Tuesday, 02 July 2024
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Janab Wazir e Azam, Rashid Mehmood Ko Sunen

Janab Wazir e Azam, Rashid Mehmood Ko Sunen

جناب وزیراعظم راشد محمود کو سنیں

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شہباز شریف کی اپوزیشن میں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل نام کی جماعتیں ہیں تو وہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ آئینی، سیاسی یا پارلیمانی زبان بولتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپوزیشن ہے، وہ پارلیمنٹ کے اندر ہنگامہ کر رہی ہے، عدلیہ کے کچھ ججوں کے ساتھ مل کر مسائل پیدا کر رہی ہے یا امریکہ میں ہائر کی گئی لابنگ فرمز کے ذریعے ریاست کے لئے مشکلات مگر حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت ان تمام مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایک چیلنج اور ہے کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ سوشل میڈیا پر مضبوط ہے جس کے مقابلے کے لئے ہمیں حکومتی ٹیم مضبوط نظر نہیں آتی مگر مسلم لیگ نون کو ایسے بہت سارے رضاکاروں کی سپورٹ حاصل ہے جو حکومت ہی نہیں بلکہ فوج دشمن سے لے کر ملک دشمن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کاؤنٹر نیریٹیو جنریٹ ہی نہیں ہو رہا۔ مقابلے پر بیانیہ نہ صرف تشکیل پا رہا ہے بلکہ وہ اپنے دلائل میں اپنا پختہ ہے کہ اس کا دلائل سے مقابلہ کرنا ناممکن ہے سو وہاں گالی دی جاتی ہے جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے، آپ دلیل اورمکالمے کی جنگ ہار چکے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ شہباز شریف کی حکومت کی اصل اپوزیشن مہنگائی ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکا، برطانیہ سے لے کر چین اور انڈیا تک کے مقابلے میں ہمارا پٹرول سستا ہے مگر قیمتوں کا سادہ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ان قیمتوں کو اپنی فی کس آمدن کو سامنے رکھ کر ہی زیادہ یا کم قرار دے سکتے ہیں۔

اس کو سمجھنے کے لئے یہ مثال دیکھیں کہ برطانیہ اور پاکستان میں میکڈونلڈ کے برگر کی قیمت یکساں ہے لیکن وہ شخص جو برطانیہ میں ایک دن کے پاکستانی ایک لاکھ روپے کما رہا ہے اس کے لئے تین پاؤنڈ یا لگ بھگ ہزار روپے کا برگر ہرگز مہنگا نہیں ہے، اس کی دن بھر کی کمائی کے ایک فیصد کے برابر ہے لیکن دوسری طرف پاکستان میں اگر ایک شخص ایک دن میں محض ہزار روپے کما رہا ہے تواس کے لئے بہت مہنگا ہے، دن بھر کی پوری کمائی کے برابر۔ فی کس آمدن میں انڈیا بھی ہم سے بہتر ہے اور بنگلہ دیش بھی۔ حکومت کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ اس پر قرضوں کا بوجھ ہے اور ابھی وہ مجبور ہے کہ ملک چلانے کے لئے مزید قرض لے۔ ملک چلانے کے لئے قرض کا متبادل صرف اور صرف ٹیکسز کی وصولی ہے لیکن جیسے ہی آپ ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ کرتے ہیں تواس کے ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے۔

حکومت ایک گھن چکر میں پھنس چکی ہے۔ اول، پاکستان کو قرض دینے کے لئے کوئی تیار نہیں اور اگر تیار بھی ہے تو اس کی واپسی ایک سوال ہے۔ اگر قرض سے باہر نکلتے ہیں اور وزیراعظم اپنے نعرے پر عمل کرتے ہیں کہ انہوں نے کشکول توڑ دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ متبادل آمدن کہاں سے آئے جس سے ملک چلے اور قرضے، سود بھی واپس ہوں۔ اس کے لئے واحد طریقہ ملک میں ٹیکس کی وصولی ہے مگر یہاں ایک اور مسئلہ ہے کہ ہمارے بہت سارے طبقات ٹیکس دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں مگر وہ سہولتیں یورپ والی مانگتے ہیں۔

ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے دس فیصد کے لگ بھگ ہیں اور یورپ تیس سے چالیس فیصد پر۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی بھی حکمران چاہے وہ پرویز مشرف جیسا آمر ہو، آصف زرداری جیسا جادوگر ہو، عمران خان جیسا بڑبولا ہو یا شہباز شریف جیسا محنتی ہو، وہ اپنے پلے سے ملک نہیں چلا سکتا۔ حکمرانوں کو پوری کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ٹیکس نیٹ سے باہر لوگوں کو اس میں لائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر سمیت ٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں اصلاحات کریں۔

ٹیکس کی وصولی کے نظام کو زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹلائز کریں اور جب تک یہ نہیں ہوتا قرض واپس لینے کے لئے سر پر بیٹھے ہوئے آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ ہم بجلی، پٹرول اور گیس وغیرہ کے ذریعے ان ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی کریں جس کے نتیجے میں یہ تمام بنیادی ضروریات مزید مہنگی ہوں اور لوگوں کی چیخیں نکلیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر میں کہتا ہوں کہ شہباز شریف کی اصل اپوزیشن پی ٹی آئی نہیں مہنگائی ہے۔

جب میں نے یہ کہا کہ شہباز شریف کی حکومت کی اصل اپوزیشن مہنگائی ہے تو میرے سامنے سینئر اداکار راشد محمود کی ایک ویڈیو ہے۔ راشد محمود بہت ہی پیارے انسان ہیں۔ سیاسی، گروہی اور ذاتی تعصبات سے پاک، سب سے محبت کرنے والے۔ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا میرے 701 یونٹ کا بل 45 ہزار 368روپے آیا ہے، میں 4 مرتبہ ہارٹ اٹیک کے باوجود اللہ کے کرم سے زندہ ہوں لیکن آج سوچتا ہوں میرے اللہ مجھے کیوں بچایا، میں نے اپنی ساری زندگی اس ملک کی نہایت ایمانداری کے ساتھ خدمت کی، ہمارے کاموں کے باعث یہاں اربوں روپے اکٹھا ہوئے لیکن پچھلے کئی سالوں سے لاہور میں ہمارے لیے کوئی کام نہیں، اب میں 45ہزار بجلی کے بل کی ادائیگی کیلئے پیسے کہاں سے لاؤں،؟ سینئر اداکار نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ میرے پاک پروردگار میں ایک غلط ملک میں پیدا ہوا، ہم نے زندگی رب کے خوف سے گزاری کیا یہی ہمارا قصور ہے؟ میرے مالک مجھے اٹھالے، میں زندہ نہیں رہنا چاہتا، میں باہر جاکر بہت کچھ کرسکتا تھا لیکن میں نہیں گیا، میرا دل دکھا ہوا ہے میں بیمار ہوں، مرنے کی دعا کرنے لگاہو ں، میں نے اس ملک کی ساری زندگی خدمت کرکے غلط کیا، اگر میں بھی چوروں کے ساتھ شامل ہوجاتا تو یہ چیخ وپکار نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید کہاارباب اختیار نے قوم کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے، ہمارے ملک میں عوام کیلئے کچھ نہیں ہے، یہ ساری جماعتیں ایک جیسی ہیں سب اپنے لیے کررہے ہیں عوام کیلئے کوئی کچھ نہیں کررہا۔ مجھے اس ویڈیو نے دکھی کر دیا ہے۔

میرا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے محنتی ترین وزیراعظم، جنہیں دنیا اب پاکستان سپیڈ کے نام سے جانتی ہے وہ اپنے لیجنڈری اداکار راشد محمود کی پکار سنیں۔ انہیں اپنے پاس بلائیں۔ آپ اسے ایک علامتی پکار بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت سینکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ اس مشکل کا شکار ہیں۔ بجلی کے بلوں میں دو سویونٹ تک اوراسکے بعد تین گنا تک کا فرق ہے۔

چھ، سات سو یونٹ اس وقت مڈل کلاس استعمال کر لیتی ہے۔ وزیراعظم بجلی کے بلوں میں کمی کے لئے فوری طو رپر کمیٹی بنائیں کہ معاملہ اب سو، دو سو یونٹوں والوں کی مدد کا نہیں رہا، اس سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ وہ اپنی اس نئی پیدا ہوتی اپوزیشن پر توجہ دیں کہ اگر اس کے آنسو پونچھ لئے گئے تو پی ٹی آئی، امریکہ کی مدد سے الٹی ہو کے بھی لٹک جائے تو بھی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔

Check Also

Bharat Aur Israel Ki Yari

By Wusat Ullah Khan