Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Afghanistan Ka Kachra

Afghanistan Ka Kachra

افغانستان کا کچرا

میرے ایک دوست نے کہا، یہ درست وقت ہے کہ ہمیں افغانستان پر حملہ کر دینا چاہئے، کابل سے قندھار تک قبضہ کر لینا چاہئے۔ وہ طالبان رجیم کی طرف سے پاکستان کے اس جائز اور منطقی مطالبے کو مسترد کئے جانے پر نالاں تھا کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان پر دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے روکا جائے، دہشتگردوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائیاں کی جائیں جس کے لئے ہمارے مشترکا دوست ممالک ترکیہ اور قطر نے بھی کوششیں کیں اور اب ایران کی پیش کش بھی موجود ہے مگر میرا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان کے اس کچرے کا کیا کرنا ہے جہاں تعلیم ہے نہ صحت، نہ انفراسٹرکچر ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی نظام۔ یہ درست ہے کہ وہاں معدنیات موجود ہیں مگر مستقبل کی غیر یقینی معدنیا ت کے سودے میں دہشت گردی، منشیات، جرائم اور بے روزگاری کاطوفان لے لینا سو فیصد گھاٹے کا سودا ہے۔

یہ درست ہے کہ ہمارے لئے افغانستان اور بالخصوص اس کے پشتون علاقوں پر قبضہ کر لینا بہت ہی آسان ہے اور اس قبضے کی راہ میں عالمی قانون بھی مزاحم کی بجائے معاون ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے193 ممالک میں سے شائد دو یا تین ہی موجودہ افغان رجیم کے ساتھ ڈی جیرے ریلیشنز رکھتے ہیں، باقی سب کے تعلقات ڈی فیکٹو ہیں یعنی دنیا اس طالبان رجیم کو نہ تو آئینی اور قانونی مانتی ہے اور نہ ہی اخلاقی اور جمہوری۔

یہ تو بھلا یا برا ہو عمران خان اور فیض حمید کے اتحاد کا کہ انہوں نے پاکستان کے بعد افغانستان میں رجیم چینج کی بنیاد رکھی اور عالمی برادری بالخصوص امریکہ کو اس وقت کی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے قائل کیا کہ وہ افغانستان میں جنگ بند کردے، واپس چلا جائے۔ اس پر قطر میں معاہدہ ہوا جس میں طالبان نے جہاں یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ امریکی مفادات پر کسی صورت حملہ آور نہیں ہوں گے، انہوں نے دس روز کے اندر افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے لئے مذاکرات شروع کرنے کا بھی وعدہ کیا مگر پانچ برس گزر گئے اور افغانستان میں ایک ایسی عبوری حکومت قائم ہے جس کی عبوری مدت کی تکمیل کب ہوگی کسی کواس بارے علم ہی نہیں ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ پاکستان اشرف غنی اور حامد کرزئی وغیرہ کی حکومتوں کو پسند نہیں کرتا تھا اور ماضی کے شمالی اتحاد کے ساتھ بھی اس کے تعلقات (صرف اور صرف طالبان کی وجہ سے) اچھے نہ تھے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت وہ سب بیٹھے مسکرا رہے ہوں گے جب محسن کش اور ناشکرگزار طالبان پاکستان پر جنگ تھوپ رہے ہیں، ان تمام احسانات کو فراموش کرکے جو ہم نے انہیں اقتدار دلوا کر کئے اور اس سے پہلے ان کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو پناہ دے کر، زندگی دے کر، تعلیم دے کر، صحت دے کر۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے افغانستان پر حملہ کرنا عین بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے تو ہمارے سامنے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چارٹر کی شق اکاون موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک کسی بھی دوسرے ملک پر سیلف ڈیفنس میں حملہ کر سکتا ہے اگر دوسرے ملک کی طرف سے کیا جانے والا حملہ مسلح ہو، اس ملک کی آبادی کی جان و مال کے ساتھ ساتھ جغرافیائی سالمیت کے لئے خطرہ ہو۔

افغانستان سے کئے جانے والے یہ تمام حملے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ہمیں جوابی حملہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور ہم پر شرط صرف یہ ہے کہ ہم سلامتی کونسل کو اس بارے مطلع رکھیں گے۔ اس بات کے جواب میں افغان دلچسپ بات کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سرزمین کو ایمپائرز یعنی سلطنتوں کا قبرستان بنایا ہے اور پاکستان وہا ں کیا کر سکتا ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ روس ہوامریکہ، افغا نیوں نے صرف اور صرف اس لئے مقابلہ کر لیا کہ ان کے ساتھ پاکستان کھڑا تھا۔

امریکہ ہمارے ساتھ اسی لئے ناراض تھا کہ ہم بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی منظوری کے پابند ہونے کے باوجود ان ناشکرگزار افغانوں کی مدد، بچاو اور بقا کی راہیں تلاش کرتے تھے۔ امریکی ہمیں منافقت کے طعنے دیتے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ ہم ان افغانوں کی مدد کرکے اقبال کے اشعار پر عمل اور اپنے دینی تقاضوں کی تکمیل کر رہے ہیں مگر اب تو ان طالبان نے اسلام کا ماسک بھی اتار پھینکا ہے۔ وہ جو بامیان کے بتوں کو توڑ کے بت شکن بنے تھے آج وہ مودی کے بتوں کے پاسبان بن رہے ہیں۔

اسلام دہشت گردی کا مخالف ہے اور یہ دہشت گردی کے پشتی بان۔ اسلام بتاتا ہے کہ محسن انسانیت نے ام المومنین کے ساتھ ساتھ اپنی صاحبزادی کو بھی اعلیٰ تعلیم دی، ایسی تعلیم کہ صحابہ ان سے زمانے بھر کے مسائل پوچھنے آتے تھے مگر انہوں نے بیٹیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ یہ سماج کاہی نہیں مذہب کا بھی کچرا ہیں، یہ حقیقی معنوں میں خوارج کے ساتھی ہیں جنہیں جہنم کے کتے کہا گیا ہے۔

میں نے رواں ہفتے دفاعی امور کے ماہر بریگیڈئیر ریٹائرڈ مسعود احمد خان اور خارجہ امور کے ایکسپرٹ سابق سفیر جی آر بلوچ سے گپ شپ کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ کیا طالبان رجیم کو دہشت گردی سے روکنے کی ذمے داری صرف پاکستان کی ہے اور کیا امریکہ اس وقت حرکت میں آئے گا جب کوئی نیا نائن الیون ہوگا تو اس کے دو روز بعد ہی وائٹ ہاوس کے قریب افغان شہری کی طرف سے نیشنل گارڈز پر حملے اوراس کے نتیجے میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کی طرف سے افغانوں کے ویزے روکنے کی خبر آ گئی۔

بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ تاجک وزارت خارجہ نے باقاعدہ طور پر تصدیق کی کہ افغانوں نے اپنی سرزمین سے ان کے بارڈر ایریا پر ایک چینی کمپنی پر ڈرون میزائل فائر کیا جس پر دستی بم اور آتشیں اسلحہ لوڈ تھا، اس ڈرون نے تین چینی انجینئروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گویا طالبان رجیم میں ان خوارج نے ایک مرتبہ پھر "ٹیرر ایکسپورٹ" شروع کر دی ہے اور افغانوں کے بھارتیوں کی پراکسی بن جانے سے جو خطرات صرف پاکستان کو لاحق تھے اب ان کا خطرات کا دائرہ کار پھیل رہا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس وقت دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں جن کو کوئی منہ نہیں لگاتا۔ ان میں سب سے پہلے نمبر پر اسرائیل ہے جو غزہ معاملے پر دنیا بھر کے مہذب عوام کی نفرت کا نشانہ ہے، دوسرے نمبر پر افغانستان ہے مہذب ریاستیں جس کی حکومت کو ہی تسلیم نہیں کرتیں (اور نہ ہی اقوام متحدہ کرتا ہے کہ اب تک وہاں افغانستان کی نمائندگی اشرف غنی حکومت کے مقرر کردہ نمائندے کے پاس ہے) اور تیسرا بھارت ہے جسے دس مئی کے بعد ہزیمت او رناکامی کا سامنا ہے اور یہ تینوں ناکام اور ظالم ریاستیں پوری دنیا کے مقابلے ایک دوسرے کے قریب ہو رہی ہیں، آپس میں براہ راست اور باالواسطہ اتحاد قائم کر رہی ہیں، ان کا مشترکا دشمن پاکستان ہے، یہ اتحاد شیطان کا اتحاد ہے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz