بھارت کی افغانستان اور ایران دوستی کے مقاصد اور انجام (2)
پاکستان کے خلاف افغانستان میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے بھارت کا راستہ ایران سے ہو کر جاتا ہے۔ افغانستان اور بھارت کے درمیان پاکستان حائل ہے جس کے وجود سے نفرت پر اس بھارتی سیاسی گروہ کا نعرہ ہے جو اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ بھارت کے اقتدار کا راستہ پاکستان سے دشمنی، مسلمانوں سے نفرت اور عظیم اکھنڈ ہندو توا کی پگڈنڈیوں سے ہو کر جاتا ہے۔
چانکیہ کے اصولوں پر مرتب کردہ بھارتی خارجہ پالیسی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ دشمن کے پڑوسی ملک سے دوستانہ تعلقات استوار کرو۔ جب تک ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت رہی، بھارت کو وہاں دوستی کا ہاتھ میسر نہ آ سکا۔ بلکہ 1965ء کی جنگ میں ایران نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ لیکن 1979ء وہ سال ہے جس نے خطے کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ یکم فروری کو آیت اللہ خمینی کا جہاز تہران ایئر پورٹ پر اُترا اور 24دسمبر کو روس نے افغانستان میں اپنی افواج داخل کر دیں۔ اس کے بعد بھارت کو ان دونوں ممالک کے ساتھ بیک وقت تعلقات استوار کرنے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع مل گیا۔
افغانستان چونکہ اس کے بعد ایک ایسا جنگ زدہ خطہ بن گیا جہاں مجاہدین کے مختلف گروہ روس سے لڑ رہے تھے۔ اس لئے اس دوران بھارت نے روس کی کٹھ پتلی حکومت سے بھی تعلقات بنائے اور ایران سے اپنے تعلقات استوار کر کے ان مجاہدین گروہوں کی بھی خیر خواہی حاصل کی جو ایران کے زیر اثر تھے۔ یوں براستہ ایران بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ صرف طالبان حکومت کے پانچ سال ایسے تھے جب بھارت صرف اور صرف ایران سے دوستی تک محدود ہو گیا یا پھر طالبان سے لڑنے والے شمالی اتحاد کی براستہ ایران و تاجکستان مدد کرتا رہا۔
ایران سے بھارت کی دوستی کے مقاصد لاتعداد ہیں۔ عالمی طاقتیں ہمیشہ سے یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اپنے مغرب اور شمال میں واقع ایران، افغانستان، ترکی اور وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں کی بجائے جنوبی ایشیا یعنی بھارت، نیپال، سری لنکا کے گروپ میں شامل رہے۔ اس لئے آج تک ان دس مسلمان ملکوں کی تنظیم ای سی او کو فعال نہیں ہونے دیا گیا اور اسی میں بھارت کا مفاد شامل تھا۔
ایران پر مدتوں سے معاشی پابندیاں عائد تھیں لیکن عالمی طاقتوں نے اسے بھارت کے ساتھ معاشی، فوجی اور ٹیکنالوجی کے معاہدات کی پس پردہ اجازت دے رکھی تھی۔ بھارت اور ایران کا ایک جائنٹ منسٹریل کمیشن ہے جو ان معاملات کو مشترکہ طور پر دیکھتا ہے۔ اسی کی وجہ سے ایران نے بھارت کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں مستقل ممبر(جسے ویٹو کا حق ہوتا) کی حیثیت سے شمولیت کی حمایت کی۔ اسی کمیشن کی وجہ سے ایران نے کشمیر کو اپریل 1993ء میں دونوں ملکوں کو اندرونی مسئلہ قرار دیا۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد جب امریکی افواج عالمی برادری کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوئیں تو بھارت اور ایران نے افغانستان کے کیک میں مشترکہ حصہ حاصل کرنے کے لئے جنوری 2003ء میں باہمی مفاد کے لاتعداد معاہدوں پر دستخط کردیئے۔ بھارت نے ایران کی روسی آبدوزوں اور مگ فائٹر جہازوں کو اپ گریڈ کرنا اور نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی اس معاہدے پر دستخط بھی ہو گئے کہ بھارت پاکستان سے جنگ کی صورت میں ایرانی فوجی اڈے استعمال کر سکتا ہے۔
بھارت نے بندرعباس، بندرخمینی اور بندربو شہر کی بحریہ کی تنصیبات کو جدید بنایا اور آبدوزوں کی جنگ کی ٹریننگ دی۔ لیکن مئی2016ء میں پاکستان سے افغانستان کو کاٹنے کے لئے سب سے بڑے منصوبے چاہ بہار بندرگاہ پر کام کے آغاز کا معاہدہ کیا گیا۔ پابندیوں کے باوجود بھارت ہر سال ایران سے اوسطاً 15ارب ڈالر کا تیل خریدتا رہا اور تمام عالمی طاقتیں خاموش رہیں۔ بھارت کا ایران سے تیل خریدنے کا 29سالہ معاہدہ ایران کے دریافت شدہ تیل کا 17فیصد حصہ خریدنے کا ہے۔ اس کے ساتھ ایران پابندیوں کے باوجود بھارت کو 50لاکھ ٹن مائع گیس سالانہ فراہم کرتا رہا ہے۔
افغانستان کو سمندری راستہ دینے کے لئے چاہ بہار سے زرنج اور دل آرام روڈ پر بھارت نے سات کروڑ پچاس لاکھ ڈالر خرچ کئے اور ایران، بھارت اور افغانستان کے درمیان اس بندرگاہ کو استعمال کرنے کا معاہدہ طے پایا۔ اس کے علاوہ ممبئی سے روس کے شہر سینٹ پیٹر برگ تک تمام علاقے میں سڑکوں کا جال بچھانے اور سمندری راستوں کو ملانے کا معاہدہ 2002ء میں کیا گیا۔ ہر سال آٹھ ہزار ایرانی طلبہ بھارتی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
بھارت کے ایران سے مقاصد میں توانائی کی ضروریات پوری کرنا، باب المندب سے لے کر ملائشیا کے ساحلوں تک بحر ہند اور خلیج کے علاقوں پر بھارتی ایرانی بالادستی قائم کرنا، کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد پر خطے سے حمایت کا خاتمہ کرنا، پاکستان کو کسی ایسے علاقائی اتحاد سے دور رکھنا جس میں اسلامی ملک شامل ہیں۔ جبکہ ایرانی مفاد میں سب سے پہلے نمبر پر اپنی تنہائی کا خاتمہ اور تیل و گیس کو بیچنا ہے اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا ہے۔
ان دونوں کی دوستی اس بات پر مزید گہری ہے کہ کسی بھی حال میں افغانستان کو اپنی گرفت سے نہیں نکلنے دینا۔ یوں بھارت کا براہ راست مقصد پاکستان کے خلاف افغانستان میں ایک مضبوط مرکز قائم کرنا ہے جبکہ ایران کا مقصد وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کر کے بالواسطہ پاکستان کے مفادات کو کمزور کرنا ہے۔ اس کے لئے بھارت نے افغانستان میں بے شمار سرمایہ خرچ کیا۔
چاہ بہار سے ملانے کے لئے 218کلو میٹر روڈ افغانستان میں بھی بنائی، تقریباً86توانائی کے پراجیکٹ بنائے، افغانستان کے کابل ٹی وی کو ہر شہر تک پہنچانے کے لئے ڈائون لنک مہیا کئے۔ بچوں کی صحت کا عالمی سطح کا اندراگاندھی ہسپتال بنایا، کابل کی سفری سہولیات کے لئے 109بسیں دیں۔ 286فوجی ٹرک دیئے، 10ایمبولینسیں دیں۔ چالیس ہزار ہیکٹرز کے لئے آبپاشی کا منصوبہ بنایا، پل خمری سے کابل تک ٹرانسمیشن لائن، ہر شہر کے لئے سولر پینل کی فراہمی، فوجی ٹریننگ، پولیس کی ٹریننگ، غرض ایک طویل لسٹ ہے۔
آخری دفعہ 2008ء میں جب میں چاہ بہار گیا تو وہاں کی بلوچ اکثریت یہ گلہ کر رہی تھی کہ ہمیں یہاں سے بے دخل کر کے ایرانیوں کو آباد کیا جا رہا ہے اور مجھے نظر آ رہا تھا کہ یہ بھارتی ایماء پر ہو رہا ہے تاکہ پہلے اس علاقے میں کوئی مزاحمتی گروہ نہ رہے۔ لیکن آج ٹھیک دس سال بعد یہ تمام منصوبے خاک میں ملتے نظر آ رہے ہیں۔ افغان طالبان کی بھر پور کامرانی نے بھارت تو دور کی بات ہے۔
امریکہ کی قائم کردہ افغان حکومت کی حیثیت بھی ختم کر دی ہے۔ ماسکو اور ابوظبی کے مذاکرات میں بھارت، ایران اور افغان حکومت غائب ہیں۔ وہ آگ جو 2008ء میں بلوچ آبادی کی منتقلی سے سلگی تھی ایرانی بلوچستان میں تیزی سے بھڑک اٹھی ہے۔ امریکی بحری بیڑہ وہاں تک سرک آیا ہے۔ امریکہ کو خطے میں اگر تھوڑی سی جگہ بھی درکار ہو یا تھوڑا سا کردار بھی چاہیے تو اسے پاکستان اور طالبان کے سوا کوئی یہ مہیا نہیں کر سکتا۔ وہ مشترکہ ہاتھ جو نریندر مودی، حسن روحانی اور اشرف غنی نے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہوا میں بلند کئے تھے۔
اب ناکامی کے بحر ہندمیں ڈوبنے والے ہیں۔ کسی کو تاریخ لکھتے وقت یقین نہیں آئے گا کہ ایسا صرف اور صرف اللہ پر توکل رکھنے والے چالیس ہزار افغان طالبان کی تمام عالمی برادری سے تنہا جنگ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ رہے نام اللہ کا۔ (ختم شد)