کتاب کائنات کا سفر نامہ
ہم میں سے وہ لوگ جو تاریخ کی گتھیاں سلجھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں یقیناً ولیم ڈیل رمپل کے نام سے واقف ہوں گے۔ اس نے اپنی پہلی کتاب "ذی ناڈو کی تلاش میں " صرف بائیس برس کی عمر میں تحریر کی اور پوری دنیا میں ایک سفرنامہ نگار اور تاریخ دان کے طور پر متعارف ہو گیا۔ یہاں تک کہ لنڈن کے ٹائمز نے اس کی توصیف میں لکھا کہ اتنی کم عمری میں اتنی بڑی کتاب لکھنا کچھ معیوب سا لگتا ہے۔ ذی ناڈو دراصل قبلائی خان کا وہ شاندار دارالسلطنت تھا جس کے محلات اور پر شکوہ عمارتوں کی دھوم پوری دنیا میں تھی۔ ڈیل رمپل اس کھوئے ہوئے شہر کے کھنڈروں کی تلاش میں نکلا تھا۔ ازاں بعد اس کی توجہ زیادہ تر مغلوں کی تاریخ پر مرکوز ہو گئی اور اس نے "دِلّی جنات کا شہر۔ وہائٹ مغل" اور "ریٹرن آف اے کنگ" کے علاوہ بہادر شاہ ظفر کے بارے میں "آخری شہنشاہ" کے نام سے نہایت دلچسپ اور تحقیقی کتب تحریر کیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مغلوں کے عہد کے ساتھ تاریخ دانوں نے انصاف نہیں کیا اور وہ کئی جلدوں پر محیط مغلوں کی تاریخ کے بارے میں ایک تحقیقی تاریخ قلمبند کرنا چاہتا ہے۔ ڈیل رمپل میرا پسندیدہ ترین مصنف ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کہیں ایک سطر بھی لکھے اور میں اسے ایک وارفتگی کے ساتھ نہ پڑھوں۔ ڈیل رمپل لاہور میں آیا تھا لیکن حسب معمول اسے یہاں کے متمول مجلسی دانشوروں نے گھیرے میں لے لیا اور ہم جیسے معمولی لوگ اس تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ وہ زیادہ تر دلی میں ہی قیام پذیر ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں اس کی ایک تصویری کتاب "تاریخ دان کی آنکھ سے" منظر عام پر آئی جس میں اس کی کیمرے سے نہیں بلکہ موبائل فون سے کھینچی ہوئی حیرت انگریز تصویریں شامل ہیں۔ مجھے ایک مرتبہ پھر اپنی کم علمی پر شدید ندامت ہوئی کہ دنیا تو دور کی بات ہے میں تو ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی مسلم عمارتوں کے وجود سے بھی واقف نہیں۔ مثلاً اس مجموعے میں دکن کے پرانے دارالخلافہ بدر میں واقع پر نقش و نگار اور دل پذیر خطاطی سے مزین مقابر اور مساجد کی حیرت انگیز تصویریں ہیں اور میں تو آج تک اس علاقے بِدر کے نام سے بھی آگاہ نہ تھا۔ بِدر باہمنی سلطانوں کی مملکت کا مرکز تھا جن کا عہد چودھویں اور پندرہویں صدی پر محیط ہے۔ یہ علاقہ حیدر آباد کے شمال میں تین گھنٹے کی دشوار مسافت پر واقع ہے اور آج گمنامی کی دُھول میں گم ہے۔ ڈیل رمپل کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی عمارتیں حیران کن حد تک ایران کے شہراصفہان سے مماثلت رکھتی ہیں۔ بدر آس پاس کی ہندو ریاستوں کے درمیان ایک ایرانی پھول کی مانند کھلا ہوا تھا۔ آج بھی وہاں کی خواتین کا لباس ایرانی طرز کا ہے۔ بدر کے ایک مقبرے پر جو نقاشی اور خاص طور پر خطاطی کی تزئین ہے وہ بے مثال ہے۔ اس تصویری تاریخ میں کشمیر، ایبٹ آباد، چترال، ہنزہ اور سکردو کے نہایت دل کش نقش بھی دل کو خوشی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے ہی ایک اور اہم اور بہت ضخیم کتاب "دے سِلک روڈز" کے نام سے شائع ہوئی ہے جس کے مصنف پیٹر فرانکوپین ہیں۔ یہ عہد قدیم کے ان اہم تجارتی راستوں اور شاہراہوں کے بارے میں ہے جن پر ان زمانوں کا معاشی نظام قائم تھا اور قابل فہم طور پر یہ سب شاہراہیں مشرق کے ملکوں میں سے مغرب کی جانب رُخ کرتی ہیں۔ ہم ایک عرصہ تک شاہراہ قراقرم کو سلک روڈ یا شاہراہ ریشم کے نام سے پکارتے رہے حالانکہ شی آن چین سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ کہیں بھی ہمارے خطوں میں داخل نہ ہوتی تھی۔ بالا ہی بالا افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی جانب چلی جاتی تھی۔"دے سلک روڈز" اگر آپ کے پاس وافر وقت ہے تو اس کا مطالعہ بہت سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ میں اس کتاب تک بھی ڈل رمپل کے راستے پہنچا کہ اس نے کہیں اس کا تذکرہ کیا کہ یہ ایک نڈر اور شاندار تاریخ ہے جو ایک بہت بڑے کینوس پر تحریر کی گئی ہے۔ میں ایک نہایت مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں جو اس عہد کے مسلمانوں کی زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ایک عیسائی راہب مسلمانوں کے علاقے میں چند روز بسر کر کے واپس آتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ یہ لوگ تمام مذاہب کی عزت کرتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ ان کا سلوک مثالی ہے۔ دن کے وقت پاکیزہ زندگی بسر کرتے ہیں اور راتوں کو عبادت کرتے ہیں اور میدان جنگ میں شیروں کی مانند لڑتے ہیں۔"دے سلک روڈز" میں کولمبس اور واسکو ڈی گاما کے بے مثال کارناموں کا بھی تذکرہ ہے اور وہ کولمبس کے کسی خط کا حوالہ دیتا ہے کہ…ان نودریافت جزائر کے لوگ بہت طاقتور اور جری ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ انہیں اپنی فوج میں بھرتی کر کے مسلمانوں کے خلاف لڑانا چاہیے۔ اسی طرح واسکو ڈی گاما نے آغاز میں یہ رپورٹ کی "ہندوستان میں نہایت شاندار کلیساہیں۔ بہت دولت مند ہیں اور ان میں عیسائی عبادت کرتے ہیں " جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہندوئوں کے مندر دیکھے تھے جنہیں وہ چرچ سمجھ بیٹھا تھا۔ جے ایم کوئٹ ذی کو 2003ء میں ادب کا نوبل انعام عطا کیا گیا تھا۔ میں اس کے دو ناولوں کا بے حد مداح ہوں۔"ڈِس گریس" اور "ڈینگ فار دے باربیرینز" پچھلے دنوں میں نے اس کا ایک پرانا ناول "سلومین" پڑھا تو مزید مداح ہو گیا۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جس کی ایک سطر بھی آپ نہیں چھوڑنا چاہتے۔ ایک ساٹھ برس کا سڑیل مزاج شخص پال ریمنٹ سائیکل پر جا رہا ہے کہ ایک نوجوان ڈرائیور اسے یوں اچھال دیتا ہے کہ وہ ہوا میں اڑتا فٹ پاتھ پر جا گرتا ہے۔ اس حادثے کی وجہ سے وہ ایک ٹانگ سے محروم ہو جاتا ہے اور اپنی نرس مریجانا کے عشق میں مبتلا ہو کر خوار ہوتا ہے بس اتنی سی کہانی ہے جسے کوئٹ ذی کے قلم نے شاہکار بنا دیا ہے۔ ان ناولوں کے علاوہ مجھے فریڈرک بیک مین کا "بیئر ٹائون" اور ہالہ البدری کا "اے سرٹین وومین" پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا اور میں اسے ایک حسین اتفاق کہنے سے اجتناب کرتا ہوں۔ اب میں اردو کی جانب آتا ہوں لیکن ان کتب کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کی گنجائش اس کالم میں کم رہ گئی ہے۔ ایک اور کتابی کالم لکھنے کی سکت نہ مجھ میں ہے اور نہ ہی پڑھنے کی ہمت آپ میں ہے تو صرف ایک فہرست درج کر دیتا ہوں …ڈاکٹر محمد اویس قرنی جنہوں نے کرشن چندر کے فن اور شخصیت کے بارے میں ایک اہم دستاویز ترتیب دی۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ "اگلی بار" بھی اہم ہے۔ حسین مجروح کے تناور مجرد اشعار کا مجموعہ "اشعار" و لذت وصل خوب ہے لیکن۔ پہلے بوسے کی سنسنی توبہ…"اجالوں کے سفیر" معذوری سے متعلق انٹرویوز اور مضامین پر مبنی ایک اہم کتاب جس میں تہمینہ صابر کا مضمون نہایت شاندار ہے۔ ساجد سومرو کی "کہانی سانس لیتی ہے" شجاع شاذ کا شعری مجموعہ "محبت بدلتی رہتی ہے " ؎مجھے یہ غم نہیں کوئی نہیں ہے میرے ساتھمجھے یہ غم ہے محبت بدلتی رہتی ہے مسعود منور کا مجموعہ "ہُو" عذاب توں بچ، ثواب توں بچ، جے بچ سکیں تے حساب توں بچ۔ صادق محمود مرزا کا سفر نامہ "دنیا رنگ رنگیلی" قیصر عباس صابر کے سفر نامے "سفر کیلاش کے" اور "داستان دیوسائی" نوید الٰہی کے تراجم "ووئی دے پوئٹس" سید کاشف رضا کا ناول جس کی توصیف محمد حنیف نے بھی بہت کی "چار درویش اور ایک کچھوا" علاوہ ازیں ہندوستان سے شین کاف نظام کا ادبی جریدہ "استفسار" اس کے سوا پاکستانی ادبی جرائد میں سے "پیلوں۔ تخلیق۔ الحمرا" اور "استعارہ" کے نئے شمارے منظر عام پر آئے۔