وزیراعظم کے منصب کا وقار برقرار رکھنے کی ضرورت
وزیر اعظم خواہ کوئی بھی ہو۔ اس کی شخصیت اور پالیسیوں کے بارے میں آپ کو چاہے ہزاورں تحفظات ہوں مگر وزیر اعظم کے دفتر اور منصب کا ایک وقار ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں اس وقار کا استحکام اور احترام انتہائی ضروری ہے۔ یہ برقرار نہ رہے تو معاملات فقط ابتری اور انتشار کی جانب ہی بڑھتے ہیں۔
کئی برس گزرچکے ہیں لیکن آج بھی ایک واقعہ بھول نہیں پایا۔ غالباََ 1998 کا آغاز تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف تھے۔ بھارت میں اس منصب پر اٹل بہاری واجپائی منتخب ہوئے تھے۔ وہ دونوں سری لنکا میں سارک کانفرنس کے دوران پہلی بارایک دوسرے سے ملے۔ دونوں نے باہمی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران واجپائی مجھے خاص متاثر نہ کرپائے۔ نواز شریف ان کے مقابلے میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے کافی چست اور برجستہ نظر آئے۔
اس پریس کانفرنس کی روئیداد اپنے اخبار کو بھیجنے کے بعد کھانے کی شدید طلب ہوئی۔ جس ہوٹل میں ٹھہرئے ہوئے تھے وہاں کا کھانا جی کو نہیں بھایا۔ وہاں ایک بھارتی صحافی بھی موجود تھا۔ بھوک کے مارے اس کا بھی براحال تھا۔ میری اس سے بہت دوستی تھی۔ اس کا خاندان لاہور کے باغپانپورہ سے دلی منتقل ہوا تھا۔ ہم دونوں کا "لہوری" تعلق ہمیشہ بہت گہرارہا۔
سری لنکا میں سارک کانفرنس کے دوران سڑکوں پر کرفیو کا سماں ہوتاہے۔ ہم دونوں کو بہت دیر تک چلتے ہوئے کسی ریستوران تک پہنچنا تھا۔ ایک دوسرے کے ہمراہ چلتے ہوئے ہم پھکڑپن میں مصروف ہوگئے۔ میرے ہمراہ چلتا ہوا صحافی واجپائی کا بدترین مخالف تھا میں اکثر اسے سونیا گاندھی کا چمچہ ٹھہراتا اور اس خدشے کا اظہار کرتا کہ بالآخر ایک دن وہ صحافت چھوڑ کر کانگریس کی ٹکٹ پر لوک یا راجیہ سبھاکا رکن بن کر کوئی وزارت حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔ اس کی "کانگریس نوازی" کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے واجپائی کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ پہلے تو وہ خاموشی سے برداشت کرتا رہا مگر ایک مقام پر غصے سے رک گیا اور مجھے درشت الفاظ میں یادلایا کہ "بہرحال وہ (واجپائی) میرے ملک کا منتخب وزیر اعظم ہے"۔ مجھے اس کی بھد اڑانے سے بازرہنا چاہیے۔ میں نہایت خلوص سے اس سے معافی کا طلب گار ہوا۔ دل میں یہ بات البتہ بیٹھ گئی کہ جمہوری معاشروں میں وزیر اعظم کا احترام ضروری شمار ہوتا ہے۔
وزیر اعظم کے منصب کے وقار کو ذہن میں رکھتے ہوئے پانامہ دستاویزات کے انکشاف کے بعد اُٹھے بحران کے دوران میں تواتر سے اصرار کرتا رہا کہ نواز شریف صاحب کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت مختلف ریاستی اداروں کے گریڈ20 اور 21 کے افسروں پر مشتمل JIT کے روبرو بطور وزیر اعظم پیش نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہتر ہوتا کہ وہ اس کمیٹی کے روبروپیش ہونے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے۔
ان دنوں ایک اطلاع مجھے یہ ملی تھی کہ نواز شریف صاحب اپنے عہدے سے مستعفی ہوکرJIT کے سامنے پیش ہونا چاہ رہے ہیں۔ کافی مستند حوالوں سے خبر یہ بھی آئی کہ اس ضمن میں ان کی استعفیٰ دینے سے قبل والی تقریر بھی تیار ہورہی ہے۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ بالآخر کن وجوہات کی بناء پر نواز شریف صاحب نے وزیر اعظم کے منصب پربرقرار رہتے ہوئے ہی JIT کے روبرو پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے کو میں آج بھی بھلانے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ اس کی وجہ سے وزیر اعظم کا منصب حقیقی معنوں میں بے توقیر ہوا۔ آئین کے مطابق "چیف ایگزیکٹو" ٹھہرایا دفتر اپنا وقار برقرار نہ رکھ پایا۔
وزیر اعظم کے منصب کا وقار مجھے بدھ کے روز بھی بہت شدت سے یاد آیا ہے۔ ریگولر اور سوشل میڈیا پر ایک تصویر چل رہی تھی۔ اس تصویر میں وزیر اعظم عمران خان صاحب سندھ کے آئی جی کلیم امام صاحب سے ملاقات کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ بطورصحافی ہمیں سرکاری طورپر جاری ہوئی تصویروں کو بہت غور سے دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ نام نہاد "بدن بولی" کو پڑھتے ہوئے ہم صحافیوں کو سیاسی صورت حال کے بارے میں قیافہ شناسی کی طلب ہوتی ہے۔
صحافیانہ نظر سے مذکورہ تصویر کو دیکھا تو فوراََ میری نگاہ اس چھڑی پر گئی جو آئی جی صاحب کے یونیفارم اور پروٹوکول کا حصہ شمار ہوتی ہے۔ اس چھڑی کو Malacca Cane کہا جاتا ہے۔ شاید کبھی ملایا سے جو اب ملائیشیاء کہلاتا ہے منگوائی جاتی تھی۔ اس چھڑی کو Authority Rodبھی پکارا جاتا ہے۔ یعنی وہ چھڑی جو آپ کے اختیار کی علامت ہے۔ شاید اسی باعث کوئی آرمی چیف اپنے عہدے سے رخصت ہوتے ہوئے اس چھڑی کو ایک تقریب میں نئے آرمی چیف کے سپردکرتا ہے۔
"پرانے" پاکستان کے ایوان ہائے اقتدار پر کئی برس نگاہ رکھنے کی وجہ سے میں پروٹوکول کے جن تقاضوں سے آشنا ہوا ان کے مطابق یونیفارم والی فورس کا کوئی افسر جب "چیف ایگزیکٹو" یعنی وزیر اعظم سے ملاقات کرنے جائے تو اس چھڑی کو اپنی بائیں بغل میں دباکر سلام کرتا ہے۔ ملاقات کے لئے بیٹھتے ہوئے اس چھڑی کویا تو اپنی گود میں رکھتا ہے یا ٹانگوں کے درمیان دبالیتا ہے۔ بسااوقات اس چھڑی کو اس چھوٹی میز پر بھی رکھا جاسکتا ہے جو ملاقاتی کے صوفے کے ساتھ رکھی ہوتی ہے۔
آئی جی کلیم امام صاحب نے مگر اپنی Authority Rod کو وزیر اعظم کے لئے مختص بڑی میز کے ایک کونے پر رکھا ہوا تھا۔ میں یہ بات تسلیم کرلیتا ہوں کہ عمران خان صاحب مزاجاََ "ملنگ " آدمی ہیں۔ پروٹوکول کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے۔ ان سے ملاقات کے "آداب" کو برقرار رکھنے کے لئے لیکن مخصوص سٹاف ہوتا ہے۔ کلیم امام صاحب کو وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران ایک چٹ بھیج کر یہ بتایا جاسکتا تھا کہ وہ عمران خان صاحب کے لئے مختص میز پر سے اپنی چھڑی اٹھالیں۔ چٹ بھیجنا اگر ممکن نہیں تھا تو فوٹوگرافر جس نے یہ تصویر بنائی اسے ہدایات دی جاسکتی تھیں کہ وہ ملاقات کی تصویر ایسے زوایے سے بنائے کہ میز پر رکھی چھڑی نظر نہ آئے۔ فر ض کیا وہ چھڑی نظر آبھی رہی تھی تو مذکورہ تصویر کو میڈیا کے لئے ریلیز کرنے سے قبل آج کے Digital زمانے میں بآسانی Air Brush کے ذریعے چھڑی کو "غائب" کیا جاسکتا تھا۔
اس تصویر کو دیکھتے ہوئے مجھے فوری پیغام یہ ملا کہ ان دنوں وزیر اعظم کے پروٹوکول پر مامور افراد کو اپنے فرائض کاکماحقہ احساس نہیں ہے۔ ان کی میڈیا مینجمنٹ کے لئے مختص عملہ میں بھی کوئی شخص اہم جزئیات کو نگاہ میں نہیں رکھتا۔ جوباتیں ہمیں روزمرہّ زندگی میں "فروعات" محسوس ہوتی ہیں مخصوص سیاسی تناظر میں بے تحاشہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔"ایک تصویر" بسااوقات پریشان کن پیغام بھی دیتی ہے۔ اپریل 2007 میں "عدالتی بحران" کا آغاز "ایک تصویر" ہی کی بدولت ہوا تھا۔
کلیم امام صاحب سے مجھے ملاقات کا کبھی شرف حاصل نہیں ہوا۔ وہ یقینا بہت ہی ایمان دار اور فرض شناس افسرہوں گے۔ سندھ کے منتخب وزیر اعلیٰ مگر انہیں جائز یا ناجائز وجوہات کی بناء پر ہٹانا چاہ رہے تھے۔ کلیم امام صاحب اپنا "میرٹ" اور "خودمختاری" دکھانے پر ڈٹ گئے۔ عمران خان صاحب نے مراد علی شاہ صاحب سے گزشتہ ہفتے ایک ملاقات کے دوران امام صاحب کو تبدیل کرنے کاعندیہ دیا۔ کلیم امام صاحب نے مگر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنا کلہ مضبوط ہونے والی بڑھک لگادی۔ ڈسپلن کے عادی افسران برسرِ عام ایسی بڑھک نہیں لگایا کرتے۔ وہ مگر اس ضمن میں "تگڑے" اس لئے بھی ثابت ہوئے کیونکہ منگل کے روز وفاقی کابینہ نے ان کے تبادلے کے بارے میں حتمی فیصلہ لینے سے گریز کیا۔ اس خواہش کا اظہار کیا کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ باہم مل کر یہ معاملہ طے کرلیں۔ اس فیصلے کے بعد بدھ کے روز کلیم امام صاحب کی عمران خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی بدولت اسلام آباد میں تاثر یہ پھیلا کہ غالباََ وزیر اعظم ذاتی ملاقات کے ذریعے آئی جی سندھ کو کسی اور "اچھے منصب" پر تعیناتی کو "رضامند" کریں گے۔
آئی جی صاحب کی مبینہ "دلجوئی" کی خاطر بدھ کے روز ہوئی ملاقات کے دوران کلیم امام صاحب کی وزیر اعظم کے لئے مختص میز پر رکھی Authority Rod نے مذکورہ افسر کی "خودمختاری" کو دوچندکردیا۔ وزیر اعظم کا منصب ان کے "میرٹ" کے مقابلے میں تقریباََ "بے وقار" نظر ا ٓیا۔
مجھے کامل یقین ہے کہ مذکورہ تصویر کی وجہ سے میرے ذہن میں جو خیال آیا ہے اندھی نفرت وعقیدت میں بٹے ہمارے معاشرے میں اس کا آج کے کالم میں ذکر "فروعی" محسوس ہوگا۔"ڈنگ ٹپانے" کی خاطر ہوا "وقت کا زیاں " وغیرہ۔ یہ جانتے ہوئے بھی لیکن میں یہ اصرار کرنے کو بضد ہوں کہ ان دنوں سیاسی محاذ پر جو سین بن رہا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان صاحب کو وزیر اعظم کے منصب کا وقار Establish کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی شدید ضرورت ہے۔