کرونا اور منافع خوری کی سفاکیت
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے ہولناک تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے علمِ سماجیات کے ماہرین نے انسانی رویوں کو جاننے کے لئے بے پناہ سوالات کے ساتھ کئی برسوں سے تحقیق جاری رکھی ہوئی ہے۔ محض چند سوالات کے جواب مل پائے ہیں۔ اس حقیقت کا اگرچہ عمومی اعتراف ہوا ہے کہ آفتوں کے موسم میں خلقِ خدا کی اکثریت انتہائی خلوص سے ایک دوسرے کے دُکھ بانٹنے کو فطری طورپر آمادہ ہوجاتی ہے۔ انسانوں میں لیکن ایک خاص نوعیت کی خودغرض مخلوق بھی پائی جاتی ہے۔ جو وبائوں اور آفتوں کے دوران انتہائی سفاکی سے منافع خوری کے امکانات ڈھونڈلیتی ہے۔ چند سیاسی رہ نما بھی ایسے ایام میں خود کو "اچھا" دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کی بدولت ہمیں یہ رویے نمایاں طورپر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
جنوبی ایشیاء کے تناظر میں بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی کا ذکر اس ضمن میں ضروری ہے۔ گزشتہ برس کے 5اگست سے وہ کشمیر میں غاصبانہ ڈھٹائی دکھانے کے بعد بھارتی مسلمانوں کو شہریت کے قانون کے ذریعے دوسرے درجے کا شہری بنانے کو ڈٹ گیا۔ اندرونِ ملک مزاحمت کے علاوہ اس کے رویے کو عالمی میڈیا کی شدید مذمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسے خود کو "اچھا" دکھانے کا موقعہ نہیں مل پارہا تھا۔ کورونا وائرس نے دُنیا میں ہیجان برپا کیا تو ایک ٹویٹ لکھ کر اس نے جنوبی ایشیاء کی سارک تنظیم میں شامل ممالک کے رہ نمائوں کو ایک وڈیو کانفرنس کی دعوت دے ڈالی۔ بہانہ یہ تراشا کہ اس کانفرنس کے ذریعے سارک تنظیم کوئی ایسی راہ ڈھونڈے جس پر چلتے ہوئے جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک اپنے وسائل کو یکجا کرتے ہوئے اس وباء کا مقابلہ کرسکیں۔
مذکورہ ٹویٹ لکھتے ہوئے نریندر مودی نے بہت رعونت سے یہ فرض کرلیا کہ پاکستان اس کی دعوت کو فوراََ قبول کرلے گا۔ کئی مہینوں سے تلخ تر ہوتی شکایتوں کو فراموش کردے گا۔ سفارتی آداب کا تقاضہ تھا کہ مذکورہ ٹویٹ لکھنے سے قبل Backdoor Diplomacy کے ذریعے یہ معلوم کرلیا جاتا کہ پاکستان کیا کرے گا جواب میں اس کا تردد ہی نہیں ہوا۔ پاکستان لہذا مجبور ہوگیا کہ اپنے وزیر اعظم کے بجائے ان کے مشیر صحت کو وڈیو کانفرنس کے لئے نامزد کرے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے لئے ضروری تھا کہ اس موقعہ پر سارک تنظیم کے ممالک کو کشمیر بھی یاد دلاتے۔ بھارتی میڈیا مگر ان کے رویے کو Point Scoring کا ذمہ دار ٹھہرارہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس حقیقت کو احمقانہ بے اعتنائی سے بھولا ہوا ہے کہ 2016سے سارک تنظیم غیر فعال کیوں ہوچکی ہے۔ مودی حکومت اس تنظیم کو بلکہ رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے "متبادل علاقائی" حلیفوں اور اتحادیوں کی تلاش میں دل وجان سے مصروف رہی۔
سارک تنظیم کو اس میں شامل کسی ایک ملک کے سربراہ کی Whims کا غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ بھارت سے تو بلکہ زیادہ بڑے دل کی توقع رکھی جاتی ہے کیونکہ وہ آبادی اور وسائل کے اعتبارسے اس تنظیم کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت اپنے قد کے برابر کشادہ دلی نہ دکھاپایا اور کورونا وائرس پر قابو پانے کے بہانے نریندرمودی خود کو اس خطے کے نرم دل "مسیحا" کی صورت Projectنہ کرپایا۔
نریندرمودی کو "اچانک" سارک تنظیم کیوں یاد آگئی؟ اس سوال کے معقول جوابات میرے پاس موجود ہیں۔ فی الوقت ان کا تفصیلی ذکر کو لیکن مؤخر کرنے کی ضرورت محسوس کررہا ہوں۔ فقط یہ عرض کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا کہ افغانستان بھی سارک تنظیم میں شامل ہے۔ امریکہ نے وہاں "دائمی امن" کے قیام کی خاطر طالبان سے ایک تحریری معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ اس معاہدے نے بھارت کو افغانستان کے حقائق کے ضمن میں غیر متعلق اور بے اثر فریق ثابت کیا۔ پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت نے افغانستان میں اپنا اثرجمانے کے لئے ایران سے رشتے استوار کئے تھے۔ ٹرمپ کی محبت میں مودی کو لیکن ایران سے بالآخر دوری اختیار کرنا پڑی۔ پاکستان سے رجوع کرنا لازمی ہوگیا۔ کوروناوائرس کی وباء نے پاکستان کو Engage کرنے کا موقعہ فراہم کردیا۔ بغیر کسی پُرخلوص تیاری کے نریندرمودی نے ایک ٹویٹ لکھ کر مگر اسے ضائع کردیا۔ وباء کے موسم میں اس کی رعونت بلکہ مزید آشکار ہوگئی۔
افغانستان کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک نئی گیم لگائی جارہی ہے۔ کشمیر کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اور شیخ عبداللہ کے سپوت فاروق عبداللہ کو کئی مہینوں کی نظربندی کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔ یاسین ملک کے خلاف لیکن جموں کی عدالت نے "دہشت گردی" کے الزام کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم بھی جاری کردیا۔ مودی سرکار کی جانب سے اپنائی Carrot and Stick والی اس پالیسی کے چند اہداف ہیں جن کا تفصیلی ذکر بھی مؤخرکرنا ہوگا۔
فوری پریشانی میری یہ ہے کہ منافع خوروں نے ہاتھ صاف رکھنے والے Sanitizer کی قیمت میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ طلب اور رسد کی جدلیات کے بارے میں علم معاشیات کی مبادیات سے نابلدہوتے ہوئے بھی کسی حد تک آگاہ ہوں۔ ہاتھ صاف رکھنے والے سینیٹائزرکی طلب میں یقینا بہت اضافہ ہوگیا ہوگا۔ کراچی کے علاوہ پنجاب کے کئی شہروں میں مقیم لوگوں سے میرا مسلسل رابطہ ہے۔ روزمرہّ استعمال کی عام بوتل مارکیٹ سے تقریباََ غائب بتائی جارہی ہے۔ 450 سے 500 روپے کے درمیان والی قیمت پر مگر یہ محلول چند دوکانوں سے "خفیہ انداز" میں مل جاتا ہے۔ جو قیمت میں سن رہا ہوں وہ عمومی طورپر میسر بوتل کی قیمت سے کم از کم دوگنا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے سفاکانہ منافع خوری کی علامات لہذا واضح نظر آ رہی ہیں۔ انتظامیہ مگر اس ضمن میں متحرک نظر نہیں آرہی۔
سینیٹائزر کی عدم دستیابی کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ ہمارے ہسپتالوں میں کورونا وائرس کی مناسب تشخیص کے مؤثر انتظامات موجود نہیں ہیں۔ میرا ڈرائیور چند روز سے بخار اور کھانسی کی شکایت کررہا تھا۔ اسے اسلام آباد میں موجود سب سے بڑے ہسپتال کی ایمرجنسی میں بھیجا۔ وہاں موجود ڈاکٹروں نے محض اس کی گفتگو سن کر "موسمی بخار" تشخیص کیا۔ اسے نزلہ، زکام اور بخار سے شفاء دلانے کی عمومی دوائیں تجویز کیں۔ اس کی کھانسی رک گئی مگر بخار وقفوں سے نمودار ہوتا رہا۔ ہفتے کی رات ایک پرائیویٹ ڈاکٹر نے اسے "نمونیے" کا شکار بتایا ہے۔ اسے ہم نے اپنے گھر سے دور ایک مناسب مقام پر "قرنطینہ" میں رکھنے کا بندوبست فراہم کردیا ہے۔ یہ مگر طے نہیں کر پائے ہیں کہ وہ کورونا کی زد میں ہے یا نہیں۔
میرے ایک عزیز دوست نے حال ہی میں کئی ممالک کے پیشہ وارانہ وجوہات کی بنا پر سفر کئے ہیں۔ وہ مالی اعتبار سے مہنگا ترین ٹیسٹ بھی برداشت کرسکتے ہیں۔"نزلہ زکام" کے عمومی شکار رہتے ہیں۔ کئی ڈاکٹروں سے رابطے کے بعد ا نہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے خون کا ایک بھرپور ٹیسٹ کروالیں جس میں آپ کے خون میں موجود وائرس کی تشخیص بھی ہوجاتی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خون کا بھرپور ترین ٹیسٹ بھی کورونا کا پتہ کیسے لگا سکتا ہے جسے دُنیا بھر کے طبی ماہرین"نامعلوم" قرار دے رہے ہیں۔ میرے دوست کا رزلٹ ربّ کے کرم سے کلیئر آیا۔ وہ مطمئن ہے۔ اس کے لئے خیر کی دُعا مانگتے ہوئے بھی اگرچہ میں مطمئن نہیں ہوا۔ بنیادی طورپر یہ سوال پریشان کئے چلے جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص منہ مانگی رقم کے عوض مستند Labsسے ہر نوعیت کے ٹیسٹ پر آمادگی کے باوجود خود میں کورونا وائرس کا قطعی انداز میں پتہ نہیں چلاسکا تو وسائل سے قطعاََ محروم ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کا کیا عالم ہوگا۔
سراسیمگی پھیلانا ہرگز مقصود نہیں۔ گزشتہ ماہ کے تیسرے ہفتے میں امریکی صدر جب بھارت پہنچا تو میں نے اس کے دورہ پر تبصرہ آرائی کے بجائے ضروری سمجھا کہ اس کالم کے ذریعے آپ کو یاد دلائوں کہ ایران میں کورونا وائرس نمودار ہوچکا ہے۔ ہزاروں پاکستانی زیارتوں کے لئے اس ملک جاتے ہیں۔ ہمیں ایران سے کورونا کی خبر وصول ہوتے ہی وہاں سے جڑی سرحد کو فروری کے دوسرے ہفتے ہی سیل کردینا چاہیے تھا۔ یہ اگر ممکن نہیں تھا تووہاں گئے افراد کو پاکستانی سرحد میں لاکر قرنطینہ کے کماحقہ انتظامات فراہم کرنا چاہیے تھے۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ سندھ حکومت جس کی ہمارے میڈیا نے صحت کے مسائل کے ضمن میں ہمیشہ بھداُڑائی ایران سے پاکستان میں داخل ہوکر "گم" ہوئے پاکستانیوں کا تن دہی سے سراغ لگاکر انہیں تشخیصی مراحل سے گزاررہی ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے اس کی پیش قدمی اور متحرک رہنے کی تحسین ضروری ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں لیکن ہمیں انتظامی سطح پر ایمرجنسی صورتحال والی ہل چل دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ بنیادی نوعیت کے لاک ڈائون البتہ شروع ہوگئے ہیں۔
یہ لاک ڈائون وباء کے پھیلائو کو روکنے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ کورونا وائرس کی تشخیص کے مؤثر انتظامات موجود ہیں یا نہیں۔ اگر یہ انتظامات میسر کردئیے گئے ہیں تو ان کی وسیع تر پیمانے پر تشہیر بھی لازمی ہے۔ اگر اس ضمن میں کماحقہ بندوبست فی الوقت میسر نہیں تو اس کا ایمان دارانہ اعتراف بھی ضروری ہے تاکہ ہمارے شہری کورونا کی ٹھوس علامات کو خوب جان کر ازخود قرنطینہ میں جانے کو راضی ہوجائیں۔