔
ریل کی پٹریاں جدا ہوتے ہوئے دیر تک ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ سڑکیں اور راستے جدا ہوں تو دونوں جانب سے مسافر دیر تک آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں اور عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہم دور نہیں جائیں گے۔ ہم نے راستہ جدا نہیں کیا۔ لیکن وہ جو صاحب نظر ہوتا ہے، جسے معلوم ہوتا ہے کہ قافلہ سالار نے راستہ بدل لیا ہے، انجن اپنے ڈبوں کو دوسری سمت لے جا رہا ہے تو پھر خواہ اس کے عہد کے لوگ رستہ بدلتا ہوا محسوس نہ بھی کریں، وہ سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر اس میں اس کی جان بھی چلی جائے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا۔
لیکن اس کا خون رہتی دنیا تک یہ بتاتا رہتا ہے کہ تم نے راستہ بدل لیا ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کی قربانی آج بھی یہ اعلان کرتی چلی آ رہی ہے کہ امت نے راستہ بدل لیا ہے۔ خلفائے راشدینؓ گاڑی کو جس سمت لے جا رہے تھے اس نے آہستگی سے جو موڑ موڑا، اس میں سید الانبیاء ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق کاٹ کھانے والی ملوکیت کا سلسلہ ایسا چلا کہ بنو امیہ، بنو عباس، عثمانی، سلجوقی، صفوی، مغل اور خانوادۂ زرداری و نواز شریف تک چلتا چلا جا رہا ہے۔ ہم مسلسل عہدِ کربلا میں ہیں، ہم پر مسلسل وہ لوگ مسلط ہیں جنہوں نے خواہشات نفس کو غلام بنایا ہے۔
ہمارے قافلۂ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں جبکہ دشت کربلاکی ویرانی میں ہم بھٹک رہے ہیں۔ قافلہ کلمہ حق کے سالار سیدنا امام حسینؓ کے حضور ایک سلام کے چند اشعار ہی میرا اثاثہ ہیں:چشم ستم زدہ کا ستارا ہے اس کا نامہر عہدِ کربلا نے پکارا ہے اس کا ناماک حوصلے کا باب ہے دربارِ جبر میں اک موجِ تندو تیز کا دھارا ہے اس کا نامغربت ہو، پیاس ہو کہ مسافت ہو عمر کیطوفانِ فصلِ غم میں کنارہ ہے اس کا نامہم وارثان کوفۂ و بازارِ شام ہیں کس منہ سے ہم کہیں کہ ہمارا ہے اس کا نامگم ہے ہوائے دشت میں تکبیر حق صفت حرف دعا پہ سب نے اتارا ہے اس کا نام۔