فِچ رپورٹ یا یوٹیوبر ویلاگ؟
فِچ امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ہے، موڈیز اور سٹینڈرڈ اینڈ پوُورز کے ساتھ دنیا کی تین بڑی ایجنسیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس نے اپنی ایک بزنس مانیٹر رپورٹ میں دلچسپ پیشین گوئیاں کی ہیں۔ ہم پاکستانی ایسی پیشین گوئیاں پہلے پیر پگارا اور شیخ رشید سے بھی سنتے رہے ہیں۔ فِچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس کی معیشت کو ڈی ریل کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی موجودہ حکومت اٹھارہ ماہ یا اس سے کچھ زائد عرصہ قائم رہ سکتی ہے اور اس کے بعد ٹیکنو کریٹ سیٹ آپ آنے کا امکان ہے۔
اس نے یہ بھی کہا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین فی الحال قید ہی میں رہیں گے اور مستقبل قریب میں ان کی رہائی کا امکان بھی نہیں ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ فِچ کی نہیں بلکہ اس سے الحاق شدہ ایک ادارے بی ایم آئی کی ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگر اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے میڈیا نے اسے بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی رپورٹ کے طور پر ہی پیش کیا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا پر واقعی سیاسی صورتحال میں بھونچال دکھائی دیتا ہے مگر کیا یہ عملی طور پر بھی کہیں موجود ہے تو جواب نفی میں ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی اورمقبول جماعت ہونے کی دعوے دار پاکستان تحریک انصاف ہے مگر اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی جگہ پر کوئی بڑا جلسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وہ ایک دلچسپ طریقہ کار اختیار کرتی ہے کہ جلسے کے لئے اجازت طلب کرتی ہے اورا س کے بعد اس سے راہ فرار اختیار کر لیتی ہے جیسے روات میں اسے جلسے کی اجازت ملی مگر وہ مردان چلی گئی جہاں اس کی اپنی حکومت قائم ہے۔
پی ٹی آئی یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ اگر اس کے بانی چیئرمین باہر آجائیں توا سکے بعد عوامی تحریک کو نہیں روکا جا سکتا مگر دوسری طرف حقائق یہ ہیں کہ عمران خان نے جب لانگ مارچ کیا تو وہ کسی بھی جگہ پر سات، دس ہزا رسے زیادہ افراد جمع نہیں کر سکے۔ جب وہ لاہور سے روانہ ہو رہے تھے تو لبرٹی چوک میں تین سے پانچ ہزار لوگ تھے۔ جب وہ گوجرانوالہ پہنچے تو تعداد واپس تین ہزار رہ گئی۔ انہوں نے اسلام آباد جانا تھا مگر وہ چوہدری پرویز الٰہی کی صوبائی حکومت سے باہر نکلتے ہوئے اسلام آباد ایکسپریس وے پربھی نہیں گئے۔ اب پی ٹی آئی کی تمام تر امیدیں مولانا فضل الرحمان سے ہیں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ ان دونوں کے درمیان شدید غلط فہمیاں موجود ہیں۔ ایک ایک بیان کے بعد یوٹرن لیے جاتے ہیں۔
اب سیاسی صورتحال کو اس تناظر میں دیکھیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے یعنی ہاتھی نکل گیا دُم رہ گئی۔ پاکستان کو سات ارب ڈالر کے لگ بھگ مل جائیں گے مگر اس سے بھی زیادہ اہمیت اس ریٹنگ کی ہے جو آئی ایم ایف کا اعتماد جیتنے کے بعد ملتی ہے اوراس کے ساتھ ہی دوست ممالک سے سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ بی ایم آئی کی یہ رپورٹ بچگانہ ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال پاکستان کی معیشت کو ڈی ریل کرسکتی ہے۔
معیشت کے ڈی ریل ہونے کے خدشات پی ڈی ایم کی سوا برس کی حکومت میں موجود تھے جنہیں وزیراعظم شہباز شریف اورآرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کوششوں سے ریورس گئیر لگا۔ اب کوئی پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی بات نہیں کرتا۔ جب بی ایم آئی کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ عمران خان جیل میں ہی رہیں گے تو وہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی پیشین گوئی کس بنیاد پر کرسکتی ہے۔ جہاں تک ڈیڑھ یا دوسال کے بعد ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہونے کا سوال ہے تو یہ بھی محض ہوائی چھوڑنا ہے۔
ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی باتیں نوے کی دہائی سے کی جارہی ہیں اوراس پر کسی حد تک عمل پرویز مشر ف کے دور میں ہوا جب ٹیکنوکریٹس کو وزیراعظم بنایا گیا مگر اس کے نیچے بھی اچھا یا برا، صحیح یا غلط ایک پولیٹیکل سسٹم موجود تھا یعنی وہ بھی سو فیصد ٹیکنوکریٹس کی حکومت نہیں تھی۔ ضیاء دور کے بعد پاکستان میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز ہوا تھا جس میں حکومتوں کے لئے ہائبرڈ نظام رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی کچھ ٹیکنو کریٹس رکھنے پڑے تھے۔ مجھے یہاں پر بی ایم آئی کی رپورٹ کسی تھرڈ کلاس یوٹیوبر کا ویلاگ لگ رہی ہے جس میں کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جوڑ کے بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا ہے۔
ابھی کچھ روز پہلے اقوام متحدہ کی بھی ایک رپورٹ کا شور مچا تھا اورپھر علم ہوا کہ اقوام متحدہ کے ساتھ ایسے سینکڑوں ادارے اور کمیٹیاں جڑی ہوئی ہیں جو کچھ نہ کچھ شائع کرتی رہتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس اچھے ڈالرز موجود ہیں تو آپ ان سے اپنی خواہشات بھی بطور رپورٹ شائع کروا سکتے ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے لابنگ فرمیں ہائر کی ہوئی ہیں۔ وہ اقوام متحدہ اور فِچ جیسے اداروں کو بھی انفلوئنس کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر طریقہ کار وہی کرائے پر دستیاب کمیٹیاں وغیرہ ہیں جو اندر گھسنے کی راہ دیتی ہیں مگر یہ رپورٹ تو پی ٹی آئی کے لئے بھی خوش کن نہیں ہے جو بتا رہی ہے کہ عمران خان جیل میں ہی رہیں گے کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کی تمام تر کوششیں اور دباؤ اپنے بانی کو باہر لانے کے لئے ہے۔
میرے پاس جو انفارمیشن ہے اس کے مطابق حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد عام انتخابات کو سپریم کورٹ میں لایا جائے گا اور وہاں سے کوئی اہم فیصلہ لے لیا جائے گا مگرمجھے یہاں ایک مقامی اور روایتی مثال بیان کرنی ہے کہ اگر سار ا پنڈ بھی مرجائے توا سکے بعد بھی میراثی کے بیٹے کے چوہدری بننے کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ بات ضرور کہی جا رہی ہے کہ کوئی ایمرجنسی لگ سکتی ہے جو ایمرجنسی پلس بھی ہوسکتی ہے مگر اس میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی بدلنے کی کوئی امید نہیں ہے بلکہ یوں ہوگا کہ جو کچھ اب کم ہو رہا ہے وہ کچھ زیادہ ہوجائے گا مگر یہ بھی آخری آپشن ہے اور اس سے پہلے بہت سارے دوسرے آپشنز جو حکومت کے ذریعے ہی آئینی اور قانونی طور پر عمل میں لائے جا سکتے ہیں اور یہی پہلی ترجیح ہے۔
اب تک کے منظرنامے کے مطابق شہباز شریف، وہ منفرد وزیراعظم ہیں جو کسی انتخاب سے پہلے بھی وزیراعظم تھے اور انتخاب کے بعد بھی وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بات یہاں تک نہیں بلکہ وہ ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے اپنی مدت بھی پوری کرنے جا رہے ہیں اور پھر منتخب ہونے بھی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ شہباز شریف کو عشروں سے دیکھنے کے باوجود ان کی صلاحیتوں کو جانتے اور مانتے نہیں ہیں۔ وہ نادان ہیں۔