اقتدار کے کھیل میں اصول؟
اقتدار کے کھیل میں"اخلاقی اصول" مجھے تو کارفرما ہوتے کبھی نظر نہیں آئے۔ بچپن سے اگرچہ یہ سمجھایا اور پڑھایا گیا تھا کہ "باوقار" افراد کے لئے چند باتوں پر لچک دکھانا یا سمجھوتہ کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ رزق کی تلاش نے صحافت کے "کوئے ملامت" میں دھکیل نہ دیا ہوتا تو شاید آج بھی بچپن میں سکھائی اور پڑھائی باتوں پر ہی اندھا اعتماد برقرار رکھے ہوتا۔
اہم ترین "جھٹکا" مندرجہ بالا تناظر میں مجھے اپریل 1993ء کے دوران لگا۔ ان دنوں ہمارے آئین میں موجود آٹھویں ترمیم کے تحت میسر اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف کردیا تھا۔ اس سے تین سال قبل وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے ساتھ بھی اگست 1990ء میں ایسا ہی رویہ اختیار کرچکے تھے۔ محترمہ کی حکومت برطرف کردینے کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری کو کرپشن کے سنگین الزامات کے تحت تفتیشی ا داروں کے سپرد کردیا گیا۔ دو سے زیادہ برسوں تک وہ جیل میں مقید رہے۔ 1993ء کا آغاز ہوتے ہی تاہم انہیں برق رفتاری سے ضمانتیں ملنا شروع ہوگئیں اور بالآخر ایک دن وہ جیل سے باہر آکر اسلام آباد میں متحرک ہوگئے۔
ان کے متحرک ہونے سے اگرچہ چھ ماہ قبل ہی مجھے ایوان صدر کے انتہائی قریب ذرائع سے خبر ملنا شروع ہوچکی تھی کہ ہماری دائمی ریاست کے حقیقی نمائندہ تصور ہوتے غلام اسحاق خان پنجاب سے ابھرے نسبتاََ جواں سال وزیر اعظم نواز شریف کے "اتاولے پن" سے ناراض ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ معیشت پر افسرشاہی کے مکمل کنٹرول کے حامی تھے۔ ان کی دانست میں لاہور کو اسلام آباد سے ملانے والا موٹروے پراجیکٹ قومی وسائل کا زیاں تھا۔ اس کے علاوہ وہ اس امر کی بابت بھی خوش نہیں تھے کہ نواز حکومت نے غیر ملکوں سے چھٹیوں پر وطن آنے والے تارکین وطن کیلئے ایئرپورٹ پر گرین چینلزبنوادئے ہیں۔ باہر سے آنے والے پاکستانی کسٹم افسران کی مداخلت سے آزاد محسوس کرتے اس چینل سے اپنا سامان اٹھائے ہنستے مسکراتے ایئرپورٹ سے باہر آجاتے ہیں۔ کئی دہائیوں تک "قومی خزانے" کے نگہبان رہے غلام اسحاق خان کو جنہیں احتراماََ "بابا" پکارا جاتا تھا قائل کردیا گیا کہ"ناتجربہ کار" وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے "عوام میں مقبولیت" حاصل کرنے کیلئے متعارف کروائی یہ پالیسیاں انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔
مجھ سادہ لوح نے یہ افواہیں سن کر محسوس کیا کہ شاید غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے مابین ملکی معیشت کے حوالے سے اختلافات نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ صدر اسحاق قدامت پسند رویے کے حامی تصور ہوتے تھے جہاں افسر شاہی معیشت پر کامل کنٹرول کی ضد میں مبتلارہتی ہے۔ نواز شریف اس کے برعکس معیشت کو "بازار" کے سپرد کرتے ہوئے اسے برق رفتار ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہ رہے تھے۔ ایک روز انتہائی دانشورانہ لہجہ اور زبان اختیار کرتے ہوئے میں نے اپنے ذہن میں آئے اس خیال کو چودھری الطاف حسین مرحوم کے روبرو بیان کیا۔ مرحوم ان دنوں مشکلات میں گھرے سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری کے تایا تھے۔ سادہ لوحی پر مبنی میرے "تجزیے" چہرے پر شفیق مسکراہٹ کے ساتھ سنتے اور بالآخر محض ایک فقرے سے میری تھیوری کے پرخچے اڑادیتے۔
اپنے ذہن میں ملکی معیشت کو چلانے کے حوالے سے صدر اسحاق اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین ابھرتے اختلافات کا تجزیہ بیان کردیا تو چودھری صاحب نے پدرانہ اْکتاہٹ سے فقط اتنا یاد دلایا کہ "نصرت صاحب بہادر 1993ء بآنے ہی والا ہے"۔ غلام اسحاق خان 1988ء میں صدر منتخب ہوئے تھے۔ 1993ء میں ان کی آئینی مدت ختم ہوجائے گی۔ ان کی خواہش ہے کہ نواز شریف انہیں پانچ سالہ مدت کے لئے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی یقین دہانی کروائیں۔ "تہاڈالہوری(آپ کا لاہوری)مگر پکڑائی نہیں دے رہا"۔ چودھری صاحب کا جواب سن کر میں ہکا بکا رہ گیا اور کئی دنوں تک دل ہی دل میں اپنی سادہ لوحی کی ملامت میں الجھا رہا۔ ایک بات البتہ سمجھ آگئی کہ غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے مابین اقتدار واختیارات کے حوالے سے شدید رسہ کشی شروع ہوچکی ہے۔ دونوں کے مابین بڑھتی بدگمانیوں کا ذکر کالموں میں شروع کیا تو نواز حکومت کے کارندے مجھ سے خفا ہونا شروع ہوگئے۔ نوبت بہ ایں جارسید کہ ایک دن مجھے ان کی سازشوں سے اْکتاکر ایک اخبار سے مستعفی ہوکر دوسرے اخبار جانا پڑا۔
"انہونی" بھی لیکن اپریل 1993ء میں ہوکررہی۔ اس ماہ کے وسط میں غلام اسحاق خان نے نوازشریف کو برطرف کرکے میر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم نامزد کردیا۔ میر صاحب کی کابینہ میں شمولیت کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو سے چند افراد کی نامزدگی کی خواہش کا اظہار ہوا۔ غلام اسحاق خان کی یہ خواہش محترمہ کو پہنچانے ان کے بااعتماد مصاحب روئیداد خان صاحب محترمہ سے ملنے اس گھر آئے جو ان دنوں اسلام آباد کے سیکٹر F-8/3کی گلی نمبر 2 میں تھا۔ اتفاق سے ان دنوں میں اسی سیکٹرکی گلی نمبر 3 میں رہتا تھا اوردن کا آغاز ہوتے ہی کئی بار خبر کی تلاش میں محترمہ کے گھر کے باہر منڈلاتا رہتا۔
جب غلام اسحا ق خان کا پیغام آیا تو میں اتفاقاََ محترمہ کے ہاں موجود تھا۔ وہ آفتاب احمد شیر پاؤ صاحب کے ساتھ روئیداد خان صاحب سے ملنے الگ کمرے میں چلی گئیں۔ مجھے حکم دیا کہ ان کی میٹنگ برخاست ہونے کا انتظار کروں۔ تقریباََ آدھے گھنٹے کی ملاقات کے بعد روئیداد خان اور شیر پاؤ صاحب باہر نکل کر ایوان صدر جانے کی تیاری میں نظر آئے۔ ان کے گردمنڈلاتے مجھے "خبر"ملی کہ محترمہ نے آصف علی زرداری کو بجلی اور پانی کا وزیر بنانے کا تقاضہ کیا ہے۔ "پیغامبروں" کو خوف لاحق تھا کہ "بابا" اس کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ مجھ سادہ لوح نے بھی دل ہی دل میں ان کے "خوف" سے اتفاق کیا۔ دو گھنٹوں بعد مگر ٹی وی سے خبر ملی کہ آصف علی زرداری وفاقی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے ایوان صدر پہنچ چکے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد غلام اسحاق خان اسی آصف علی زرداری سے وزارت کا حلف اٹھاتے ٹی وی سکرین پر دکھائی دئیے جنہیں دو سے زیادہ برسوں تک انہوں نے شدید بدعنوانیوں کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے جیلوں میں رکھنے کی گیم لگائی تھی۔
اگر آپ نے آج کا کالم یہاں تک پڑھ لیا ہے تو دل میں سوچ رہے ہوں گے کہ میں اتناپرانا قصہ کیوں بیان کررہا ہوں۔ عزیز انِ من اس قصے کو بیان کرنے کی وجہ وہ حیرانی ہے جو ان دنوں بے تحاشہ پاکستانی نواز شریف کو "تیزی سے ملتے انصاف" کے بارے میں محسوس کررہے ہیں۔ بنیادی مقصد آپ کو فقط یہ بتانا ہے کہ اقتدار کے کھیل میں"اصول" نامی شے وجود نہیں رکھتی۔