اِدھر اْدھر کی بے تْکی باتیں
ستارہ شناسوں سے سنا ہے کہ ابلاغ کا حاکم سیارہ ان دنوں عالم رجعت میں ہے۔ میں اس "خبر" پر اعتبار کرنے کو مجبور ہوں۔ یہ کالم لکھنے کے لئے جب بھی قلم اٹھایا روانی میں ایک ہی نشست میں مکمل کرلیا۔ گزشتہ ایک ہفتے سے مگر دو سے زیادہ بار ابتدائی پیراگراف پسند نہیں آئے۔ اس کے بعدبھی لکھے ہوئے کاغذ پھاڑ کر دوبارہ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
صحافت کے شعبے میں چالیس برس گزرنے کو ہیں۔ آغاز میں رپورٹر تھا۔ انگریزی اخباروں کے لئے "لکھتا" نہیں ٹائپ کرتا تھا اور شروع دن سے ٹائپ رائٹر پر کاغذ چڑھاتے ہی "خبر" لکھ کر ہی ہاتھ روکا۔ یہی عالم کالم نویسی کے بارے میں برقرار رہا۔ انگریزی سے اردو کالم نگاری کی جانب آیا تو مجھے ہاتھ سے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ میں اردو ٹائپ نہیں کرسکتا۔ میرے کئی بزرگ کالم نگاروں نے اپنے موبائل فون پر ہی کالم لکھنے کاہنر دریافت کرلیا تھا۔ میں اس جانب خود کو مائل نہیں کرپایا۔ اردو ہاتھ سے لکھنے کو ترجیح دیتا ہوں اور قلم اٹھالوں تو ربّ کریم کی مہربانی سے روانی ازخود میسر ہوجاتی ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے سے مگر ذہن جکڑا اور خیالات منتشر ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ ارتکاز فکر سے محرومی نے پریشان کیا تو اس کے اسباب ڈھونڈنا شروع کردئے۔ سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ بڑھاپے کی وجہ سے خیالات میں توانائی اور روانی نہیں رہی۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے ہی والا تھا تو بے شمار ایسے خیالات یاد آئے جو گزشتہ ایک مہینے سے میرے ذہن میں مسلسل نمودار ہورہے ہیں۔ ذہن میں مسلسل آئے خیالات بے شمار ہونے کے باوجود حیران کردینے کی حد تک تخلیقی بھی ہیں۔ مجھے تاہم ان کے اظہار کی سہولت اور صنف میسر نہیں ہورہی۔
دو سے زیادہ برس سے اس امرکی بابت بہت شرمسار محسوس کررہا تھا کہ قدیم لاہور کی گلیوں اور محلوں میں پیدا ہو کر جوان ہونے کے باوجود میں نے اپنی عمر انگریزی اور اردو زبان سیکھنے میں صرف کردی۔ "سیکھنا" اس وجہ سے لکھا ہے کہ یہ دونوں میری مادری زبانیں نہیں۔ ان دو میں جب بھی لکھ رہا ہوتا ہوں تو جبلی طورپر کہیں نہ کہیں"سقم" کا احساس موجود رہتا ہے۔ چند ماہ قبل ایک بزرگ کی وفات کے بعد ان کے بارے میں ا یک کالم لکھا تھا۔ اسے پڑھ کر مرحوم کے ایک قریبی دوست نے فون کرکے شاباش دی۔ روانی میں لیکن یہ گلہ بھی کردیا کہ میری تحریر میں"پنجابیت" بہت نمایاں ہورہی ہے۔
"پنجابیت" کا ذکر سن کر میں نے انہیں قرۃ العین حیدر کی "کار جہاں دراز ہے" یاد دلائی۔ اس "آپ بیتی" نما کتاب میں قرۃ العین حیدر جیسی مستند اردو دان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ان کی والدہ نذر سجاد حیدر جو بذات خود برصغیر ہند وپاک کی اولین خاتون نثرنگاروں میں شامل تھیں اپنے گھر والوں کو جب کوئی خط لکھتیں تو وہ ان کی زبان میں"پنجاب کے اثر" کی شکایت کرتے۔
یاد رہے کہ نذر سجاد حیدر کے دادا سرکاری نوکری کے سلسلے میں کئی برس پنجاب میں مقیم رہے تھے۔ قرۃ العین حیدر کی والدہ بھی اس وجہ سے اپنے بچپن کا زیادہ عرصہ یوپی کے کسی شہر کے بجائے پنجاب کے سیالکوٹ میں رہی تھیں۔ غالباََ اس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں"پنجابی پن" آگیاہوگا۔ بات لمبی ہوجائے گی۔ مختصرترین خلاصہ یہ ہے کہ اگر نذر سجاد حیدر کی لکھی اردو "شدھ"تصور نہ ہوئی تو رنگ محل مشن ہائی سکول تک پورے دس برس لاہورکے قدیمی محلوں اور گلیوں سے پیدل گزرکرجانے والا نصرت جاوید غلطیوں سے مبرا اردو کیسے لکھ سکتا ہے۔
اسی باعث لاشعوری طورپرفیصلہ کیا کہ زندگی کے جو برس باقی رہ گئے ہیں ان کے دوران اپنی مادری زبان میں کچھ لکھا اور بولا جائے۔ یہ سوچتے ہوئے اپنی پنجابی کو ادبی روایات سے زرخیز کرنے کے لئے بہت چائو سے وارث شاہ کی لکھی "ہیر" کا ایک مستند نسخہ ڈھونڈا۔ اسے پڑھنا شروع کیا تو بے شمار الفاظ کے معنی اور تلفظ سے اجنبیت کا احساس ہوا۔ خوش قسمتی سے میرے شاعر دوست حارث خلیق نے مجھے ہیر کا ایک ایسا نسخہ بھی تحفے میں دے رکھا ہے جس میں وارث شاہ کی لکھی تحریر کا اردو ترجمہ موجود ہے۔ میں اس سے رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔ اب اکثر گوگل کے ذریعے دیگر لوگوں کی پڑھی یا گائی ہیر ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کسی پنجابی کا اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے شیکسپیئر یعنی وارث شاہ کو پڑھنے -سمجھنا تو دور کی بات ہے- کے قابل نہ رہے۔
اس تناظر میں سوچتا ہوں تو سندھ یاد آجاتا ہے۔ وہاں بہت زیادہ پڑھے لکھے فرد کے علاوہ آپ کو ریڑھی لگانے یا کھیتوں میں کام کرنے والا سندھی بھی گفتگو کے دوران کسی نہ کسی مرحلے پر "سائیں نے کہا ہے" کہتے ہوئے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا حسبِ حال شعر سناکر حیران کردیتا ہے۔
یہاں تک پہنچا ہوں تو احساس ہوا کہ ابھی تک ڈیڑھ فل سکیپ کاغذ سیاہ کرچکا ہوں۔ پیغام غالباََ اتنے لفظ ضائع کرنے کے بعد فقط یہ دیا ہے کہ ان دنوں منتشر خیالی کی زد میں ہوں۔ اس کے بارے میں پریشان تھا تو سیارہ شناسوں سے یہ سن کر حوصلہ ہوا کہ ان دنوں ابلاغ کا حاکم سیارہ جسے اردو میں شاید عطارد کہتے ہیں عالم رجعت میں ہے۔ سیارے اور ستاروں کی چال کو دوش دے کر جندچھڑاتے ہوئے لیکن ندامت کا احساس ہورہا ہے۔
حقیقت جبکہ یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے ملکی سیاست کا شاہد ہوتے ہوئے میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں"وہ لب(قلم)پہ آسکتا نہیں"۔ لکھتا ہوں اخبار کے لئے۔ اسے چھاپنے کی اجازت حکومت وقت "ڈیکلریشن" کے ذریعے دیتی ہے۔ اخبار چھپے گا تو میرا رزق بھی میسر رہے گا۔ لہٰذا جو بات لکھنی ہے وہ اس انداز میں لکھی جائے کہ حکمرانوں کو طیش نہ دلائے۔ حکمرانوں کے غضب سے بچنے کے لئے ہی ہمارے ہاں کے تخلیقی اذہان نثرسے گریز کرتے رہے ہیں۔ شاعری پاکستان اور ایران جیسے معاشروں میں اظہار کا مقبول ترین ذریعہ رہی اور ہماری شاعری میں استعاروں سے کام چلایا جاتا ہے۔ بادشاہ کو دوش دینے کے بجائے اسے "محبوب" پکارتے ہوئے قاصدوں کو "دل کی بات" اس تک نہ پہنچانے کی وجہ سے معتوب ٹھہرایا جاتا ہے۔
بدھ کے روز حسب معمول یہ کالم لکھ کر دفتر بھجوادیا تو ٹی وی کھول کر سپریم کورٹ کے سات ججوں پر مشتمل بنچ کی کارروائی رپورٹر کی کامل توجہ کے ساتھ دیکھنا شروع ہوگیا۔ اعتراف کرنا ہوگا کہ آج کا کالم بدھ کے روز ازخود اختیارات کے تحت ہوئی کارروائی پر تبصرہ آرائی تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ اس ضمن میں جو خیالات میرے ذہن میں آئے تھے وہ اندھی نفرت وعقیدت میں منقسم ماحول میں کسی بھی فریق کو پسند نہیں آئیں گے۔
ایک بار یہ بھی سوچا کہ کوئی سکہ ڈھونڈ کر "ٹاس" کرلیتا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ چیف جسٹس صاحب کی "وضاحتوں" کی بدولت آشکار ہوئی "سادگی وپرکاری" کو سراہوں یا عزت مآب جسٹس اطہر من اللہ صاحب کے ان ریمارکس کی مدح میں مصروف ہوجائوں جنہوں نے ان دنوں جمہوریت اور آزادی اظہار کے حتمی محافظ ہوئے دوستوں کو عش عش کرنے کو مجبور کردیا ہے۔ جمہوریت اور آزادی اظہار کے حوالے سے "ان دنوں" کا لفظ بخدا برجستہ میرے ذہن میں آیا ہے۔ یہ عندیہ دے رہا ہے کہ ابلاغ کا حاکم سیارہ عالم رجعت میں ہونے کے باوجود میرے ذہن کو پنگا بازی سے باز نہیں رکھ پارہا۔ اچھا ہوا میں نے آپ کو اِدھر اْدھر کی بے تکی باتوں میں الجھانے کے بعد آج کا کالم مکمل کرلیا ہے۔