نئے صوبوں کے قیام پر عوامی شنوائی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے نئے صوبوں بالخصوص جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کے قیام کے حوالے سے عوامی سنوائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اس سنوائی میں وہ معیار جاننے کی کوشش کرے گی جس کے تحت نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پنجاب کی تقسیم اور جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کے قیام کے حوالے سے بہت پرانی بحث چل رہی ہے۔
حالانکہ اس آئیڈیا کو مکمل عوامی حمایت حا صل نہیں ہے تاہم سیاسی مقصد کے لیے پنجاب کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں نئے صوبوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ اس لیے سیاسی تعصبات سے بالاتر ہو کر ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے طریقہ کار پر بحث اور اتفاق رائے ناگزیر ہو چکا ہے۔
جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کے قیام پر بہت بات ہوتی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں جنوبی پنجاب کو انتظامی خود مختاری دینے پر کام بھی ہو رہا ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں کسی صو بہ کے فوری قیام کی ضرورت ہے تو کراچی کو دیہی سندھ سے الگ کر کے ایک نیا صوبہ بنانا ہے۔ کراچی کے ساتھ زیادتیوں کی فہرست طویل اور مصدقہ ہے۔ اندرون سندھ کی سیاسی قیادت نے کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہے وہ بھی کراچی کی محرمیوں کی گواہی دیتی ہے، لیکن وہ ان محرومیوں کی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
آج کل کراچی کو ایک فعال اور مضبوط بلدیاتی نظام دینے کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کے مسائل کا حل مضبوط بلدیاتی نظام نہیں بلکہ الگ صوبہ بنانے میں ہی مضمر ہے۔ آپ کراچی کو جتنا مرضی فعال اور مضبوط بلدیاتی و مقامی حکومت کا نظام دے دیں، کراچی کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اندرون سندھ کی سیاسی قیادت ستر سال سے اقتدار میں ہے لیکن کراچی مسلسل نظر انداز ہوتا رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا اور کراچی کی ترقی کی مثالیں دی جاتی تھیں، اور آج کراچی کی پستی اور اس کے مسائل کی پورے پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ایک وقت تھا کراچی سب کے لیے ایک مثال تھا۔ آج کراچی کی محرومیاں سب کے لیے مثال ہے۔
اگر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات کی جا سکتی ہے تو میں کراچی کی سیاسی قوتوں پر حیران ہوں وہ کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی بات کیوں نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعتیں ہزارہ صوبے کے حق میں کیوں نہیں ہیں۔ اگر وسطیٰ پنجاب کی جنوبی پنجاب کے ساتھ زیادتیوں کی بات کی جا سکتی ہے تو اندرون سندھ کی کراچی سے زیادتیوں کی بات کیوں نہیں کی جا سکتی۔ کیا یہ سوال اہم نہیں کہ اگر جنوبی پنجاب سے پنجاب میں وزیر اعلیٰ آسکتا ہے تو سندھ کا وزیر اعلیٰ کراچی سے کیوں نہیں آسکتا۔
اگر جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے پنجاب کے فنڈز کا رخ جنوبی پنجاب کی طرف موڑا جا سکتا ہے تو کراچی کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے سندھ کے فنڈز کا رخ کراچی کی طرف کیوں نہیں موڑا جا سکتا ہے۔ اگر پنجاب میں جنوبی پنجاب کو اولین ترجیح پر رکھا جا سکتا ہے تو سندھ میں کراچی کو اولین ترجیح پر کیوں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اندرون سندھ صرف کراچی پر سیاسی بالادستی کا خواہاں ہے لیکن کراچی کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی جنوبی پنجاب اور بہاولپور کو صوبہ بنانے کے لیے عوامی سنو ائی تو کر رہی ہے لیکن کراچی کو الگ صوبہ بنانے اور کراچی کو انتظامی خود مختاری دینے پر کوئی سنوائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہزارہ صوبہ کے لیے سنوائی کیوں نہیں ہے حالانکہ عوامی سنوائی میں شاید جنوبی پنجاب کے حق میں عوام کی آواز نظر نہ آئے لیکن اگر کراچی کو انتظامی خود مختاری اور الگ صوبہ بنانے کے لیے عوامی سنوائی کی جائے تو عوام کی بڑی تعداد اس میں شامل ہو جائے۔ اسی طرح کے پی میں ہزارہ صوبے کے حق میں سنوائی کی جائے تو وہاں بھی حق میں رائے آئے گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو احساس ہو جائے کہ کراچی اور ہندکو ہزارہ کے عوام کے دل کی آواز کیا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ شاید جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے سے کسی ایک سیاسی جماعت کو تو فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن کراچی کی انتطامی خو د مختاری اور کراچی کو الگ صوبہ بنانے سے پورے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ کراچی کی خوشحالی پاکستان کی خوشحالی ہے۔ کراچی سے انصاف پاکستان سے انصاف ہے۔ اسی لیے کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے۔
حیرانگی کی بات ہے کہ کراچی میں ایک مضبوط بلدیاتی نظام کے لیے دھرنے دینے والی سیاسی قوتیں بھی یہ جانتے ہوئے کہ اندرون سندھ کی کراچی پر سیاسی بالادستی کی موجودگی میں کراچی کو اس کے اس کے وسائل نہیں مل سکتے، پھر بھی بلدیاتی نظام کی ہی بات کر رہی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ا یک طرف پنجاب کی تقسیم کی بات تو دھوم دھام سے کی جاتی ہے لیکن سند ھ کی تقسیم کی بات کرتے ہوئے سب کو سانپ سنگھ جاتا ہے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کو تقسیم کرنے کی بات پر بھی خاموشی چھا جاتی ہے۔ جب پنجاب کی تقسیم کی بات کرنا کوئی غداری نہیں تو سندھ اور خیبر پختونخوا کی تقسیم کی بات کرنا کیسے غداری قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر سندھ والوں کے لیے سندھ دھرتی ماں ہے تو پنجاب والوں کے لیے پنجاب دھرتی ماں کیوں نہیں ہے۔ کیا پنجاب والے اپنی دھرتی ماں سے سندھ کی نسبت کم محبت کرتے ہیں۔ اگر سندھ کی تقسیم کی بات کرنے والے کی سزا موت ہے تو پنجاب میں تقسیم کی بات کرنے والوں کو ہار کیسے پہنائے جا سکتے ہیں۔
پنجاب کے ساتھ کے پی میں بھی ہزارہ صوبہ بنانے کی بات جاری ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو ہزارہ صوبے پر بھی عوامی سنوائی کرنی چاہیے۔ انھیں اندازہ ہوگا کہ ہندکو ہزارہ کو صوبہ بنانے کے لیے لوگوں نے جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ ہزارہ صوبے کے لیے عوامی جذبات سب کے سامنے ہیں۔ لیکن ہزارہ کے لیے اس طرح بات نہیں کی جاتی جیسے پنجاب کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے۔ پنجاب کی سیاسی قوتوں نے بھی ہزارہ صوبے کے لیے ایک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
بلکہ مشاہد حسین نے ہزارہ صوبے کی مخالفت کی ہے حالانکہ انھیں اس ایشو پر بولنا ہی نہیں چاہیے تھاکیونکہ یہ ہزارہ اور ہندکوان کی شناخت اور پہچان کا معاملہ ہے، کسی سیاستدان یا دانشور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی اکائی کی شناخت اور پہچان کی مخالفت کرے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جن صوبوں کے قیام کے لیے عوامی رائے عامہ ہموار ہے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ان پر عوامی سنوائی نہیں کر رہی جب کہ جن کے لیے کوئی عوامی حمایت موجود نہیں، اس پر عوامی سنوائی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال کوئی درست نہیں ہے۔
پاکستان کو نئے صوبوں کی ضرورت ہے کہ نہیں، یہ سوال اہم ہے۔ اگر نئے صوبے بننے ہیں تو ان کا کوئی اصول ہونا چاہیے۔ سیاسی خواہشات پر نئے صو بے نہیں بن سکتے۔ سیاسی ضرورریات کے تحت بھی نئے صوبہ نہیں بن سکتے۔
نئے صوبے عوامی امنگوں کے مطابق ہی بن سکتے ہیں۔ اور عوامی امنگ جاننے کا طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔ جنوبی پنجاب اور بہالپور میں بھی ریفرنڈم کرالیں، کراچی میں بھی کراچی کو الگ صوبہ اور انتظامی خود مختاری دینے کے لیے ریفرنڈم کروالیں۔ ہندکو ہزارہ بلیٹ کو الگ صوبہ بنانے پر ریفرنڈم کرالیں، دود ھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یہی مسئلے کا صحیح حل ہے۔ اب بھی اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو نقصان صرف پاکستان کا ہو گا۔