"ربّ نیڑے کہ گھسنّ" والا سوال
منگل کے دن ایک بار پھر سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل بنچ کی کارروائی ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائی گئی۔ ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے عزت مآب جج باہم مل کر یہ فیصلہ کریں گے کہ شہباز حکومت نے اقتدار چھوڑنے سے قبل سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کے بارے میں جو قانون بنایا تھا وہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کرتا ہے یا نہیں۔ عمر عطا بندیال نے مذکورہ قانون کی پارلیمان سے منظوری کے بعد اس پر عمل کو تحریک انصاف کی درخواست پر روک دیا تھا۔ یہ مگر طے نہیں کر پائے کہ اسے برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔ پارلیمان کے بنائے قانون کو اگرچہ وہ اتنی وقعت دیتے تھے کہ بہت سوچ بچار کے بعد نیب قوانین میں متعارف کروائی ترامیم کو اپنا عہدہ چھوڑنے سے قبل "شارٹ اینڈ سویٹ"فیصلے کے ذریعے کالعدم ٹھہرادیا۔
نیب کو اب "بدعنوان سیاستدانوں" کے خلاف وہی جابرانہ اختیارات میسر ہیں جو جنرل مشرف کے اکتوبر1999ءمیں لگائے مارشل لاء کی بدولت فراہم کیے گئے تھے۔ ان اختیارات میں سنگین ترین اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرتا یہ فیصلہ بھی شامل ہے کہ مبینہ طورپراپنی آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والے شخص کو اپنی "بے گناہی" خود ثابت کرنا ہوگی۔ نیب کے تفتیش کاروں اور عدالت میں بھیجے سرکاری وکیلوں کو اس ضمن میں مغزماری کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ حراست کے بعد نوّے دنوں تک ملزم کی ضمانت کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔ ایسے جابرانہ اختیارات کے باوجود نیب وطن عزیز میں بدعنوانی کا خاتمہ تو دور کی بات ہے اسے کم کرنے میں بھی قطعاََ ناکام رہا ہے۔ عمر عطا بندیال صاحب مگر اس کے فرعونی اختیارات برقرار رکھنے کو مصررہے۔
بہرحال اس وقت سپریم کورٹ کو پا رلیمان کے بنائے ایک اور قانون کے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے۔ مذکورہ قانون کی بدولت چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کو لگام ڈالنے کی کوشش ہوئی ہے۔ ازخود اختیارات پر براہ راست کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ گزشتہ حکومت کے دوران محض یہ قانون بنایا گیا تھا کہ "عوامی مفاد" میں کسی معاملے پر ازخود غور کرتے ہوئے چیف جسٹس محض اپنی بصیرت پر ہی انحصار نہ کرے۔
سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں سے مشاورت کے بعد اس تناظر میں کوئی قدم اٹھائے۔ اس کے علاوہ دیگر معاملات پر بنچوں کا قیام بھی چیف جسٹس کی من مانی سے محفوظ رکھنے کی کوشش ہوئی۔ بندیال صاحب کے دور میں"ہم خیال ججوں" کا تصور ابھرا تھا۔ ان پر مشتمل بنچ کو کوئی معاملہ بھیجاجاتا تو لوگ عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی طے کرلیتے کہ "وہ کیا لکھیں گے جواب میں"اور بدقسمتی سے عوامی خدشات ہمیشہ درست ثابت ہوتے رہے۔
قانون کی مبادیات سے بھی نابلد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ منگل کے روز بھی چیف جسٹس صاحب کے اٹھائے اس واجب سوال کا کوئی ایک محترم وکیل بھی سادہ اور دو ٹوک الفاظ میں جواب نہیں دے پایا کہ زیر بحث قانون نے اگرمبینہ طورپر چیف جسٹس کے اختیارات کو واقعتا گھٹانے کی کوشش کی ہے تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ فکر مند انہیں بحیثیت چیف جسٹس ہونا چاہیے تھا۔ نظر بظاہر وہ اس قانون سے ناخوش محسوس نہیں کررہے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے اختیارات کو قانون سازی کے ذریعے چند ضوابط کے تحت لانے کی کوشش ہوئی تو یہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے بنیادی حقوق سے چھیڑچھاڑ کیسے ہوگئی۔
چیف جسٹس صاحب کی جانب سے اٹھائے اس کلیدی سوال کا جواب دینے کے بجائے زیر بحث قانون کے مخالف وکلاءآئین کی مختلف شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے "عدلیہ کی آزادی میں مداخلت" والے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ بادشاہی اختیارات کی خواہش ہر نوع کی اشرافیہ کی جبلت میں شامل ہوتی ہے۔
عزت مآب قاضی فائز عیسیٰ صاحب اگرچہ "صوفی منش" نظر آتے ہیں۔ افتخار چودھری کی طرح انہیں قوم کی "مسیحائی" کا جنون بھی لاحق نہیں۔ وہ دیانتداری سے چیف جسٹس کے منصب کی فرعون بناتے اختیارات سے جان چھڑانے کے خواہاں نظر آرہے ہیں۔ یہ مگر ضروری نہیں کہ ان کے بعد اس منصب پر فائز ہونے کے حقدار جج بھی ان کی خواہش سے متفق ہوں۔ سپریم کورٹ کی براہ راست دکھائی کارروائی کی بدولت بلکہ ہم اس خواہش کا اظہار بھی دیکھ رہے ہیں۔
بنچ کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے منگل کے دن ایسے کئی ریمارکس دئے ہیں جنہوں نے مجھ سادہ لوح کو یہ سوچنے کو اکسایا کہ وہ درحقیقت اپنے ہی چند ساتھیوں سے مخاطب ہیں۔ اس ضمن میں سب سے چونکا دینے والے فقرے نے اس حقیقت کو نہایت دلیری مگر سادگی سے نمایاں کیاکہ ہماری سپریم کورٹ نے پاکستان میں لگائے مارشل لاءکو "نظریہ ضرورت" کے تحت واجب ٹھہرایا ہے۔ عوام کی منتخب کردہ پارلیمان نے تاہم جب بھی عدالتی اختیارات کو ضوابط کی لگام ڈالنا چاہی تو عدلیہ کے کئی بڑے نام اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔
مارشل لاءکے روبرو آئین اور قانون کی بھاری بھر کم اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے وکلاءاور ججوں کا ڈھیر ہوجانا ایک حوالے سے سمجھاجاسکتا ہے۔ پنجابی کا "ربّ نیڑے کہ گھسن؟" والا سوال اس ضمن میں حیران کن سادگی سے اصل وجہ بیان کردیتا ہے۔ مارشل لاء سے ہٹ کر بھی تاہم ہماری تاریخ میں کچھ واقعات نمودار ہوئے ہیں جہاں چیف جسٹس کا ذاتی تعصب اور ترجیح ہی اصل "آئین اور قانون" ثابت ہوا۔
مذکورہ بالا تناظر میں اہم ترین حوالے سپریم کورٹ کے اس رویے سے بآسانی مل جاتے ہیں جو اس نے آٹھویں ترمیم کے ہوتے ہوئے اختیارکیا تھا۔ آئین میں آٹھویں ترمیم جنرل ضیاءکے دنوں میں متعارف ہوئی تھی۔ اس کی بدولت صدر کو یہ اختیار ملا کہ وہ اگر کسی وزیر اعظم اور اس کی حامی قومی اسمبلی کو "بدعنوانی" کا مرتکب تصور کرے تو اس وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کو جب چاہے برطرف کرسکتا ہے۔ جنرل ضیاء نے مئی 1988میں یہ اختیار اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم جونیجو کے خلاف استعمال کیا۔ موصوف کے فیصلے کے خلاف حاجی سیف اللہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ سپریم کورٹ ان کی درخواست سے غافل ہونے کا تاثر دیتی رہی۔
17اگست 1988کے دن مگر جنرل صاحب کی فضائی حادثے میں رحلت ہوگئی تو اس کے چند ہی دن بعد سپریم کورٹ نے اپنا ریکارڈ جھاڑپونچھ کر حاجی سیف اللہ کی پیش کردہ رٹ کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر شروع کردی۔ ججوں کے دوران سماعت دئے ریمارکس سے تصور یہ ابھرا کہ جونیجو حکومت کو بحال کردیا جائے گا۔ اس تاثر نے مبینہ طورپر ان دنوں کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو مجبور کیا کہ وہ سپریم کورٹ کو تنبیہ دیتا پیغام بھجیں۔ ان کی جانب سے پیغام تھا یا نہیں مگر بالآخر جو فیصلہ آیا اس نے جونیجو حکومت کی برطرفی "خلاف آئین" تو ٹھہرائی تاہم اسے بحال کرنے کے بجائے نئے انتخاب کی افادیت کو تسلیم کرلیا۔
جنرل ضیاءکے بعد صدر اسحاق نے1990ءمیں بے نظیر حکومت کو برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے اس برطرفی کو آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت جائز وواجب ٹھہرایا۔ اسی صدر اسحاق نے مگر جب 1993ءمیں آٹھویں ترمیم کے تحت میسر اختیار کی بدولت نواز حکومت کو برطرف کیا تو نسیم حسن شاہ کی قیادت میں کام کرنے والی سپریم کورٹ جوش میں آگئی۔ روزانہ کی بنیاد پر تیز ترین سماعتوں کے بعد ایک "تاریخی فیصلہ" لکھ کر نواز حکومت کو بحال کردیا گیا۔ وہ "تاریخی فیصلہ" آج بھی پارلیمان کی دیواروں پر کنندہ ہے۔
اس کے باوجود 1996ءکے نومبر میں جب صدر لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسر ی حکومت آٹھویں ترمیم کے تحت ہی برطرف کی تو جسٹس سجاد علی شاہ کی زیر قیادت کام کرتی سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دیا۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی لہٰذایہ طے ہی نہ کرپائے کہ آئین کی آٹھویں ترمیم صدر کو پارلیمان کے مقابلے میں کتنا بااختیار بناتی ہے۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ ان دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بدولت اعلیٰ عدالت کی جانب سے اپنے گریبان میں جھانکنے کی جوکاوش ہورہی ہے بالآخر قوم کے لئے خیر کی خبر لائے۔