آئی ایم ایف کے تحفظات برقرار؟
عمران حکومت کےIMF کے ساتھ ہوئے بندوبست کے مطابق پاکستان کو اس ادارے سے 45 کروڑ20 لاکھ ڈالر کی قسط درکار ہے۔ اس رقم کو ادا کرنے سے قبل آئی ایم ایف کا ایک وفد چند روز قبل پاکستان آیا تھا۔ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران وہ ان وعدوں پر ہوئی پیش رفت کا جائزہ لیتا رہا جو پاکستان نے ہماری معیشت کے عالمی نگہبان سے کررکھے ہیں۔ اس وفد نے واشنگٹن لوٹنے سے قبل "خاطرخواہ" پیش رفت کا اقرار کیا۔
سرکاری پریس ریلیز کے ذریعے بلکہ چند معاملات پر اپنی "توقع سے زیادہ تیز رفتاری"کو بھی سراہا۔ واضح الفاظ میں اگرچہ یہ "خبر" نہ دی کہ پاکستان کو درکار رقم جلد ہی فراہم کردی جائے گی۔ اس خبر سے گریز نے مجھ جیسے صحافیوں کو اس خوف میں مبتلا کردیا کہ شاید چند معاملات پر IMF کے تحفظات اپنی جگہ برقرار رہیں۔
ایک دیہاڑی دار ہوتے ہوئے لاکھوں پاکستانیوں کی طرح میں بھی آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کے تقاضے کے امکانات بارے ہی میں خوف میں مبتلا رہتا ہوں۔ ذرا غور سے اخبارات میں آئی ایم ایف سے ہوئے مذاکرات کے بارے میں چھپی خبروں کو دوبارہ پڑھنے کے بعد اِدھر اُدھر فون گھمائے تو اس خدشے کی تصدیق ہوگئی کہ بجلی کے نرخ بڑھانے کا مطالبہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی شدید خواہش ہے کہ آئندہ ڈیڑھ سے دو سالوں تک بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ نہ ہو۔ ان کی معاشی ٹیم مگر یہ سوچ رہی ہے کہ آئی ایم ایف مطلوبہ اضافے کو فقط آئندہ بجٹ تک ٹالنے کو آمادہ ہوسکتی ہے۔ بجلی کی موجودہ قیمت زیادہ سے زیادہ مزید چار ماہ تک برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ جولائی 2020 میں اضافے کا اعلان لازمی ہوجائے گا۔ چار مہینے کی ممکنہ مہلت کی نوید سن کر میرا دل تھوڑا مطمئن ہوگیا۔ اس کالم میں اپنے اطمینان کا اظہار بھی کردیا۔
پیرکی شام سینٹ کا اجلاس دیکھتے ہوئے مگر "انکشاف" یہ بھی ہوا کہ IMF کے ساتھ ہماری "گوٹ" محض بجلی کے نرخوں پر ہی پھنسی نہیں ہوئی۔ CPEC کے ضمن میں آئی ایم ایف کے تحفظات بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ پاکستان پر بلکہ دبائو بڑھایا جارہا ہے کہ وہ چین کے علاوہ دُنیا کے دیگر ممالک سے تجارت بڑھانے کے معاہدے کرے۔ فوری طورپر مطالبہ یہ بھی ہے کہ چین کوموجودہ مالی سال میں ہم نے سود یا منافع کی صورت جو رقوم فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے ان کی ادائیگی میں مزید مہلت مانگی جائے۔ مہلت مانگنے والی بات کو آئی ایم ایف کے لئے کام کرنے والے "ماہرین"Roll Overکہتے ہیں۔ ہم عامیوں کو مذکورہ اصطلاح کی ہرگز سمجھ نہیں آتی۔
میرے چند نوجوان ساتھی جو بہت دیانت اور مشقت کے ساتھ معاشی معاملات کے بارے میں خبریں ڈھونڈتے ہیں، IMFکے وفد سے ہوئے مذاکرات کے تناظر میں بجلی کی قیمت بڑھانے کے علاوہ چین سے لئے قرضے کی بابت Roll Over کا ذکر بھی کرتے رہے۔ ایمان داری کی بات ہے کہ میں ان کی بات سمجھ نہیں پایا۔
منگل کی شام مسلم لیگ (نون) کے جاوید اقبال عباسی اور مشاہد حسین سید نے سینٹ میں جو تحریک التواء پیش کی اس کی بدولت بالآخر علم ہوا کہ CPECسے جڑے معاملات بھی آئی ایم ایف کو ناراض کئے ہوئے ہیں۔ اپنی تحریک کی حمایت میں ان سینیٹروں نے جو تقاریر کیں انہوں نے مگرRoll Overپر توجہ مرکوز نہ رکھی۔ جذباتی انداز میں آئی ایم ایف کو پاکستان پر "حکم چلانے (Dictating)" کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ پیپلزپارٹی کے رحمن ملک اور رضا ربانی بھی ان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ دھواں دھار تقاریر ہوئیں۔ یہ حقیقت مگر اجاگر نہ ہوپائی کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان نے چین کو سود یا منافع کی صورت کتنی رقم ادا کرنی ہے۔ اس رقم کی ادائیگی کو کتنے عرصے تک مؤخر کرنے کا تقاضاہورہا ہے۔ جذباتی تقاریر کا تمام تر فوکس پاک-چین دوستی کی گہرائی اور گیرائی کو اجاگر کرنے تک محدود رہا۔
مشاہد حسین سید اور رضاربانی نے یہ حقیقت بھی یا ددلائی کہ آئی ایم ایف سے قبل عمران خان صاحب کے رزاق دائود جیسے طاقت ور مشیروں نے CPEC کے تحت چلائے منصوبوں کے بارے میں شکوک وشبہات بھرے سوالات اٹھاناشروع کردئیے تھے۔ عمران حکومت کے ایک بہت ہی جارح وزیر مراد سعید صاحب نے مسلم لیگ (نون) کے احسن اقبال کو CPEC ہی کے تحت چلائے ایک منصوبے میں "بدعنوانی کا مرتکب" بھی ٹھہرایا تھا۔ آئی ایم ایف کو گویا عمران حکومت کے وزیروں ہی نے CPEC کے بارے میں سوالات اٹھانے کی راہ دکھائی۔ مشاہد حسین نے امریکہ کی اعلیٰ سطحی سفارت کار ایلس ویلز کے ان بیانات کا حوالہ بھی دیا جو موصوفہ تواتر کے ساتھ CPEC کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلانے کے لئے واشنگٹن کے علاوہ اسلام آباد میں بیٹھ کر بھی دیتی رہی ہیں۔ ان بیانات کا عمران حکومت کی جانب سے مؤثر جواب نہیں آیا۔ ایلس ویلز کے بیانات کو نظرانداز کرنے کی روش کو ترجیح دی گئی۔
"قومی خودمختاری" کے غم میں اپوزیشن رہ نمائوں نے جوتقاریر کیں ذاتی طورپر میں انہیں سرا ہتا ہوں۔ بحیثیت ایک رپورٹر مگر میرے لئے فی الوقت یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف واقعتا پاکستان سے یہ تقاضہ کررہی ہے یا نہیں کہ رواں مالی سال میں ہم نے چین کو سود یا منافع کی صورت جورقوم دینی ہیں ان کی ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کی جائے۔
اس ٹھوس سوال کا جواب فقط ڈاکٹر حفیظ شیخ ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ اعظم سواتی آئی ایم ایف سے ہوئے مذاکرات کے بارے میں اتنے ہی "باخبر" ہیں جتنے میں یا آپ۔ وزیر پارلیمانی امور کی حیثیت میں لیکن وہ اپوزیشن کو مطمئن کرنے کھڑے ہوگئے۔ احتجاجاََ اپوزیشن والے ایوان سے واک آئوٹ کرگئے۔ اس کے بعد کورم کی نشاندہی ہوگئی اور سینٹ کا اجلاس ختم ہوگیا۔
اپوزیشن کی دھواں دھار تقاریر کے باوجود ہمیں ایک ٹھوس سوال کا جواب نہیں مل پایا۔ سینٹ کا آئندہ اجلاس اب 28 فروری کو ہوگا۔ اس دن تک شاید اپوزیشن والے CPEC سے جڑے معاملات بھول کر کسی نئے مسئلے پر سوال اٹھانا شروع ہوجائیں گے۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود رہے گا کہ کیا IMF پاکستان کو اس امر پر مجبور کررہی ہے یا نہیں کہ چین سے رجوع کیا جائے۔ اس درخواست کے ساتھ کہ وہ رواں مالی سال کے دوران اپنے قرض یا سرمایہ کاری کے حوالے سے سود یا منافع کا تقاضہ نہ کرے۔ انہیں کچھ عرصے بعد ادا کرنے کی مہلت دے۔
نظر بظاہر آئی ایم ایف کی جانب سے یہ تقاضہ ہورہا ہے۔ وجہ اس کی "تکنیکی" نہیں "سیاسی" ہے۔ پاکستان کے عوام کو یہ باور کروانا مقصود ہے کہ اس کا "ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرا دوست" رواں مالی سال کے دوران متوقع سود یا منافع کی ادائیگی میں "مہلت" دینے کو تیار نہیں ہورہا۔"یہ کہاں کی دوستی ہے؟ " والا پیغام۔"گیم" یقینا بہت گہری ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے مگر حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ ہم دو ٹکے کے رپورٹروں کو حقائق بتانے کو لیکن کوئی تیار نہیں ہوتا۔
ایوانِ بالا کے اراکین مگر تمام ریاستی اداروں پر "بالادست" شمار ہوتے ہیں۔ سینٹ میں شاید ایک خاص کمیٹی بھی ہے جو وزارتِ خزانہ کے معاملات پر نگاہ رکھتی ہے۔"ہمارے نمائندے"، اگر آئی ایم ایف سے ہوئے مذاکرات کی تفصیلات واقعتا جاننا چاہتے ہیں تو ہنگامی بنیادوں پر مذکورہ کمیٹی کا اجلاس بلائیں۔ وہاں ڈاکٹر حفیظ شیخ کو طلب کرکے مطلوبہ حقائق جان لئے جائیں۔
یہ تجویز دیتے ہوئے مگر یاد آگیا کہ سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے واضح الفاظ میں حکومت سے وہ رپورٹ طلب کی تھی جو نواز شریف کو تاحیات نااہل کروانے کی راہ بنانے والیJIT کے واجد ضیاء کی سربراہی میں کام کرنے والی ایف آئی اے نے گندم اور چینی کے حالیہ بحران کے بارے میں تیار کی تھی۔ کابینہ اس رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئی۔ رپورٹ کو مزید تحقیق کے لئے ایف آئی اے واپس بھیج دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک "ناقص" رپورٹ کو سینٹ کے سامنے پیش کرنے سے انکار کردیا ہے۔ جو "ایوانِ بالا" واجد ضیاء کی تیار کردہ رپورٹ دیکھ نہ پایا وہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو "طلب" کرنے کی جرأت کیسے دکھاسکتا ہے؟