حسن یوسف اور مولوی غلام رسول عالمپوری
جب کبھی کوئی کھوئی ہوئی یاد دل کے نہاں خانوں میں سراب کی صورت، ایک دھندلے خواب کی صورت یوں جھلملانے لگتی ہے کہ کبھی وہ صاف ظاہر ہوتی ہے اور کبھی بیتے زمانوں کے اندھیاروں میں گم ہو جاتی ہے تو تین چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اس یاد کو سراب سے دریافت کر کے آپ کی یادداشت کے جھروکوں میں پہچان کے چراغ جلا دیتی ہیں ایک تو شکل، کوئی منظر، کوئی لینڈ سکیپ، دوسری چیز ہے خوشبو اور تیسری چیز ہے کوئی آواز کوئی گیت کوئی لَے۔ تو ہم ابھی لینڈ سکیپ یا خوشبو سے صرف نظر کرتے ہیں کہ یہ موضوع طوالت کا متقاضی ہے اور صرف آواز اور لَے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں ایک ملنگ فقیر ہے جو کبھی میرے گائوں اور کبھی شہر لاہور کی گلیوں میں گاتا پھرتا ہے۔ اس کے سبز چولے کا رنگ عجب ہے اور اس کی دائیں کلائی میں پانچ چھ لوہے کے کڑے آویزاں ہیں اور وہ دائیں ہاتھ میں ہی ایک لکڑی کا تیل میں بھیگا ہوا دو بالشت کا گول ڈنڈا تھامے ہوئے ہے۔ وہ اس ڈنڈے سے بازوئوں میں جھولتے آہنی کڑوں پر ایک خاص ردھم میں ضرب لگا کر ان میں سے ایک مجذوب سی لَے تخلیق کرتا ہے اور وہ بلند اور درد بھری آوازمیں گلیوں میں گاتا پھرتا ہے کہ "جس ویلے یعقوب نَبی تھیں یوسف ہویا راہی" یہ قصہ یوسف زلیخا کے ساتھ میرا پہلا تعارف تھا جو آج بھی میرے ذہن کے اندر اپنی مخصوص لَے کے ساتھ محفوظ ہے اور مجھے ستر برس پیشتر کے زمانوں میں لے جاتا ہے۔ لوگ اکثر اسے دارے میں لے جاتے ہیں اور وہ بلا تکان قصہ یوسف زلیخا گاتا رہتا ہے اور جب کبھی وہ یہ مصرعہ دوہراتا ہے کہ۔ جب یعقوب نبی سے یوسف جدا ہو کر راہی ہوا۔ تو سننے والوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور اسی مصرعے کے راستے میں بالآخر ادھیڑ عمر میں مولوی غلام رسول عالم پوری کے شاہکار"احسن القصص" یعنی "قصہ یوسف زلیخا" تک پہنچا۔ یہ ہم پنجابیوں کی بدقسمتی ہے جس کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں کہ ہم پنجابی "دیکھ" نہیں سکتے اور ہمیں پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہم نے انگریزی، اردو، فارسی اور عربی کو اپنایا اور پنجابی پرائی کر دی۔ دراصل کوئی بھی زبان جس پر آپ کا کسی حد تک عبور ہو"پڑھی" نہیں جاتی۔"دیکھی" جاتی ہے۔ اس کا ہر لفظ آپ کی یادداشت پر مثبت ہوتا ہے اور آپ اس لفظ کے ہجے نہیں کرتے اسے صرف دیکھ کر جان جاتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ آپ کی آنکھیں اس لفظ کی شکل اور ہئیت سے آشنا ہوتی ہیں اس لئے آپ اسے دیکھ کر جان جاتے ہیں کہ یہ کیا ہے یعنی اسے "پڑھتے" نہیں صرف دیکھتے ہیں اور شناسائی کا در کُھل جاتا ہے۔ چنانچہ ہم پنجابی دیکھتے نہیں پڑھتے ہیں اور مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بے حد دشواری ہوتی ہے اور پھر ہم اس زبان کی لامتناعی وسعتوں سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ اکثر لفظ ہمارے سر سے گزر جاتے ہیں۔ بہر طور یہ سب خامیاں میرے اندر بھی موجود تھیں لیکن میں نے اپنے تئیں کوشش کی۔ اپنے آپ کو وقف کیا اور تب جا کر کسی حد تک پنجابی نثر اور شاعری کی عظمت کی قربت میں پہنچا۔ جہاں تک ممکن تھا میں نے بلھے شاہ، شاہ حسین، دمودر، وارث شاہ، سلطان باہو، میاں محمد بخش کی عظیم شاعری کے جہانوں میں رسائی حاصل کرنے کی اکثر ناکام سعی کی لیکن جب میں "احسن القصص" کے سمندر میں اترا تو مولوی غلام رسول نے تو اپنی قادر الکلامی سے مجھے ڈبو دیا، خوب غوطے دیے۔ ان کی بے مثل لفاظی سے جانبر ہونا مشکل تھا لیکن میں بھی غوطے کھانے کے بعد سانس درست کرتا اور پھر سے مولوی غلام رسول کے بحر بے کراں میں اتر جاتا۔ اگرچہ میرے لئے یہ ایک مشقت تھی لیکن اس مشقت میں تخلیقی معجزوں اورزبان کی سحر طرازیوں کے جولطف اٹھائے ہیں۔ جی جانتا ہے۔ پنجابی کے صوفی اور رومانی شعرا کا آپس میں موازنہ کرنا کہ ان میں سے کون افضل ہے صرف کوتاہ بینوں کا کام ہے کہ ان سب کے اپنے اپنے عرش ہیں۔ اپنے اپنے راج سنگھاسن ہیں لیکن مولوی غلام رسول کے ساتھ ہم نے بہت غفلت برتی اور انہیں بہت کم ان بڑے شاعروں کی صف میں شامل کیا گیا۔ جب کہ ان کے کلام کی تاثیر اور لفظوں پر حکومت کی مثال کم کم ملتی ہے۔ جس شخص نے صرف پندرہ برس کی عمر میں "داستان امیر حمزہ" شروع کی جو بالآخر بیس ہزار اشعار میں مکمل ہوئی"روح الترتیل" انیس برس کی عمر میں تصنیف کی اور "احسن القصص" جیسا شاہکار چوبیس برس کی عمر میں مکمل کیا اس کے نابغہ روزگار ہونے میں کسی شک کی گنجائش ہے؟ ۔ مولوی صاحب 1849ء میں عالم پور ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے اور صرف تینتالیس برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ اس مختصر حیات میں انہوں نے "احسن القصص" کے علاوہ سی حرفی سسی پنوں، سی حرفی چوپٹ نامہ، پندھ نامہ کے علاوہ حضرت محمد رسول اللہ کے حلیہ شریف کے بارے میں جو بیان تحریر کیا ہے، اس کی ہر سطر نے مجھ پر وجد طاری کر دیا۔ ’جسم شریف لطیف انور خوشبو ناک کستوریوں بھاوندا اے/اک وار جس راہ تھیں گزر جاندے کئی مدتاں اثر نہ جاوندا اے/یاراں دے وچ ممتاز سوہنا ایسا ہور سوہنا کون آیا ای/ جانی سوہنے دا سب کُجھ اَنت سوہنا اول آخروں ایہہ فرمایا ای/ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے دوستوں کے نام جو منظوم چٹھیاں لکھی ہیں ان کی اثر انگیزی تو رُلا دیتی ہے۔ ’رو رو لکھئے چٹھئیے درد بھرئیے پتہ نہیں پردیس دے واسیاں داپھیرا گھت پُرانیاں سجناں تے چل پچھ لے حال اداسیاں دا"قصہ یوسف زلیخا" پڑھتے ہوئے جب پہلی بار حضرت یوسف سامنے آتے ہیں تو مولوی صاحب نے ان کے حُسن کے بیان میں صفحے کے صفحے لکھ ڈالے۔ تشبیہات اور موازنے ایسے استعمال میں لائے کہ انسان سحر زدہ ہو جائے۔ حضرت یوسف جب بھی اس قصے میں ظاہر ہوئے مولوی صاحب نے ان کے حُسن کی مثالوں سے حیران کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب پانچویں یا چھٹی مرتبہ حضرت یوسف نمودار ہوئے تو میں نے کتاب بند کر دی اور اپنے آپ سے نہیں مولوی صاحب سے دل ہی دل میں مخاطب ہو کر کہا" مولوی صاحب، اب کیا کرو گے۔ حرف سب تمام ہوئے۔ لفاظی بنتی تھی وہ آپ نے صرف کر دی تو اب یوسف کے حسن کے بیان کے لئے کیا کرشمہ کرو گے؟ ۔ اور خواتین و حضرات یقین کیجیے مولوی صاحب نے پھر کئی صفحے لکھ ڈالے۔ کیسے؟ انہوں نے نئی تراکیب تراشیں۔ نئے لفظ ایجاد کئے۔ پرانے حرفوں کو نیا روپ دیا یعنی زبان ہی نئی تخلیق کر ڈالی۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ایک بڑا لکھنے والا ایک نئی گرائمر بناتا ہے۔ نئی لفاظی تراشتا ہے۔ بامحاورہ اور گرائمر کی پیروی کرتے ہوئے سوفیصد درست نصابی زبان لکھنے والے صرف منشی لوگ ہوتے ہیں۔ بڑا ادیب اپنی زبان لے کر خود آتا ہے اور اسے نئے پیکروں میں ڈھالتا ہے۔ مولوی غلام رسول عالم پوری ان معاملات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ میں اگر مولوی غلام رسول عالمپوری کانفرنس پر دیگر زعما کے ہمراہ سٹیج پر بیٹھا تھا تو اس لئے کہ میں مولوی صاحب کواپنا مرشد مانتا تھا اور میں ہر اس شخص کو اپنا مرشد قرار دیتا ہوں جس کی لکھتوں سے میں نے لکھنا سیکھا۔ وہ بلھے شاہ، سچل سرمست یا شاہ حسین ہوں، ٹالسٹائی، ہرسے سراماگو۔ والٹ وہٹ مین یا ٹی ایس ایلیٹ ہو یا پھر امرائو جان ادا ہو۔ علاوہ ازیں مولوی صاحب کے خانوادے کے صاحبزادہ سعود احمد نے بھی شدید خواہش کی کہ صدارت کا بوجھ مجھ ناتواں پر ہی ڈالا جائے۔ میرا دل خوشی سے بھر گیا جب میں نے دیکھا کہ بھرے ہوئے ہال میں اکثریت نوجوان لڑکیوں کی تھی جو پنجابی کے اس بڑے شاعر کی مداح تھیں۔ گویا وہ اپنی اصل ثقافت اور زبان کی جانب لوٹ رہی تھیں۔ یہ کانفرنس صغرا صدف کے ادارے پلاک نے لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے تعاون سے منعقد کی۔ اس یونیورسٹی کی متنانت بھری ڈاکٹر مجاہدہ بٹ کے مقالے نے مجھ پر کئی در روشن کر دیے۔ صاحبزادہ سعود عالم پوری ایک شخص نہیں ایک ادارہ ہیں۔ جنہوں نے مولوی صاحب کی عظمت کے کئی چراغ ان کی کتابوں کی صورت میں روشن کئے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے ہندوستان جا کر مولوی صاحب کے مرقد پر حاضری دیتے ہیں۔ ان کی لگن قابل تقلید تھی۔ میں ایک مدت بعد پلاک کی عمارت میں داخل ہوا تھا۔ تب صغراصدف اور سٹیج پر بچھا قالین نئے نکور تھے۔ صغراکو تو نہیں البتہ قالین کو اگر بدل دیا جائے تو کچھ حرج نہیں۔ یہ قالین ایک مغل نوادر کے طور پر آسانی سے بازار میں فروخت ہو جائے گا۔