معاملہ اتنا ساد ہ نہیں
محترمہ ریحام خان صاحبہ نے مجھے اپنا سینئر تصور کرتے ہوئے ہمیشہ بہت عزت واحترام سے نوازا ہے۔ اسی باعث ریگولر اور سوشل میڈیا پر ان کی ذات کو متنازعہ بنانے کے لئے جو گفتگو ہوتی ہے میں اس پر تبصرہ آرائی سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں۔ پیر کی صبح مگر ان کی بابت ایک تشویش ناک خبر پھیلی ہوئی تھی۔ ان کا جو موبائل نمبر میرے پاس ہے اس کے ذریعے رابطے کی کوشش میں ناکامی ہوئی۔ تفصیلات کا لہٰذا علم نہیں۔ محض اس خواہش کا اظہار ہی کرسکتا ہوں کہ پولیس حقائق کا سراغ لگاسکے۔
حقائق تک پہنچنا موجودہ حکومت کے لئے لازمی اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ طویل وقفے کے بعد وطن لوٹی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کے ساتھ تعلق کے حوالے سے ان کی تلخ تاریخ بھی ہے۔ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کئی عناصر ریحام بی بی کو اپنے تئیں مشکلات میں دھکیل کر حکومت کو رسوا کرنے والے واقعات بھی کھڑے کرسکتے ہیں۔ اقتدا ر اگرچہ آپ کو وقتی طورپر رعونت بھرا اعتماد بھی فراہم کردیتا ہے۔ ایسے ہی اعتماد کی بدولت 1974میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کی ایف آئی آر میں نامزد ہوا۔ انجام اس کا تاہم ہمیں اپریل 1979میں دیکھنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ حکومت کو متوجہ کرنے کے لئے میرے پاس کوئی اور دلیل موجود نہیں ہے۔
مذکورہ واقعہ نہ ہوا ہوتا تو آج کا کالم میں نے فقط ڈیورنڈ لائن پر ہوئے حالیہ واقعات پر مرکوز رکھنا تھا۔ برطانوی دور میں لگائی اس لکیر کی بابت افغانستان کااجتماعی حافظہ خوش محسوس نہیں کرتا۔ پشتون قوم پرستی کے شدید جذبات بھی یہی لائن اکساتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان کو برطانوی دور سے ورثے میں ملی ہے۔ 1980کی دہائی تک پاکستان اور افغانستان اس کی بابت کوئی متفقہ رائے سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے بنا نہیں پائے۔ افغانستان کے سردار دائود نے ظاہر شاہ کو بادشاہت سے فارغ کرنے کے بعد اپنے اقتدار کو جواز واستحکام فراہم کرنے کے لئے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ تر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
شہنشاہ ایرا ن ان دنو ں ہمارے خطے کا امریکہ کی جانب سے تعینات تھانے دار شمار ہوتا تھا۔ اس کے دبائو کے تحت ذوالفقار علی بھٹو اور سردار دائود کی حکومتوں کے درمیان مذاکرات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے حامی اصرار کرتے رہے کہ سردار دائود کو ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کے لئے رضا مند کرلیا گیا تھا۔ جولائی 1977میں لیکن جنرل ضیا پاکستان میں اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اپریل 1978میں افغانستان کے کمیونسٹ فوجی رہ نمائوں نے بھی "انقلاب" برپا کردیا اور شہنشاہ ایران کے خلاف امام خمینی کی قیادت میں بھی انقلابی تحریک کامیاب ہوگئی۔ ان تمام واقعات سے گھبرا کر سوویت یونین کی افواج دسمبر1979میں افغانستان پر قابض ہوگئیں۔
روسی قبضے کے خلاف جنرل ضیا کی حکومت نے "جہاد" کی سرپرستی کا فیصلہ کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مذکورہ جہاد کی بھرپور حمایت کا فیصلہ کیا۔ افغانستان میں جہادی کارروائیوں کے لئے ڈیورنڈ لائن کے ذریعے قائم ہوئی تقسیم کو بھلانا پڑا۔
نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر درآئی تو پاکستان ڈیورنڈ لائن کی اہمیت کو شدت سے تسلیم کرنے کو مجبور ہوا۔ ہمارے ریاستی ادارے مصر رہے کہ افغانستان کی امریکہ نواز حکومت کی مہربانی سے ہمارا ازلی دشمن بھارت مذہبی انتہا پسندوں کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ اس کے تدارک کے لئے خطیر سرمایہ کاری سے پاک-افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ امید باندھی گئی کہ طالبان فاتحانہ انداز میں افغانستان کے اقتدار میں لوٹنے کے بعد اس باڑ کی افادیت کو بخوشی تسلیم کرلیں گے۔
بارہا اس کالم میں عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ طالبان بنیادی طورپر پشتون قوم پرست بھی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم بھی تواتر سے اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو نگاہ میں ر کھتے ہوئے ہمیں اس امر کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے تھا کہ طالبان رہ نما چاہے جو بھی کہتے رہیں ان کے حامیوں کی اکثریت ڈیورنڈ لائن کو دل وجان سے تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہوگی۔ پشتون قوم پرستی کے اجتماعی حافظہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے لہٰذا پاک-افغان سرحد کے کئی مقامات پر مقامی طالبان کمانڈر اکثر اوقات وہاں لگی باڑ کو اکھاڑدیتے ہیں۔
ہمارے ریگولر میڈیا نے ایسے واقعات نظرانداز کرنے کو ترجیح دی۔ چند روز سے تاہم ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ پیر کے روز اپنی طولانی پریس کانفرنس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی ان واقعات پر توجہ دینے کو مجبور ہوئے۔ انہیں امید ہے کہ طالبان رہ نمائوں سے دوستانہ گفت وشنید کے ذریعے مذکورہ معاملہ کا تسلی بخش حل تلاش کرلیا جائے گا۔ میری ناقص رائے میں معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ افغان امور کے نام نہاد "ماہرین" کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے ہاں افغانستان کے حقائق کو معروضی انداز میں سمجھنے کی کوشش نہیں ہوتی۔ طالبان کو ہم مستحکم اکائی کی صورت لیتے ہیں جو اپنے امیر کے احکامات پر یکسوئی سے عمل کرتے ہیں۔ ٹھوس حقائق ہمارے تصور سے جبکہ قطعاََ برعکس ہیں۔ عالمی برادری سے ملابرادر کے ذریعے رابطے ہوئے۔ 15اگست کے بعد رونما ہونے والے طالبانی بندوبست میں لیکن وہ بھرپور اختیار کے حامل نہیں۔
ہلمند سے تعلق رکھنے والے جنگجو اور حقانی برادران سے وابستہ عناصر اس بندوبست میں کلیدی اختیارات استعمال کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی کمانڈروں کے مختلف گروہ ہیں جو 20سالہ جنگ کے دوران اپنے اپنے علاقوں میں بہت طاقتور ہوچکے ہیں۔ ایسے ہی چند کمانڈر وقتاََ فوقتاََ پاک-افغان سرحد پر لگی باڑ کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ افغانستان میں سیاسی اور اس سے کہیں زیادہ معاشی استحکام قائم نہ ہوا تو ایسے کمانڈر مزید خودمختاری کا اظہار کرناشروع ہوجائیں گے۔ ہمیں اس کی بابت خبردار رہنا ہوگا۔