مجھے ننگے پائوں چلنے والے‘ رونے والے اچھے لگتے ہیں
کیا بھینسیں فروخت کرنے سے ملک میں ڈیم بن سکتے ہیں؟ نہیں بن سکتے، لیکن بھینسیں نہ فروخت کرنے سے بھی تو ڈیم نہیں بن سکے، تو پھر کیا پتہ بھینسیں فروخت کرنے سے ہی ڈیم بن جائیں۔ ان بھینسوں کی فروخت پر بہت واویلا کیا گیا تھا کہ ہائے ہائے ہمارے صاحب ان کا دودھ تھوڑا پیتے تھے۔ وہ تو ان کے سامنے بیٹھ کر بین بجایا کرتے تھے۔ ویسے ان دنوں جو ایک سادگی اور کفائت شعاری اختیار کی جا رہی ہے یعنی وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات کم کئے جا رہے ہیں یہاں تک کہ وہاں مدعو کردہ اکابرین بھی گھر سے کھانا کھا کر ڈنر کے لیے آتے ہیں کہ صرف چائے اور سوکھے بسکٹوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ اب اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا کہ وزیر خارجہ دو چار ساتھیوں کے ساتھ اپنا سامان اٹھائے عامیانہ کلاس میں سفر کر رہے ہیں اوریو این او کا کوئی اجلاس اٹینڈ کرنے جا رہے ہیں۔ صدر مملکت ترکی کے دورے پرجاتے ہوئے اپنا سوٹ کیس کنویئر بیلٹ پر خود ہی گھسیٹ کر رکھ رہے ہیں اور وزیر اعظم استری کے پیسے بچا کر ایک عام شلوارقمیض میں چین جا رہے ہیں اور وہاں ایک بہت نامور چینی تاجر کی پیالی چھلکتی ہے اور چائے خان صاحب کی شلوار پر گر جاتی ہے اور وہ تاجر سے کہتے ہیں کہ آئی ایم سوری اور اس چائے آلودہ شلوار کے ساتھ چینی لیڈروں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اسے بدلنے کے لیے واپس نہیں جاتے۔ کیا یہ سادگی صدق دل سے اختیار کی جا رہی ہے یا یہ محض ایک دکھاوا ہے۔ لوگوں کو الو بنایا جا رہا ہے۔ بے شک وہ پہلے سے ہی الو بن چکے ہیں اور انہیں مزید الو بنایا جا رہا ہے۔ مال روڈ پر گورنر ہائوس کے سامنے سے گزرا تو اس کا آہنی گیٹ کھلا تھا اور سکول کے بچے شور کرتے اندر جا رہے تھے، وہاں وہ سیمنٹ کی فصیلیں اب موجود نہ تھیں "منظر کھل گیا تھا تو کیا یہ بھی ایک ڈھکوسلا ہے۔ میں صدق دل سے یقین رکھتا ہوں کہ جہاں تک عمران خان کی ذات کا تعلق ہے انہوں نے یہ سادگی صدق دل سے اختیار کی ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر میں نے اپنے کسی کالم میں تفصیل سے لکھا تھا جب انہوں نے مجھے اپنے زمان پارک والے گھر میں کھانے کے لیے مدعو کیا تھا ارو وہ گھر شائد ضرورت سے زیادہ سادگی کا مظہر تھا یعنی فرنیچر وغیرہ بہت معمولی۔ پردے خاصے بوسیدہ لگے ہوئے اور تب ان کی پہلی اہلیہ جمائمہ بھی اسی گھر میں رہتی تھیں اور مجھے حیرت ہوئی تھی کہ آخر وہ شہزادیوں سے بڑھ کر پرآسائش زندگی بسر کرنے والی خاتون ایسے معمولی گھر میں کیسے رہتی ہے۔ عمران خان خود لندن میں شہزادوں ایسی پرتعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ ان جیسی شہرت اور شکل کسی اور کے نصیب میں نہ آئی۔ صرف کرکٹ سے ہی نہیں انہوں نے ماڈلنگ سے بھی بے پناہ دولت کمائی کہ وہ تب یورپ کے سب سے زیادہ مہنگے ماڈل تھے۔ ان زمانوں کی تصاویر دیکھئے تو آپ بھی ان کی وجاہت کے اسیر ہو جائیں گے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو دنیا کی ہر راحت اورعیش کثرت سے نصیب ہو تو اگر اس شخص کے اندر ایک شک کرنے والی، سوال کرنے والی روح ہے تو وہ کسی نہ کسی مقام پر پوچھتی ہے کہ کیا ان دنیاوی راحتوں کے سوا بھی کوئی اور راحت ہے۔ تمہاری زندگی کا کیا یہی مقصد ہے۔ تب اس شخص میں ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے اور عمران خان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ میں یہاں اپنے بچپن کے کرکٹ کے ہی کھلاڑی فضل محمود کا حوالہ دوں گا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے اور ان میں میں سرفہرست ہوں کہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں فضل محمود ایسا ڈیشنگ اور خوش شکل کھلاڑی اور کوئی نہ ہوا۔ دراز قامت، سفید دمکتا ہوا چہرہ۔ مسکراہٹ قاتل اورماتھے پر بال بکھرے ہوئے۔ بلکہ فضل محمود کے چاہنے والے عمران خان کو لکڑی کے چہرے والا ایک بناوٹی شکل کا شخص کہتے ہیں۔ وہ بائولنگ کے لیے بھاگتا ہوا آتا تھا تو ایک یونانی دیوتا لگتا تھا اور دنیا بھر کی دیویاں بولڈ ہو جاتی تھیں۔ لڑکیاں اس پر مکھیوں کی طرح مرتی تھیں البتہ وہ بھی عمران کی مانند ایک سجن بے پرواہ تھا۔ کہ پاکستان کے وہ سنہری زمانے یاد نہیں جب پاکستان کی نوخیز کرکٹ ٹیم نے اوول کے میدان میں کرکٹ ایجاد کرنے والوں کو شکست سے دوچار کیا تھا اور یہ فضل محمود تھا جس نے انگریز بلے بازوں کو اپنی بائولنگ کی جادوگری سے "فضلڈ" کر دیا تھا یہ انگریزوں کا کہنا تھا کہ اس نے "پذلڈ" کی بجائے ہماری ٹیم کو فضلڈ کر دیا تھا۔ فضل محمود کی شہرت اور صنف نازک پر ضرب کاری لگانے کی صلاحیت سے متاثر ہو کر اردو نظم کے سب سے بڑے شاعر مجید امجد نے اب ایک کلاسیک ہو چکی نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا "آٹو گراف" یقینا مجید امجد بھی ان کے مداح تھے اور انہوں نے فضل محمود کو اک آن میں دیکھا تو اسے اپنی محرومیوں کے ساتھ بیان کر دیا۔ مختصر قدرے!کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے/ کتابچے لئے ہوئے / کھڑی ہیں منتظر۔ حسین لڑکیاں /ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر، حسین لڑکیاں /کھڑی ہیں یہ بھی راستے پر اک طرف/بیاض آرزو بہ کف/نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں /لرز رہا ہے دم بہ دم/ کمانِ ابرواں کا خَم/کوئی جب ایک نیازِ بے نیاز سے/ کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا/حروف کج تراش کی لکیر سی/تم تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی/کسی عظیم شخصیت کی تمکنت/نسائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی/تو زرنگار پلوئوں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض رک گئی/وہ "بائولر" ایک مہ وشوں کے جمگٹھے میں گھر گیا/وہ صفحۂ بیاض پر بصد غرور کلک گوہریں پھری/حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیان وکٹ گری/ میں اجنبی، میں بے نشاں /میں پابہ گل/ نہ رفعت مقام ہے، نہ شہرت دوام ہے/ یہ لوحِ دل یہ لوحِ دل/نہ اس پہ کوئی نقش ہے، نہ اس پہ کوئی نام ہے!ویسے یہ زمانے کے کھیل ہیں کہ کھلاڑی فضل محمود ایسے گمنام ہو رہے ہیں اور وہ جو اجنبی بے نشان شاعر تھا اس کی جہانوں میں دھوم ہے۔ وہی فضل محمود جو اوول کی فتح کے بعد پیولین کی بالکونی پر کھڑا نیچے کھڑے مداحوں کی جانب شمپئن شراب کا ایک جام چھلکاتا ہے اور اس کی آنکھوں میں ہلکا ہلکا سرور ہے۔ وہی فضل محمود اس کا قالب بدل جاتا ہے، اس کے اندر سے ایک آواز اٹھتی ہے کہ کیا یہی زندگی ہے اور وہ بدل جاتا ہے۔ متعدد دینی کتب تصنیف کرتا ہے اور سول سیکرٹریٹ کے ہر کمرے میں جھانک کر کہتا ہے نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ آئیے اکٹھے ادا کرتے ہیں۔ اشفاق احمد کے قُل کے موقع پر فضل محمود میرے برابر میں آ بیٹھے اور ہم نے اوول کی یادگار فتح کو یاد کیا وہ بڑھاپے میں بھی ایک شہزادے لگتے تھے۔ فضل محمود کی مانند ہی عمران خان اس پرتعیش حیات سے اڑتا گیا اور پھر اپنا طرز حیات بدل ڈالا۔ سادگی اور قبولیت اختیار کی۔ اس کے حریف کہتے ہیں کہ وہ ایک ناکام حکمران ہے اور یہ حکومت زیادہ دیر نہ چلے گی۔ وہ ایک ناکام حکمران ہو گا اس کی حکومت کل ہی گر جائے میری بلا سے۔ لیکن اگر یہ ایک زمانے میں کھلنڈرا شخص مدینے کی خاک پر قدم رکھتا ہے تو ننگے پائوں رکھتا ہے۔ وہ جہاز سے اترتا ہے اور وہ ایک ایٹمی طاقت کا ایک بڑے اسلامی ملک کا وزیر اعظم ہے اور جتنے بھی شہزادے اور اعلیٰ حکام اس کے استقبال کیلئے آئے ہیں ان کے پائوں میں جوتے ہیں اور صرف وہ ہے جو ننگے پائوں ہے اور وہ روضہ رسول ؐ کی جالیوں پر آنکھیں رکھے رو رہا ہے تو مجھے بس یہ ننگے پائوں آنے والے، میرے پیغمبرؐ سے عشق کرنیوالے اور رونے والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ بھلے وہ ایک ناکام حکمران ہوں۔ کل ان کی حکومت گر جائے تب بھی مجھے ایسے لوگ اچھے لگتے ہیں جو ننگے پائوں ہوتے ہیں اور روتے ہیں :کِتھے مہر علی کِتھے تیری ثنا